Column

شادی آسان عمل ہے، اسے مشکل مت بنائیں

تحریر : رفیع صحرائی
ہم بھی کیا لوگ ہیں۔ نمود و نمائش کو فرض سمجھ لیا ہے اور فرائض کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ بھارت کی آل انڈیا کانگرس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کو جنگ سے نہیں ثقافتی مار سے ماریں گے۔ ان کا کہا سچ ثابت ہو رہا ہے۔ ہمارے گھروں کے اندر ڈرائنگ رومز، کچن اور بیڈ رومز تک میں بھارتی کلچر نے رسائی حاصل کر لی ہے۔ ہم کبھی کیبل نیٹ ورک پر انڈین فلموں اور ٹی وی ڈراموں کا رونا رویا کرتے تھے مگر سوشل میڈیا نے تو کیبل نیٹ ورک اور ڈش کو بہت پیچھی چھوڑ دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف ہمارا ٹین ایج سے لے کر ادھیڑ عمر تک کا مرد بلکہ خواتین بھی ہندوانہ اور ہندوستانی رسوم و رواج سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ نہ صرف آگاہی رکھتے بلکہ مختلف تہواروں اور خاص طور پر شادی بیاہ کے مواقع پر پورے اہتمام سے ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں، نمود و نمائش اور رسوم میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی شعوری کوشش بھی کی جاتی ہے۔ نتیجتاً جو لوگ افورڈ کرتے ہیں وہ بہت سا سرمایہ برباد کر بیٹھتے ہیں اور جو افورڈ نہیں کرتے وہ دوسروں کی اندھا دھند تقلید میں برباد اور مقروض ہو جاتے ہیں۔
شادی ایک فرض ہے۔ اسے فرض سمجھ کر ہی ادا کیا جائے تو بہتر ہے۔ اسلام میں شادی کو بہت آسان بنایا گیا ہے مگر ہم نے جب اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی تو شادی کے سادہ اور آسان عمل کو اپنے اور دوسروں کے لیے مشکل بنا دیا۔ شادی میں دلہن والوں کی طرف سے لڑکی کے نکاح کے بعد باراتیوں کی مشروب اور سادہ کھانے سے تواضع کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔ کھانا نہ بھی کھلایا جائے تو اس میں حرج والی کوئی بات نہیں۔ صرف مشروب ہی کافی ہے۔ بارات بھی چند قریبی لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ دولہا ولیمے کی صورت میں چند عزیزوں اور دوستوں کو کھانا کھلا دے اور بس۔ شادی کا فریضہ ادا ہو گیا۔
ہوتا اس کے بالکل ہی بر عکس ہے۔ پہلے تو لڑکی ڈھونڈنے کے لیے پورا صوبہ پھریں گے۔ لڑکے کی نادیدہ اور ناموجود خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔ ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی کی تلاش میں گھر گھر چکر لگائے جائیں گے اور لڑکی والوں کے گھر میں دعوتیں اڑائی جائیں گی۔ لڑکی کو دیکھنے اور ’’ جانچنے‘‘ کی باری بعد میں آئے گی۔ سب سے پہلے تو ’’ ٹیبل معائنہ‘‘ کر کے گھر والوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جائے گا کہ کس قدر جہیز ملنے کی توقع ہے۔ اگر پہلے مرحلے میں میزبان ’’ پاس‘‘ ہو گئے تو اگلا مرحلہ سلیقہ شعاری کو چیک کرنے کی بجائے یہ دیکھا جائے گا کہ گھر اور کمروں کی سجاوٹ میں کس قدر قیمتی سامان کا استعمال کیا گیا ہے۔ اگر لڑکی سرکاری ملازم ہے تو پھر اس کو اضافی نمبر بھی مل جاتے ہیں کہ سسرال کے گھر کا معاشی بوجھ بھی مستقبل میں اسے اٹھانا ہوتا ہے۔ پھر لڑکی کو دیکھنے کی باری آئے گی۔ آنکھوں کی چھریاں تیز کر کے لڑکی کو قصائی کی نظر سے دیکھا، پرکھا اور تولا جائے گا۔ اس کے بعد اپنے معیارات کی فہرست کو ذہن میں تازہ کر کے ایک ایک پوائنٹ چیک کیا جائیگا۔ پھر بے شرمی کے ساتھ پوچھ لیا جائے گا کہ جہیز میں لڑکی کو کیا کچھ دیا جائے گا۔ اپنی ڈیمانڈ کی فہرست سے جہیز کی فہرست کا تقابل کیا جائے گا اور آخر میں یہ کہہ کر کہ’’ سوچ کر آپ کو بتا دیں گے‘‘، لڑکی والوں کو انتظار اور امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا کر کے اگلی لڑکی دیکھنے کی تیاری شروع کر دی جائے گی۔ اکثر لوگوں نے وتیرہ بنا لیا ہوتا ہے کہ اچھا اور بہترین کھانا کھانے کے لیے ’’ لڑکی کی تلاش‘‘ میں نکل پڑتے ہیں۔
لڑکیوں کے والدین کھانے کھلا کھلا کر اور تواضع کر کر کے کنگال ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ بیٹیوں کی عمریں بڑھ رہی ہیں۔ وہ تواضع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر لوگوں نے رشتے کی تلاش کو مشغلہ بنایا ہوا ہے۔ اکثر بچیاں ان پیشہ ور رشتہ ڈھونڈنے والوں کی خاطریں کر کر کے مایوس اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کتنی ہی بیٹیاں جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے بالوں میں چاندی کی تاریں لیے والدین کی دہلیز پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔
