ColumnImtiaz Aasi

مولانا سے ہاتھ ہو گیا

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
مدارس بل 26ویں آئینی ترمیم کے پیکیج میں شامل تھا۔ آئینی ترمیم حکومت کی مجبوری تھی اس مقصد کے کے لئے حکومت نے بغیر چھیڑ چھاڑ کئے مدارس بل صدر مملکت کو حتمی منظوری کے لئے بھجوا دیا۔ جے یو آئی کے امیر اپنی جگہ خوش تھے مدارس بل ان کے حسب منشاء صدر کو منظوری کے لئے بھیج دیا گیا ہے۔ آئینی ترامیم کی منظوری میں جے یو آئی حمایت نہ کرتی تو ممکن نہیں تھی لہذا مدارس بل من و عن بھیجنے کا عندیہ دے کر حکومت نے آئینی ترامیم کے لئے مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دینے کے لئے قائل کرلیا۔ دراصل عالمی سطح پر مدارس بارے کوئی اچھا تاثر نہیں ہے ان کے نزدیک دینی مدارس دہشت گردی کی نرسریاں ہیں حالانکہ مدارس بارے عالمی دنیا کا یہ تاثر درست نہیں۔ افغانستان پر روسی جارحیت کے موقع پر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ جہاد کے نام پر دیا جہاد میں جن لوگوںنے حصہ لیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں چنانچہ یہی وجہ ہے بالخصوص امریکہ اور بالعموم دیگر ممالک مدارس بارے شاکی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا دینی مدارس میں قرآنی تعلیمات کے حصول کے سوا اور کوئی بات نہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے ہمیں عالمی دبائو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دینی مدارس کو آزادانہ طور پر قرآنی تعلیمات کے حصول کے سلسلے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے بلکہ مدارس کے طلبہ کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید علوم کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دینا ضروری ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونی والی ریاست پاکستان ایک آزاد مملکت ہے جس میں ہمیں دینی تعلیمات کے حصول کو جاری رکھنے کے لئے کسی قسم کے بیرونی دبائو کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت نے مدارس بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں رکھنے کا اعلان کیا حالات سازگار نہ ہونے کے پیش نظر اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے ۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں میں ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی حکومتی طرز عمل سے ناخوش ہیں۔ ایم کیو ایم کے وفد کی مولانا فضل الرحمان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جے یو آئی کے امیر حکومت سے پہلے نالاں تھے کہ مدارس بل کی صدر مملکت سے منظوری نہ ہونے سے مولانا خاصے برہم ہیں۔ سچ تو یہ ہے جب کوئی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو کر صدر پاکستان کے حتمی دستخطوں کے لئے بھیجا جائے تو اسے منظور تصور کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی صدر مملکت نے کسی بل پر اعتراض لگایا ہو۔ جے یو آئی کے امیر نے مدارس بل کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد آنے کی کال کا فیصلہ شاید اس امید سے موخر کیا حکومت مدارس بل کی منظوری کے لئے رضامند ہو جائے گی۔ حالات سے پتہ چلتا ہے مولانا کی اسلام آباد آنے کی کال کے اعلان کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے مدارس بل کی منظوری سے پاکستان کو عالمی پابندیوں کا سامنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں یاد ہے پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہیں کئے تھے کہ امریکی پابندیوں کی بازگشت سنائی دی مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے چاہے جن حالات میں یا اپنے چند رفقاء خصوصا جناب مجید نظامی کے کہنے پر ایٹمی دھماکوں کا اعلان کر دیا جس کے بعد ریاست پاکستان کو معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت نے معاشی توازن برقرار رکھنے کی خاطر فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کر دیئے جس کا سامنا اس ناچیز کو بھی کرنا پڑا۔ پاکستان کے شہریوں نے ملک کی خاطر سب کچھ برداشت کرکے وطن عزیز پر آنچ نہیں آنے دی۔ تارکین وطن نے کڑے وقت میں ملک و قوم کا جس طرح ساتھ دیا وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔ صدر پاکستان نے مدارس بل پر جو دوسرا اعتراض اٹھایا ہے وہ یہ ہے کہ 1860کے سوسائٹی ایکٹ میں دینی تعلیم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تعجب ہے مدارس بل پر صدر مملکت نے جو اعتراضات کئے ہیں کیا قومی اسمبلی ، سینیٹ اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے علاوہ وزارت قانون کی نظروں سے یہ بل نہیں گزرا تھا کہ صدر پاکستان کو مدارس بل پر اعتراضات لگانے پڑے ہیں۔ سوال ہے ملک میں جب تمام مسالک کے مدارس اپنے اپنے وفاق المدارس سے الحاق کئے ہوئے ہیں تو وزارت تعلیم سے دینی مدارس کے الحاق کی کیا ضرورت ہے؟ قانونی طور پر دیکھا جائے تو صدر مملکت کا یہ اعتراض درست ہے 1860کے سوسائٹی ایکٹ میں مدارس کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے مدارس کا الحاق وزارت تعلیم سے ہونے کی صورت میں مدارس پر مولانا کی اجارہ داری ختم ہونے کا قومی امکان ہے۔ حکومت مدارس کا وزارت تعلیم سے الحاق کرتی ہے تو مدارس کو آنے والے فنڈز کے ذرائع بتانا ضروری ہو گا جو مولانا فضل الرحمان کے لئے بجلی گرنے سے کم نہیں ہے۔ خبروں کے مطابق حکومت اب ایک نیا مدارس بل منظوری کے لئے پیش کرے گی۔ ہمیں نہ مولانا صاحب سے کوئی پرکاش ہے نہ حکومت سے کوئی سروکار ہے تاہم حقیقت میں تمام مدارس خواہ ان کا تعلق کسی مسلک سے ہوں ان کا وزارت تعلیم سے الحاق ہونے میں کیا حرج ہے۔ وزارت تعلیم سے الحاق ہونے صورت میں دینی مدارس کی لئے نئی عمارات کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لئے جدید سہولتوں کی فراہمی سے مدارس چلانے والوں کو کس بات کا خدشہ ہے؟ وزارت تعلیم سے مدارس کے الحاق ہونے کی صورت میں تعلیم یافتہ اساتذہ کرام کی دستیابی ممکن ہے اور حکومت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔ نئے مدارس بل میں حکومت مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی کفالت کی ذمہ داری لے اور تمام مسالک کے جید علمائے کرام جیسے مولانا فضل الرحمن اپنے مدارس کی سربراہی قبول کریں تو کیا نقصان ہے۔ ویسے بھی ملک میں کوئی ادارہ چل رہا ہو اسے قانون کے دائرہ کار میں لایا جانا چاہیے۔ حکومت مدارس کو 1860کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت قبول کرے تو بھی این جی اوز کے فنڈز کا آڈٹ ایک قانونی ضرورت ہے۔ ہم نہیں سمجھتے مدارس کا وزارت تعلیم سے الحاق میں کیا نقصانات ہیں بلکہ اس کا فائدہ طلبہ کو ہو گا۔ بہرکیف مدارس بل کے مسئلے میں حکومت نے مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان کو مات دے دی۔

جواب دیں

Back to top button