سپریم کورٹ کا امتحان

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ملک میں جب کبھی کوئی سانحہ پیش آیا عوام ماضی پیش آنے والے سانحات کو بھول جاتے ہیں۔ سانحہ نو مئی کو پیش آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا کہ سانحہ ڈی چوک رونما ہو گیا۔ سانحہ نو مئی میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ سانحہ ڈی چوک میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے ورکرز کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائون پیش آیا تو پنجاب حکومت نے تحقیقات کے لئے ہائی کورٹ کے جج علی باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا۔ یہ علیحدہ بات ہے سانحہ کے ذمہ داران کو کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ اس وقت کے آئی جی پولیس کو مسلم لیگ نون نے سینیٹر بنا دیا۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے عرصہ دراز سے سانحہ نو مئی کے پاس پردہ محرکات کا پتہ چلانے کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ چلا آرہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں سانحہ ڈی چوک پیش آگیا جس میں پی ٹی آئی کے ورکرز کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار بھی جانیں گنوا بیٹھے۔ بالاآخر پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی سانحہ نو مئی کی جوڈیشل انکوائری کے لئے سپریم کورٹ نے درخواست منظور کر لی ہے جس کی سماعت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ کرے گا۔ اس سے قبل یہ ناچیز سانحہ چوبیس نومبر بارے کچھ تحریر کرے یہ واضح کرنا ضروری ہے ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ان کے ورکر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اسی ملک کے شہری ہیں۔ جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات ہے وہ اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات کی بجاآوری کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد ہمارا ملک جس طرح کی سیاسی افراتفری اور معاشی بحران کا شکار ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔وہ جو سانحہ ڈی چوک میں جہان فانی کو سدھار گئے خواہ وہ سیاسی ورکرز تھے یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار کوئی ان کے اہل خاندان سے جاکر کوئی پوچھے ان پر کیا بیت رہی ہے۔ سیاست دانوں کو ماسوائے اپنے اقتدار کے عوام کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اقتدار میں آنے والی جماعتیں انتخابات سے قبل عوام کو جو سبز باغ دکھاتی ہیں وہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ڈرائونے خواب ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے مشاہدات کے مطابق پی ٹی آئی میں قیادت کے ساتھ آپس میں روابط کا بڑا فقدان ہے جس کے پیش نظر سانحہ ڈی چوک پیش آیا ہے ورنہ پی ٹی آئی رہنمائوں کے درمیان روابط ہوتے تو شائد ڈی چوک کا سانحہ پیش نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کے احتجاج میں بدنظمی کا آغاز اسی وقت ہو ا عمران خان سنگ جانی میں احتجاج پر رضامند تھے جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے ان کی اہلیہ ڈی چوک جانے پر بضد تھیں۔ بقول وزیراعلیٰ علی امین پی ٹی آئی ورکرز نہتے تھے یا ان کے پاس غلیلیں تھیں اس کے باوجود ان پر گولی چلانا کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ ڈی آئی ایس پی آر کے مطابق گولی چلانے کا حکم وزیراعظم نے دیا جبکہ وفاقی وزیر دفاع کا کہنا ہے گولی علی امین گنڈا پور کے محافظوں نے چلائی تھی۔ سوال ہے جب ڈی چوک پر احتجاج کی پابندی ہے تو حکومت نے پی ٹی آئی ورکرز کو اٹک کے پار آنے کی اجازت کیوں دی؟، ڈی پی او اٹک کا بڑا دعویٰ تھا پی ٹی آئی ورکرز کو پنجاب میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اگر ڈی پی او نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا احتجاجیوں کو پنجاب میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جس کا مطلب واضح ہے انہیں اعلیٰ سطح سے اس امر کی ہدایات ملیں ہوں گی کے پی کے سے آنے والوں کو اٹک کے اس پار نہیں آنے دینا ہے۔ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو ڈی پی او اٹک سے پوچھا جائے پولیس نے کے پی کے سے آنے والے احتجاجیوں کو پنجاب کی حدود میں داخل کیوں ہونے دیا۔ یہ بات ہم اپنے پہلے کالم میں لکھ چکے تھے ماسوائے کے پی کے سے دوسرے صوبوں اور خصوصا پنجاب سے پی ٹی آئی ورکرز ڈی چوک نہیں آئیں گے جو بالاآخر سچ ثابت ہوئی۔ سانحہ ڈی چوک پر ہونے والی اموات بارے پی ٹی آئی رہنماوں کے متضاد دعووں نے عوام کو گمراہ کیا۔ پی ٹی آئی ورکرز ڈی چوک ہی گئے تھے تو انہیں اعلانات کے ذریعے ڈی چوک بیٹھنے کو کہا جا سکتا تھا۔ سردی کے موسم میں کھانے پینے کی اشیاء اور کچھ اوڑھنے کے بغیر وہ کب تک ڈی چوک میں قیام کرتے لیکن حکومت نے جلد بازی سے کام لیا۔ ملکی تاریخ گواہ ہے آج تک جیتنے سانحات ہوئے ان کی انکوائری رپورٹس سرد خانوں کی نذر ہوگئیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری کے باوجود ذمہ داران کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا تو شائد سانحہ ڈی چوک پیش نہیں آتا۔ ہم اب آتے ہیں عمران خان کی طرف جن کا سب سے بڑا مطالبہ سانحہ نو مئی کی عدالتی انکوائری ہے۔ ملک میں پے درپے پیش آنے والے واقعات کے پیش نظر سانحہ ڈی چوک کی عدالتی تحقیقات بھی بہت ضروری ہے۔ عدالتی انکوائری میں سانحہ کے پس پردہ محرکات کے ساتھ پی ٹی آئی رہنمائوں کے متضاد بیانات کی حقیقت سامنے آجائے گی آیا سنگ جانی میں جلسہ کی بجائے ڈی چوک آنے کے لئے کس نے دبائو ڈالا تھا۔ اگر پی ٹی آئی ورکرز نہتے تھے تو ان پر گولی چلانے کی کیوں ضرورت پیش آئی اور کس نے گولی چلانے کا حکم دیا تھا۔ اس ناچیز کے خیال میں سانحہ نو مئی اور ڈی چوک کے واقعات کے حقائق عوام کے سامنے لانے کے لئے عدالتی انکوائری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ سپریم کورٹ کے لئے بھی سانحہ ڈی چوک کی عدالتی انکوائری کے لئے جوڈیشل کا قیام کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ ہم حق تعالیٰ کے حضور سپاس گزار ہیں ہمارا ملک سیاسی اور معاشی بھنور سے نکل کر امن کا گہوارہ بن جائے ( امین)۔