ڈپٹی کمشنر ونود ملہوترا

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
سنہ 1975کی بات ہے جب ایمرجنسی لگنے کے بعد اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے ماں کو مشورہ دیا ہے کہ اماں اب ملک میں نئے انتخابات کرنے کی ضرورت نہیں، ہم ماں بیٹا ملکر ہندوستان پر 20سے 25سال حکومت کر سکتے ہیں، تاہم تھوڑے عرصہ بعد اندرا گاندھی نے دو سال بعد انتخابات کیلئے حامی بھر لی اور انتخابات کیلئے تیار ہوگی۔ انڈیا میں نہرو خاندان اور کانگرس جو ہندوستان کی آزادی کے بعد سے حکمران رہے ہیں ۔ ان کو کیا خبر تھی کہ وہ انتخابات میں بری طرح ہار جائیں گے۔ ان کیخلاف تگڑا سیاسی اتحاد بن چکا تھا، مرار جی ڈیسائی اور جے پرکاش جیسے لیڈر اس اتحاد کے کرتا دھرتا تھے۔ جرمنی، امریکہ، لندن جیسے جمہوری ممالک بھی اندرا کی کامیابی پر پور امید تھے ۔ لیکن سویت یونین واحد ملک تھا جو اس وقت بھی اندرا گاندھی کے ہارنے کی بات کر رہا تھا۔ 1977میں انتخابات ہوئے اور کانگریس کو شکست ہوگی ۔ تمام غریبوں نے کانگریس کیخلاف ووٹ دال کر ثابت کیا کہ انہیں ذاتی آزادی عزیز ہے .کیوں 1971میں غربت مکائو کے وعدے وفا نا ہوئے۔ اندرا گاندھی کا بیٹا سجنے اپنی سیٹ بھی ہار گیا ۔ اس لیے اندرا گاندھی کی حکومت نہیں بچ سکی ۔1977 کے انتخابات میں کانگریس کو صرف 153نشتیں ملیں لیکن 1971 کے انتخابات میں کانگریس کو 352 شیٹس ملی تھیں ۔ اس وقت کی گانگریس وننگ تھی اندرا گاندھی کے حلقے را۳ بریلی کا ڈپٹی کمشنر ونود ملھرترا زندگی کے برے امتحان سے گزار رہا تھا ۔ نتائج کی گنتی شروع ہوئی تو ڈپٹی کمشنر کو لگا کہ نہرو کی بیٹی الیکشن ہار جائے گی ۔ ایک مسئلہ کھڑا ہو چکا تھا کہ ڈپٹی کمشنر یہ کیسے علان کرے کہ وزیراعظم ہار رہی ہے۔ اندرا گاندھی کا پولنگ افسر ماننے کیلئے تیار نہیں تھا کہ وزیر اعظم ہار رہی ہے ۔ اس نے تین دفعہ ووٹوں کی گنتی کروائی لیکن ہار نصیب میں تھی ۔ میڈیا کا سوئچ اف تھا ۔ کوئی خبر میڈیا پر نہیں تھی ۔ ڈپٹی کمشنر کو اوپر سے فون آنا شروع ہو گئے تھے ۔ ڈپٹی کمشنر کے پاس اس وقت دو راستے تھے ایک یا تو ہارنے کا علان کرے یا پھر نتیجہ روک لے ۔ سوچ وچار میں وہ اپنی بیوی کے پاس گیا جو لان میں رکھی چار پائی پر بیٹھے بیٹے کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔ اس نے بیوی سے پوچھا کہ وہ کیا کرے اس کے سامنے یہ مسئلہ کھڑا ہوگا ہے ۔ اگر اس نے اندرا گاندھی کے ہارنے کا اعلان کیا تو اس کو اندرا کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وہ ضمنی انتخابات جیت جائیگی اور حکومت اسی کی ہی بنے گی ۔ ڈپٹی کمشنر کی بیوی خاموش رہی ۔ اس نے اپنی بیوی سے دوبارہ پوچھا کہ میں کیا کروں ۔ ڈپٹی کمشنر کی بیوی نے سر اٹھائے بغیر اپنے شوہر سے کہا ’’جائو وہی کرو جو جائز ہے ، ہم برتن مانجھ لیں گے لیکن بے ایمانی نہیں کریں گے۔‘‘ تقسیم ہند کے وقت ٹربیونل نے پاکستان کے حصہ کے 75کروڑ کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان کو صرف 20کروڑ دئیے
گئے ۔ اس ناانصافی کو لیکر گاندھی نے اپنی حکومت کیخلاف بھوک ہڑتال کر دی۔ اپنی حکومت کو مجبور کیا کہ وعدے کے مطابق پاکستان کا حصہ دیا جائے۔ صحافی کلدیپ لکھتا ہے کہ سردار پٹیل اور ہندو انتہا پسند گاندھی کیخلاف تھے۔ ایک انتہا پسند ہندو نے اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔ قائداعظم محمد علی جناح کہتے ہیں ’’اگر ہندوئوں نے کوئی بڑا لیڈر پیدا کیا تھا تو گاندھی تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح جیسا لیڈر بھی پاکستان کو نصیب نہ ہوسکا۔ بھٹو کو لوگ لیڈر سمجھتے ہیں لیکن آج وہ ہم میں نہیں ہے۔ ملک میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔ جھوٹے وعدوں سے قوم کو مقروض کیا جارہا ہے، ناکام پالیسیوں اور پیدا گیری نے معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔ ذاتی تسکین نے ریاست کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ اب ہم ایک آزاد ملک ہیں اور ملکی سیاسی حالات سب کے سامنے ہیں۔ کون کہاں پر غلط ہے سب حلقے بخوبی واقف ہیں، اقتدار کے حصول کیلئے انتخابات کس نے کیسے چوری کئے سب کو سب معلوم ہے۔ لاکھوں لوگوں نے نظریہ کی آزادی کیلئے اپنی جان و مال سب قربان کیا اور پاکستان حاصل کیا لیکن اب قوم تقسیم کا شکار ہے، صرف ظلم کی شکل بدلی ہے ظلم نہیں۔ اب کوئی جناح نہیں کیوں کہ سیاست دانوں نے اپنا مقصد تبدیل کرلیا۔ ان کے مقاصد کچھ اور ہیں، ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے، یاد رکھیں قرضہ لیکر منصوبے بنانا نسلوں کی تقدیر کو غلام بنانے کے مترادف ہے، قرضہ قوموں کی خوشحالی چھین لیتا ہے، لیکن بحیثیت قوم قرضہ ملنے پر شادیانے بجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو گاندھی نہ کوئی ونود ڈپٹی کمشنر رہا، سب ایک دھندے میں شامل ہیں، ریاست کا مال ہضم کرو اور ملک سے باہر چلے جائو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ انصاف کی حالات سب کے سامنے ہیں، میاں شہباز شریف نے پچاس روپے والے سٹاپ پپیر پر عدالت میں ضمانت دی کہ نوازشریف واپس آ جائیں گے لیکن وہ نہیں آئے، مدینے کی ریاست بنانے والے نے اپنے ورکر کو ریاست کے سامنے کھڑا کر دیا۔ یہ 25کروڑ فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے اس کی ایک ہی خاص وجہ ہے، وہ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے جس کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