Ali HassanColumn

نیا پاکستان اور بھٹو ( پہلا حصہ )

تحریر : علی حسن
سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ کو بچے کھچے پاکستان کا اقتدار سونپ دیا گیا۔ ملک کا بڑا حصہ ملک سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ انتخابات کے تصفیہ کے بغیر بھارت نے مداخلت کی اور پاکستان پر جنگ تھونپ دی۔ ایسے موقع پر اقتدار پر اختیار حاصل کرنے کے بعد 20دسمبر1971ء کی رات ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ ان کی وہ تقریر نقل کی جا رہی ہے۔
’’ دوستو، طالبعلموں، مزدوروں و کسانوں، نوجوانوں، بہادر فوجی سپاہیوں، اپنے ہاتھ سے کام لینے والو! میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں بہت دیر میں آیا ہوں۔ میں ایسے وقت میں آیا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ ہمارے ملک میں خطرناک بحران بلکہ ملک بحران میں آچکا ہے، مجھے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھا کر جمع کرنے ہیں۔ نیا پاکستان پروگریسو پاکستان اور ایک ایسا پاکستان بنانا ہے جو قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا، یہ میرا یقین ہے کہ وہ پاکستان ضرور بنے گا، بشرطیکہ پاکستان کے لوگ میرے ساتھ تعاون کریں اور صبر و تحمل سے کام لیں۔ میں کوئی لکھی ہوئی یا پہلے سے تیار کی ہوئی تقریر نہیں پڑھ رہا ہوں۔ میں ہر بات زبانی اور دل کی گہرائی سے کہہ رہا ہوں۔ مجھے آپ کی مدد چاہئے، آپ کا تعاون چاہئے۔ آپ کی مدد کے بغیر میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور اگر آپ کا تعاون میرے ساتھ ہو تو میں ہمالیہ سے بھی اونچا ہوں ۔ مجھے کچھ وقت دیجئے، میں آپ کے لئے سب کچھ کروں گا، اس وقت مجھے جس بات کا بھی خیال آئے گا میں بڑی صفائی کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرتا جائوں گا۔ مجھے روزانہ ریڈیو یا ٹی وی پر آکر تقریر کرنے کا شوق نہیں ہے، جب بھی کوئی ایسی بات ہو گی جس کے بارے میں مجھے اپنے ہم وطنوں سے مشورہ کرنا ہو گا، میں ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے اور ممکن ہے پروگرام روک کر بھی آپ تک پہنچائوں گا اور آپ کی منظوری حاصل کروں گا۔ میں آپ کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔ میں ایک قدم بھی کسی طرف بھی آپ لوگوں کی رضامندی کے بغیر نہیں اٹھائوں گا، آنے والے وقت کا ایک ایک منٹ بڑا اہم ہے۔ میں اردو میں تقریر کرتا لیکن یہ میری پہلی تقریر ہے، اور اسے دنیا سن رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا والے بھی سن لیں اور سمجھ لیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ انگریزی ہماری زبان نہیں ہے، مجھے افسوس ہے کہ میں مجبورا اس غیر ملکی زبان میں تقریر کر رہا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اردو نہیں جانتا۔ میں جلسوں میں ہمیشہ اردو میں ہی تقریریں کرتا ہوں اور میری اکثر باتوں پر لوگ ہنستے بھی ہیں اور مذاق بھی کرتے ہیں، لیکن میں اپنی زبان میں جو کچھ بھی کہتا ہوں، وہ سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ میں اپنی قومی زبان میں تقریریں کیا کروں گا۔ کاش میں آج زندہ نہ ہوتا اور پاکستان کو اس شکل میں نہ دیکھتا، میں یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ کام مشکل ہے، بلکہ اس لئے کہ گزشتہ دنوں ہم جن حالات میں سے گزرے ہیں ان کے نتائج کچھ ایسے رونما ہوئے ہیں کہ آج ہمیں بھارت کے وزیر دفاع جگ جیون رام کی وہ باتیں سننی پڑ رہی ہیں، جو وہ کہہ رہاہے۔ جگ جیون رام کو یہ جاننا چاہئے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ دنیا کا آخری فیصلہ نہیں ہے ۔ یہ ابتدا ہے۔ وہ عارضی فوجی کامیابی پر اکڑتا نہ پھرے۔ یہ ابتدا ہے انتہا نہیں ہے، بے شک ہمیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہم ان سے بہت کچھ سیکھیں گے۔ اور اپنی زندگی از سر نو شروع کریں گے اور ایک نیا اور عظیم پاکستان بنائیں گے۔ مجھے قوم نے صدر اور حالات نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا ہے لیکن مجھ میں اور پہلے لوگوں میں یہ فرق تھا کہ میں قوم کا منتخب نمائندہ ہوں اور زبردستی آکر بیٹھ نہیں گیا ہوں۔ میں آپ کا اپنا آدمی ہوں اور آپ سے بالکل بھائیوں کی طرح باتیں کر رہا ہوں۔ میرے مخالفین نے میرے بارے میں کئی بار کہا کہ میں اقتدار کا بھوکا ہوں ، لیکن اگر میں ایسا ہوتا تو تاشقند کے معاملے پر صلح صفائی کر لیتا۔ میں ساڑھے پانچ سال سے برابر ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں۔ میں جیل گیا ہوں، پیٹھ پر پولیس کی لاٹھیوں کے اب تک نشان ہیں۔ مجھ پر پانچ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ میں حکومت اور نوکر شاہی کی مہربانیوں سے بالکل الگ تھلگ اور اکیلا رہ گیا تھا۔ اخبارات نے میرے بارے میں ہر قسم کے غلط تاثرات قائم کرنے کی کوشش کی، میرے بیانات توڑ مروڑ کر شائع کئے۔ مجھے اس سے زیادہ بے عزت اور کیا کیا جاتا کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو کافر تک کہا گیا۔ میں آج ایک پاکستانی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں۔ میں آپ سے قسم کھا کر وعدہ کرتا ہوں کہ میں پاکستان میں جمہوریت بحال کروں گا۔ مارشل لا ضرورت سے زیادہ ایک سیکنڈ بھی نہیں رکھوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ آزادی کے ساتھ سانس لے سکیں۔ ملک میں کسی قسم کی ڈکٹیٹر شپ نہ ہو۔ پاکستان میں ہر ادارے کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہی یا اسے ڈرا دھمکا کر رکھا گیا ہے۔ مجھے ایسی جمہوریت اس ملک میں قائم کرنی ہے کہ ایک عام آدمی مجھے ٹوک سکے اور میری پکڑ اور گرفت کر سکے۔ اگر اسے میری کوئی پالیسی یا میرا کوئی پروگرام پسند نہ ہو تو وہ بلا خوف و خطر مجھے یہ کہہ سکے۔ ’’ تم جہنم میں جائو۔ میں تمہیں پسند نہیں کرتا‘‘۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں جمہوریت بحال کروں گا۔ آئین دوں گا۔ ایسا آئین جو لوگوں کا آئین ہو اور ملک میں قانون کا دور دورہ ہو گا۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میری قوم ایک فرد واحد کے اشاروں یا اس کی مرضی پر ناچتی رہے، لیکن مجھے کچھ وقت چاہئے۔ تاکہ میں یہ کام مکمل کر سکوں۔ میں نے لوگوں سے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے کر کے رہوں گا۔ میں پچھلی حکومت کی طرح ہر دو تین مہینے کے بعد ریڈیو پر کسی نئی سکیم کا اعلان کرنے آپ کے سامنے نہیں آئوں گا۔ یہ اسکیمیں سب فیل ہو چکی ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ میرا دل مشرقی پاکستان کے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے کبھی علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ ان کا پاکستان بنانے میں بہت بڑا حصہ ہے اگر ان کی جدوجہد شامل نہ ہوتی تو یہ پاکستان ہی نہ ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی ہمارے بغیر نہیں رہ سکتے۔ میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمیں نہ بھولیں بلکہ اگر ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ہمیں معاف کر دیں۔ پاکستان کی بہادر افواج کے سپاہیو! ہمارے دل اور ہماری روح تمہارے ساتھ ہیں۔ تم ہمت نہ ہارنا اور اسی بہادری سے رہنا، جس بہادری کے ساتھ لڑتے رہے ہو۔ تم یقین کرو کہ تمہارے بغیر ہماری نیندیں حرام ہیں، ہمیں ایک لمحہ کے لئے بھی چین نصیب نہیں ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جب تک تمہیں تمہارا باعزت مقام نہیں مل جاتا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ بہادر سپاہیو! صبر اور تحمل سے کام لو اور میرے الفاظ یاد رکھو۔ ہم تمہاری بخیریت و باعزت واپسی کے لئے سب کچھ کریں گے۔ تمہاری بے عزتی ہماری بے عزتی ہے۔ تمہاری عزت ہماری عزت ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کبھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ آپ بہت جلد دیکھ لیں گے کہ مسلم بنگال ہمیشہ پاکستان کا ہی حصہ رہے گا۔ جوں جوں وہاں ہندوئوں کا غلبہ ہوتا جائے گا توں توں نظریہ پاکستان کی قدر بڑھتی جائے گی۔ ہاں میں مانتا ہوں کہ غلطیاں ہوئی ہیں۔ کس نے غلطی کی اور کس کی غلطی تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملک کو کسی دوسرے ملک کی فوج تباہ و برباد کر دے۔ ہم اپنی غلطیاں خود ٹھیک کر لیں گے ۔ ہم مشرقی پاکستان کے لیڈروں اور ان کے لوگوں سے مل کر خود بات کریں گے۔ اور ایک پاکستان کے نظریئے کی بنیاد پر آپس میں تصفیہ کریں گے۔ چاہے وہ فیصلہ کتنا ہی ڈھیلا ڈھالا کیوں نہ ہو۔ ہم آپس میں بات چیت کر کے اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس بات چیت میں کوئی غیر ملکی مداخلت نہ ہو اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کی فوجیں وہاں موجود ہوں۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ بھارتی فوجیں میرے وطن کی سرزمین فورا خالی کر دیں۔ جب تک بھارت کی فوج وہاں موجود ہے۔ میں اپنا کام شروع نہیں کر سکتا۔ دنیا کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ اقوام متحدہ میں 104ممالک نے ہماری حمایت کی ہے۔ کون کہتا ہے کہ ہم ہارے ہیں۔ اتنی بڑی سیاسی فتح اقوام عالم میں آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ سیاسی فتح فوجی فتح سے بہت بڑی ہوتی ہے صرف سیاسی فیصلے ہی جو عدل و انصاف اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوتے ہیں دیر پا اور مستقل ہوتے ہیں۔ بھارت نے تو محض ہمارے ملک کے دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اور شرنارتھیوں کا بہانہ بنا کر ہمارے ملک پر حملہ کر دیا لیکن بھارت نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم بین الاقوامی انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں اور دنیا کے ممالک کی اتنی بڑی اکثریت نے اس کی جارحیت کے خلاف پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور پھر ہم نے ان لوگوں کو جو مشرقی پاکستان سے چلے گئے تھے واپس لینے سے کب انکار کیا تھا لیکن میں اپنے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو آج بتا دیتا ہوں اور وہ یاد رکھیں کہ ابھی بھارت والے لاتعداد لوگوں کو شریارتھیوں کے بھیس میں مشرقی پاکستان میں لائیں گے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان پر فوجی فیصلہ مسلط کیا ہے لیکن میں آج یہ جتا دینا چاہتا ہوں کہ بھارت کو اس مہم میں یقینا بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں کو کبھی نہیں جیت سکتا۔ ہم اپنی لڑائی جاری رکھیں گے اور کسی قیمت پر اپنی خود داری اور عزت پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘‘۔  ( جاری )

جواب دیں

Back to top button