ڈیجیٹل سلامتی اور معاشی ترقی کے درمیان توازن
تحریر : قادر خان یوسف زئی
آن لائن انتہا پسندی، جعلی خبروں اور غلط معلومات کے خاتمے کے لیے مواد ہٹانے اور پلیٹ فارم پر پابندیاں عائد کرنے کی حکمت عملی اپنی افادیت کے باوجود محدود نتائج دے رہی ہے۔ اگرچہ یہ اقدامات وقتی طور پر کچھ فوائد فراہم کرتے ہیں، مگر ان سے مسئلے کی اصل جڑ تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ مواد ہٹانے کی حکمت عملی اکثر ایک وقتی حل کے طور پر دیکھی جاتی ہے، لیکن یہ نہ صرف انتہا پسند عناصر کے نئے طریقے اپنانے کا سبب بن رہی ہیں بلکہ اس کے اطلاق میں کئی عملی مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ انتہا پسند عناصر جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر اپنی موجودگی برقرار رکھنے میں بدستور کامیاب ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈی سینٹرلائزڈ ویب جیسے جدید ماڈلز کی مدد سے مواد کو کئی سرورز پر تقسیم کر کے اسے مرکزی کنٹرول سے آزاد کر دیا جاتا ہے، جس سے نہ صرف مواد کو ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اس کے دوبارہ سامنے آنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
انتہا پسند عناصر اپنی حکمت عملی بدل کر ایک نئے انداز میں دوبارہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو وہیک ۔ اے۔ مول کے مسئلے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جہاں آپ ایک مسئلی کو حل کرتے ہیں تو دوسرا اس سے بھی زیادہ پیچیدہ انداز میں سر اٹھاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے مواد ہٹانے کی حکمت عملی مسئلے کا مکمل حل نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔ اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں جن میں انتہا پسند مواد کی طلب کو کم کیا جا سکے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان سماجی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں جو انتہا پسند بیانیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ انتہا پسند مواد کو ہٹانے کے بجائے، اسے نگرانی کے لیے استعمال کرنا ایک بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس طریقے سے نہ صرف قیمتی انٹیلی جنس اکٹھی کی جا سکتی ہے بلکہ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ سماجی سطح پر مسائل کو حل کیے بغیر آن لائن انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سماج میں موجود ناانصافی، غربت، اور سیاسی محرومی جیسے مسائل انتہا پسندی کو تقویت دیتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے حکومتوں کو معاشرتی اصلاحات اور شہری شمولیت کے پروگرام متعارف کرانے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کمپنیوں نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتی ہوئے دہشت گرد مواد کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی ہے۔ ان کے اقدامات میں انتہا پسند مواد کا مشترکہ ڈیٹا بیس تیار کرنا، مربوط جواب حکمت عملی وضع کرنا، اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مواد کی نشاندہی کے عمل کو مزید موثر بنانا شامل ہیں۔ یہ انڈسٹری کے اندر موجود ایک مثبت رجحان ہے جسے مزید فروغ دیا جانا چاہیے۔ تاہم، حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں اپنائیں جو انڈسٹری کے اس تعاون کو نقصان نہ پہنچائیں۔ سخت حکومتی قوانین کے بجائے ایک توازن پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ انڈسٹری اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں استعمال کر سکے۔ بین الاقوامی سطح پر آن لائن انتہا پسندی اور غلط معلومات کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ کسی ایک ملک کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات اس وقت تک مثر نہیں ہو سکتے جب تک دوسرے ممالک بھی ان کوششوں میں شامل نہ ہوں۔ جرمنی کی مثال ہمارے سامنی ہے، جہاں سوشل میڈیا پر مواد نہ ہٹانے پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ ماڈل طویل مدتی حل فراہم کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس قسم کی پالیسیوں کے اثرات کا بغور جائزہ لینا اور ان میں بہتری لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حالیہ مہینوں میں حکومت پاکستان کی آن لائن مواد کو کنٹرول کرنے اور قومی سلامتی برقرار رکھنے کی کوششیں ملک کی ڈیجیٹل معاشی ترقی کی خواہشات کے ساتھ متصادم ہیں۔ انٹرنیٹ کی مسلسل سست روی، سوشل میڈیا پر پابندیاں، اور X( سابقہ ٹوئٹر) پر طویل پابندی نے فری لانس اور آئی ٹی سیکٹر میں گہری تشویش اور تنقید کو جنم دیا ہے، جو پاکستان کے زرمبادلہ کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 23لاکھ فعال فری لانسرز موجود ہیں، جو دنیا میں چوتھا بڑا فری لانس کام فراہم کرنے والا ملک ہے۔ 2023ء میں پاکستانی فری لانسرز نے 35کروڑ ڈالر سے زائد کی آمدنی حاصل کی، لیکن انٹرنیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے باعث یہ تیزی سے ترقی کرتی صنعت اب خطرے سے دوچار ہے۔ فری لانسرز کے مطابق ڈیڈ لائنز مکمل کرنے، کلائنٹس کے ساتھ رابطے میں رہنے اور اپنی پیشہ ورانہ ساکھ برقرار رکھنے میں شدید دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ بروقت منصوبے مکمل نہ ہونے کے باعث کلائنٹس دیگر ممالک کے فری لانسرز سے رجوع کر رہے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف فری لانسرز تک محدود نہیں بلکہ وسیع آئی ٹی اور ای کامرس سیکٹر کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بزنس مین پینل کے مطابق انٹرنیٹ بندشوں کی وجہ سے ملک کو اب تک تقریباً 30کروڑ ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو مزید نقصانات کا خطرہ ہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ سست روی کے معاشی اثرات واضح ہیں، حکومت اس مسئلے کی وجوہ کے بارے میں شفاف نہیں رہی۔ حکومتی اہلکار اسے تکنیکی مسائل اور کبھی VPNکے زیادہ استعمال سے جوڑتے ہیں، پی ٹی اے کی جانب سے فری لانسر کی رجسٹریشن بھی کی جا رہی ہے، تاہم سست انٹر نیٹ کی رفتار پر تحفظات کی گونج پارلیمان میں بھی اٹھ رہی ہے۔ چین اور ایران جیسے ممالک میں استعمال ہونے والے فائر وال سسٹمز کی طرز پر ایک قومی فائر وال کا نفاذ حکومت کو انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی اور کنٹرول میں زیادہ موثر بنا سکتا ہے۔ تاہم، اس اقدام سے ڈیجیٹل حقوق کے محافظ اور کاروباری و سیاسی رہنما پریشان ہیں کہ یہ سنسر شپ میں اضافے اور مزید عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔
حکومت ایک جانب آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کے عزائم ظاہر کرتی ہے، لیکن دوسری جانب انٹرنیٹ پر پابندیاں اور سوشل میڈیا بین ان مقاصد کو نقصان پہنچا رہے۔
اگرچہ حکومت کے دہشت گردی، جعلی خبروں، اور غلط معلومات کی خدشات درست ہیں، موجودہ انٹرنیٹ پابندیوں اور سوشل میڈیا پر بینز کو غیر موثر اور نقصان دہ سمجھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق سلامتی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے زیادہ مربوط اور نفیس حکمت عملیوں کی ضرورت ہے، پاکستان کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متوازن حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو انٹرنیٹ کنٹرول کے قلیل مدتی سیاسی فوائد کو طویل مدتی معاشی اور سماجی نقصانات کے خلاف تولنا ہوگا۔