Ali HassanColumn

نیا پاکستان اور بھٹو ( دوسرا حصہ )

تحریر : علی حسن
’’ بھارت کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں یا تو وہ حق و انصاف کی بات مان لے یا پھر ہمیشہ کے لئے ہماری دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ اس معاملے میں ہم اپنی ہمت اپنے استقلال اور اپنے عزم کا کبھی سودا نہیں کریں گے۔ ہم ایک پاکستان کے لئے لڑیں گے۔ ہم اپنے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کے ساتھ ہر معاملہ کر لیں گے بشرطیکہ یہ معاملہ ہم آپس میں کریں۔ میں آئین بہت جلد دوں گا یہ آئین میرا نہیں ہو گا میں تو عوام کا ملازم ہوں لوگوں کو جانتا ہوں ان کی مرضی جانتا ہوں میں ہر وہ چیز جانتا ہوں جو وہ چاہتے ہیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ لوگوں کی ضرورت کے مطابق آئین دیں گے لیکن مجھے وقت دے دیں۔ میں پھر یہ کہتا ہوں کہ ہم نے جنگ ہاری نہیں ہے۔ ہمارے فوجیوں اور لوگوں کو اس بات پر شرم نہیں آنی چاہئے۔ دراصل اپنے سسٹم کا شکار ہوئے ہیں ورنہ ہمارے بہادر سپاہی مشرقی پاکستان میں جس دلیری کے ساتھ لڑے ہیں اس کے سامنے ڈنکرک کی لڑائی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ مغربی ممالک کے اخبارات اور نشریاتی اداروں نے لڑائی کے بارے میں بڑی گمراہ کن خبریں دی ہیں لیکن دنیا کے بڑے بڑے فوجی جرنیلوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان جیسا بہادر فوجی دنیا بھر میں کہیں نہیں ہے۔ میں اپنی فوج کے بہادر جوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے حوصلے بلند سے بلند تر رکھیں ہم انتقام لیں گے ہم آپ کا وقار انشا اللہ نہ صرف بحال کرائیں گے بلکہ بلند سے بلند تر کریں گے قوم کو اب تک جھوٹے وعدوں پر رکھا گیا۔ ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیا جاتا رہا لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ آپ لوگوں سے سچ بولوں گا۔ ہمیشہ ٹھیک ٹھیک بات کروں گا۔ اور ہر مسئلہ آپ لوگوں کی منظوری کے لئے پیش کروں گا۔ ہو سکتا ہے کہ میرے بعض فیصلے آپ کو پسند نہ آئیں، لیکن میں کوشش کروں گا کہ آپ کو ان کے بارے میں سمجھائوں۔ مجھے اس بات کا بڑا رنج ہے کہ ہمیں مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پڑے، لیکن اگر ہمارے ملکی حالات ٹھیک ہوتے تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ میں ملک کے اقتصادی اور سماجی مسائل کی طرف بہت جلد ضروری قدم اٹھائوں گا۔ میرا وعدہ ہے کہ عدم مساوات دور ہو گی۔ عام آدمی کی مشکلات دور کی جائیں گی۔ رشوت، اقربا پروری اور بدانتظامی کا دور فولادی ہاتھوں سے ختم کر دیا جائے گا۔ میں کام کرنے سے نہیں گھبراتا اور چوبیس گھنٹے کام کرنے کا عادی ہوں اور ہر ایک کو اسی طرح کام کرنا ہو گا۔ یہ چائے پارٹیاں اور دعوتیں اب ختم ہونی چاہئیں۔ نوکر شاہی کو اپنا طریقہ کار بدلنا ہو گا۔ سرکاری ملازمین کو چاہے وہ بڑے افسر ہوں یا چھوٹے۔ سب کو عوام کی خدمت کرنی ہو گی۔ یہ بات صرف اسلام آباد کے سکریٹریٹ میں کام کرنے والوں کے لئے ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ہر جگہ کام کرنے والے سرکاری افسروں کو اس پر عمل کرنا ہو گا۔ میں بغیر اعلان کئے سفر کروں گا۔ کبھی رحیم یار خاں کبھی چترال کبھی میر پور خاص اور کبھی لائل پور اور خود دیکھوں گا کہ لوگوں کو سرکاری افسروں سے کیا تکالیف ہیں۔ ہماری پولیس پر نظم و ضبط قائم رکھنے کی بڑی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے پولیس بد نام ہو چکی ہے۔ اس بدنامی میں کچھ قصور تو پولیس کا ہے لیکن کچھ قصور ہمارا بھی ہے کہ ہم نے ان کے لئے اور ان کے بال بچوں کے تعلیم و تربیت اور علاج و معالجے کے معقول انتظامات نہیں کئے۔ ہم پولیس کی جائز شکایات جلد دور کریں گے لیکن ساتھ ہی میں پولیس سے کہوں گا کہ وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کریں۔ عام آدمی اور خصوصا غریب آدمی کی عزت کریں۔ عام آدمی گزشتہ سال سے بے عزت ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے ساری قوم بے عزت ہو گئی ہے۔ میں کسی کی کوئی سفارش نہیں مانوں گا۔ میرا نہ کوئی رشتہ دار ہے اور نہ ہی کوئی خاندان ۔ میرا خاندان پاکستان کے لوگ ہیں اور میرے بچے پاکستان کے تمام بچے ہیں۔ میرے پاس کوئی سفارش کے لئے نہ آئے اور نہ ہی مجھ سے اس قسم کی کوئی امید رکھی جائے اگر میری بیوی اور میرے بچے یہ سمجھتے ہوں کہ وہ سفارش سے کوئی کام مجھ سے کرا لیں گے تو وہ غلطی پر ہیں۔ میں تمام صنعت کاروں اور مزدوروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ کارخانے بند نہیں ہوں گے، اور مزدوروں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی بھی نہیں ہونے دی جائے گی۔ میں بہت جلد زرعی اصلاحات نافذ کروں گا۔ زرعی اصلاحات دو حصوں میں نافذ کی جائیں گی، ضروری حصہ پہلے اور بعد میں دوسرا حصہ۔ ان اصلاحات کے نفاذ یا ان کو غیر موثر بنانے کے لئے جو بھی رکاوٹ پیدا کرے گا اسے سخت سزا دی جائے گی۔ لیبر ریفارمز یعنی مزدوروں کے لئے اصلاحات بھی جلد نافذ کی جائیں گی۔ میں چاہتا ہوں کہ زرعی یا صنعتی پیداوار میں کسی قسم کی کمی نہ ہونے پائے۔ اگر کمی ہوئی تو ایسی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ پاکستان کا روپیہ غیر ملکی کرنسی میں تبدیل ہو کر غیر ممالک میں جائے۔ لہذا ایسے تمام لوگوں سے جنہوں نے اس قسم کا روپیہ باہر رکھا ہوا ہے، میں کہوں گا کہ وہ چند دنوں میں ایسی رقمیں واپس منگوا لیں۔ میں چند دنوں میں اس بارے میں احکامات جاری کرنے والا لہذا جو لوگ پاکستان کا خون ( روپیہ) باہر لے گئے ہیں وہ یہ خون فورا واپس لے آئیں۔ لوگوں کو وہ خون چاہئے ہماری فوجوں کو یہ خون چاہئے۔ میں کسی کو باہر نہیں جانے دوں گا۔ میں کسی کی فیملی کو نہیں چھوڑوں گا جب تک باہر کے ممالک سے روپیہ پاکستان میں واپس نہ آجائے۔ میں اس سلسلے میں کمیٹی یا کمیشن بنانے کا قائل نہیں ہوں۔ میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جن کے پاس باہر روپیہ ہے۔ ہمیں ہتھیار ٹینک اور دوسرا سامان خریدنے کے لئے یہ روپیہ چاہئے اس لئے یہ روپیہ واپس آ جانا چاہئے ۔ طلباء میرے بچے ہیں میں طلبا کا بڑا احسان مند ہوں ۔ طلباء ہی کی مدد کی بدولت میں دو بڑی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود کامیاب ہوا۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کے انتخابات کی سیاست میں دخل نہیں دیں گے۔ ہماری کوئی پارٹی نہیں ہے سب طالب علم ہمارے بچے ہیں۔ میری کوشش یہ ہوگی کہ صوبوں کے نظم و نسق اور انتظام میں کوئی خلا باقی نہ رہے اور صوبوں کے انتظام میں بھی سیاسی اور عوامی نمائندوں کو بالا دستی حاصل ہو۔ میں اپنی کا بینہ بہت جلد بنائوں گا لیکن یہ کابینہ عارضی ہو گی ۔ سب چیزیں فی الحال عارضی ہوں گی ۔ مستقل انتظام تب ہو گا جب ملک کا آئین لوگوں کی منظوری کے بعد نافذ ہو جائے گا۔ اس وقت مجھ سمیت ہر چیز عارضی ہے۔ مجھے اس مشکل وقت میں پاکستان کے قابل ترین اور ذہین افراد کے تعاون اور مدد کی ضرورت ہے۔ میں ان لوگوں کو اندرون اور بیرون پاکستان اچھی پوزیشنوں پر دیکھنا چاہتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں کسی ایسے فرد یا افراد کو کوئی ذمہ داری سپرد کروں گا تو وہ قبول کر لیں گے۔ میں اپنی بہادر افواج کا ہمیشہ سے مداح اور قدر داں رہا ہوں۔ ہماری افواج نے ہمیشہ اپنے وطن عزیز کی بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ حفاظت کی ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں ۔ شاباش تم بڑی بہادری سے لڑے، تم نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔ تم پاکستان کے ناقص نظام کا شکار ہو گئے، لیکن میں اپنی افواج سے براہ راست رابطہ پیدا کروں گا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال میں وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کا نگراں خود رہوں گا۔ تاکہ میں ذاتی طور پر ان لوگوں کی شکایات دور کر سکوں۔ اے پاکستان کی فوج کے بہادرو! مجھے معلوم ہے آج تم بے چین ہو لیکن ذرا انتظار کرو ہم تم مل کر ایسا انتظام کریں گے کہ تمہاری عزت، ہماری عزت اور ہمارے ملک کی عزت بحال ہو جائے۔ میں نے چند اہم اور ضروری فیصلے آج ہی کر لئے ہیں۔ اور ان پر فوری طور پر عمل در آمد ہو چکا ہے۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خاں کے علاوہ فوج کے چھ اور جرنیلوں کو ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کو قائم مقام کمانڈر انچیف افواج پاکستان مقرر کر دیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے اس عہدے کا چارج بھی لے لیا ہے۔ ہمارا ملک غریب ہے ہم اتنے زیادہ و مکمل جنرل نہیں رکھ سکتے۔ لہذا گل حسن صاحب کا یہ رینک لیفٹیننٹ جنرل کا ہی رہے گا۔ مجھے گل حسن صاحب پر پورا اعتماد اور بھروسہ ہے لیکن یہ تمام انتظامات عارضی ہیں۔ مستقل انتظامات بعد میں کئے جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن افواج پاکستان کی از سر نو تنظیم کر کے اس کی شان و شوکت دوبالا کر دیں گے۔ جن جرنیلوں کو آج ہی سے ریٹائر کر دیا گیا ہے ان کے نام یہ ہیں۔ جنرل عبدالحمید، لیفٹیننٹ جنرل پیرزادہ، میجر جنرل عمر، میجر جنرل خداداد خان میجر جنرل کیانی، میجر جنرل مٹھا۔ ان فوجی افسروں کو افواج پاکستان اور ان کی عین خواہش کے مطابق با عزت طور پر فوج کی ملازمت سے سبکدوش کیا گیا ہے۔ میں نے یہ کارروائی عوام اور نوجوان افسروں کی خواہش کے مطابق کی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں ان میں سے بہت سے افسروں سے واقف نہیں۔ میں نے انہیں کبھی دیکھا تک نہیں۔ میرا دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ میں نیشنل عوامی پارٹی پر سے فوری طور پر پابندی ہٹا رہا ہوں۔ میں یہ کام نیک نیتی سے کر رہا ہوں اور یہ سمجھ کر کہ ہم سب محب وطن ہیں میں اس پارٹی کے سربراہ سے بھی درخواست کر رہا ہوں کہ وہ مجھ سے جلد ملیں۔ دوسری پارٹیوں کے لیڈروں سے بھی میں جلد مل کر بات چیت کروں گا میں سب سے مشورے کروں گا اور ہر ایک کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن اگر کسی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے خلوص کا غلط مطلب سمجھا اور کوئی شرارت کی تو پھر آپ جانتے ہیں میں بھی اس کا فوراً جواب دوں گا۔ ہم تمام ممالک خصوصا تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں لیکن ہمیں پاکستان کے مفاد کے سامنے رکھ کر اپنی پالیسی پر از سر نو غور کرنا ہو گا۔ گزشتہ دنوں جو ضمنی انتخابات ہو گئے ہیں ان کے نتائج میں کالعدم قرار دے رہا ہوں وہ انتخابات نہیں تھے بلکہ ہماری توہین تھی۔ دسمبر1970ء کے انتخابات میں جو اصحاب کامیاب ہوئے تھے مسٹر نور الامین اور ایک قبیلے کے سردار ( جو آج کل باہر گئے ہوئے ہیں) میں ان سے صلاح مشورہ اور بات چیت کروں گا۔ آخر میں آپ سے ایک بار پھر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کی بات کروں گا، آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں۔ مجھے آپ پر بھروسہ ہے۔ میں آپ کی مدد و تعاون کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گا۔ ہمارا اسلام ہمارا رہنما اور اسلام ہی ہمارا عقیدہ ہے۔ ان شاء اللہ ہم کامیاب و کامران ہوں گے۔ ہم فتح حاصل کر کے رہیں گے اور ہماری اولاد کی اولاد بھی ہمیں نہیں بھولے گی۔ پاکستان پائندہ باد‘‘۔
علی حسن

جواب دیں

Back to top button