تنگ گھراں دیاں الہڑ کُڑیاں رو رو کے کُرلاون
یا اس لنگھدی عمر نوں روکو یا سانوں پرنائو
( غریب گھرانوں کی نوجوان بیٹیاں رو رو کر فریاد کر رہی ہیں کہ یا تو ہماری عمر کو بڑھنے سے روک لو ورنہ ہماری شادی کر دو)
اب آ جاتے ہیں شادی کی رسومات کی طرف۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، شادی کے لیے دو ہی شرائط ہیں، نکاح اور ولیمہ۔ مگر ہم نے پرتعیّش تقریبات اور پیچیدہ رسومات میں شادی کے بندھن کو بری طرح جکڑ دیا ہے۔ منگنی پر سونے اور ہیرے کی انگوٹھی دونوں جانب سے۔ لڑکی کے ہاتھ پر رقم رکھنا. اس کے بعد مہمان حسب توفیق اور دستور دولہا دلہن کو نقدی کی صورت میں سلامی دیتے ہیں۔ پر تعیّش کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بیوٹی پارلر سے تیار شدہ دلہن کو مہنگا ترین لباس پہنایا جاتا ہے جو خاص اسی موقعے کے لیا تیار کروایا جاتا ہے۔ اور زندگی میں ایک ہی دفعہ پہنا جاتا ہے۔ مہمان خواتین بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے قیمتی ملبوسات پہنتی اور بیوٹی پارلر سے تیار ہوتی ہیں۔ مہندی کا فنکشن تو آج کل شادی کے فنکشنز میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ چمکیلے اور بھڑکیلے لباس، انڈین گانوں پر ساری رات رقص، ایک عجیب سی جنونی کیفیت کا ماحول بن جاتا ہے۔ اس فنکشن پر دل کھول کر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔
بارات والے دن صورتحال اس سے بھی آگے چلی جاتی ہے۔ بارات کے ساتھ لگژری گاڑیوں کی لمبی قطار در اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دکھانے کی رنگ بازی ہوتی ہے۔ سینکڑوں باراتی ساتھ لے جا کر دلہن کے باپ پر ناواجب بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر اس قدر اکٹھ کرنا ضروری بھی ہے تو ان لوگوں کو ولیمے پر بلا لیا جائے۔ دلہن کے والد کا کیا گناہ ہے کہ اس پر سیکڑوں لوگوں کی مہمان نوازی کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اپنی ناک بچانے کے لیے دلہن کے والد کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر کم از کم چار پانچ قسم کے کھانوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی خدشہ ہی رہتا ہے کہ مہمانوں کی خاطر میں کمی نہ رہ جائے۔ جبکہ اپنی چادر سے زیادہ پاں وہ جہیز دیتے وقت ہی پھیلا چکا ہوتا ہے۔ اگلے دن ولیمے میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ مہمان خواتین زرق برق لباس اور خوب تیاری کے ساتھ آتی ہیں۔ خواتین کی جانب سے خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ ایک تقریب میں پہنا ہوا لباس کسی دوسری تقریب میں نہ پہنا جائے ورنہ سبکی ہو گی۔ ولیمے میں بھی چار پانچ کھانے پیش کیے جاتے ہیں جبکہ مہمانوں کی طرف سے دلہن اور دلہا والوں کے کھانوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔
شادی کے بعد جب دلہن اور دلہا کے گھر والے حساب لگانے بیٹھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ناک بچاتے بچاتے کمر کا کڑاکا نکل گیا ہے۔ متموّل لوگوں کی شادیوں کی نقالی میں اپنا دیوالیہ نکل گیا ہے اور اب کئی سال تک بچت کر کے اور اپنی ضروریات کی قربانی دے کر شادی پر لیا گیا قرض لوٹانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی اگلے بیٹے یا بیٹی کی شادی کے بارے میں سوچا جا سکے گا۔ شادی میں شریک ہونے والے رشتہ دار الگ پریشان ہوتے ہیں کہ شادی کی رسومات میں شرکت کر کے ان کا بجٹ بھی اپ سیٹ ہو چکا ہوتا ہے۔
اسلام نے شادی کو کس قدر آسان اور قابلٍ عمل بنا دیا ہے۔ نہ دلہا پر بیجا بوجھ اور نہ دلہن والوں پر لگژری جہیز کی قید۔ اگر ہم اپنی اصل کو پہچان کر چلیں اور غیروں کی تقلید نہ کریں تو زندگی کتنی سہل اور آسودہ ہو جائے۔ آئیے! عہد کریں کہ شادی کو اسلامی طریقے کے مطابق سادہ اور آسان بنائیں گے تاکہ بے جا اصراف سے بچ جائیں اور کوئی بیٹی والدین کی دہلیز پر بن بیاہی بھی بیٹھی نہ رہ جائے۔
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے

جواب دیں

Back to top button