بے سہارا قیدیوں کی رہائی میں مخیر حضرات کا کردار

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
جرم کسی سے بھی سرزد ہو سکتا ہے بعض لوگ نادانی میں کسی جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ گویا کوئی ضروری نہیں جیلوں میں بھیجے جانے والے تمام لوگ جرائم پیشہ ہوں۔ تاہم اس کے باوجود اسلام میں قیدیوں کے بھی حقوق ہیں۔ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنے کئے کی سزا بہرصورت بھگتنا ہوتی ہے۔ کوئی جیلوں میں جا کر دیکھے عمر رسیدہ اور بے سہارا قیدی کھاتے پیتے گھرانوں سے آنے والے قیدیوں کی خدمت کرکے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں جیل میں انہیں روٹی نہیں ملتی۔ ہم کئی عشرے پہلے کی جیلوں کا موجودہ دور کی جیلوں سے موازنہ کریں تو یہ مسلمہ حقیقت ہے اب جیلیں وہ نہیں رہیں جو پرانے دور میں ہوا کرتی تھیں۔ اس دور کی جیلوں میں قیدیوں کو مشقت کرنے کے لئے مونج کوٹنے کو دی جاتی تھی جو قیدیوں کے لئے سخت ترین مشقت ہوتی تھی۔ پرانے وقتوں کی جیلوں میں جب پینے کے لئے پانی کے بور نہیں تھے، سزائے موت کے قیدی پینے سے قبل پانی کو پتلے کپڑوں سے گزار کر پیا کرتے تھے یہاں تک پانی سے کیڑے مکوڑے نکلا کرتے تھے۔ ہم اس دور کے سزائے موت کے قیدیوں کی بات کریں تو انگریز کی تعمیر کردہ جیلوں میں سزائے موت کے سیلوں میں ایک ایک قیدی کو رکھا جا تا تھا۔ قیدیوں کی طہارت کے لئے فلش سسٹم نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ سزائے موت کے سیل میں ایک عدد ٹین میں ریت ڈال کر رکھ دیا جاتا تھا۔ سزائے موت کے سیلوں کی بناوٹ کچھ اس طرح کی ہوا کرتی تھی جہاں دھوپ کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ پرانے وقتوں میں سزائے موت کے سیلوں کے باہر قیدیوں کی ڈھلائی ( واک) کے لئے پہرے نہیں تھے بلکہ انہیں اپنے سیلوں کے اندر ہی دن رات رہنا ہوتا تھا۔ اگرچہ اس دور میں قیدیوں کی تعداد پرانے وقتوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے اور اس مقصد کے لئے نئی جیلیں تعمیر کئی گئیں ہیں اس کے باوجود قیدیوں اور حوالاتیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نئی جیلوں کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج کے دوران جیلیں جو پہلے سے قیدیوں کی مقررہ تعداد سے زیادہ قیدیوں کو بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں جیل حکام کے لئے نئے آنے والے حوالاتیوں کو ٹھہرانا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت سے ہر روز پی ٹی آئی کے ورکرز اور اس شبے میں ملزم کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو سکتا ہے اسلام آباد پولیس کی گاڑیاں سنٹرل جیل راولپنڈی لائی جاتی ہیں جہاں سے انہیں ڈسٹرکٹ جیل جہلم یا اٹک بھیج دیا جاتا ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے چاروں صوبوں کی حکومتوں کو دیت کی عدم ادائیگی سے جیلوں میں پڑے ہزاروں قیدیوں کی رہائی کے انتظامات کرنے کا حکم دیا تھا جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ چلیں حکومت قومی خزانے پر دیت کی رقوم کا بوجھ نہیں ڈال سکتی کم از کم کاروباری حضرات کے تعاون سے دیت کی رقم ادا کرکے بے سہارا قیدیوں کی رہائی کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ چند روز قبل چیئرمین کلین اینڈ گرین مومنٹ احسن ظفر بختاوری نے محض جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث رہائی نہ ہونے والے چھ قیدیوں کی جرمانے کے لاکھوں روپے ذاتی جیب سے ادا کرکے انہیں رہائی دلا کر ان کی دعائیں لیں۔ احسن بختاوری اسلام آباد چمبر آف کامرس کے کئی برس صدر رہ چکے ہیں ان کے والد محترم ظفر بختاوری گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں مجھ سے ایک سال اگے تھے۔ قارئین کو پڑھ کر حیرت ہو گی جناب احسن بختاوری نے وفاقی دارالحکومت کے کئی سیکٹروں کے پانی کے فلٹریشن پلانٹ نصب کرکے دور صحابہؓ کی یاد تازہ کردی۔ کئی عشرے گزر چکے ہیں ہماری جناب ظفر بختاوری سے ملاقات نہیں ہوئی، احسن بختاوری سے تو ہماری کوئی جان پہچان نہیں۔ ایک اردو معاصرے میں ان کی سینٹرل جیل اڈیالہ کے سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ تصور اور دو کالمی خبر نے ہم کالم لکھنے کا جذبہ بھرا۔ ہم احسن بختاوری سے درخواست کریں گے سرد موسم میں وہ جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کے لئے گرم کپڑوں اور کمبلوں کا انتظام کریں تو یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔ موت کی سزائیں پانے والوں کے جرائم اپنی جگہ کوئی ضروری نہیں جس کسی نے قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہوگا اس کا تعلق جرائم کی دنیا سے ہوگا۔ سزائے موت میں بعض قیدی حواس باختہ ہو جاتے ہیں جنہیں علیحدہ سیلوں میں رکھا جاتا ہے، ایسے قیدی بھی آپ جیسے مخیر حضرات کی توجہ کے طالب ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے تاجر پیشہ مخیر حضرات اپنی زکوٰۃ کی رقم قیدیوں کے جرمانے کی ادائیگی پر خرچ کریں تو ان کی یہ رقوم ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ جیلوں میں ایسے ایسے قیدی موجود ہیں جنہیں عمر قید کے پندرہ پندرہ گزارنے کے باوجود ایک دو لاکھ جرمانہ نہ ہونے کی وجہ سے رہائی نہیں مل سکی ہے۔ جیلوں کے بعض سپرنٹنڈنٹ عیدین کے موقع پر تاجر تنظیموں سے رابطہ کرکے انہیں قیدیوں کی رہائی کی طرف متوجہ کرتے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔ سعودی عرب میں اس مبارک ماہ میں بڑے بڑے امراء حضرات قیدیوں کے جرمانے ادا کرکے انہیں رہائی دلاکر توشہ آخرت سمیٹتے ہیں۔ مذہبی تہواروں پر مخیر حضرات اور کاروباری تنظیموں کی طرف سے قیدیوں کے لئے کھانے کا خصوصی طور پر بندوبست کیا جاتا ہے جو قابل تعریف ہی۔ قیدیوں کی بہت بڑی تعداد مذہبی تہواروں کے موقع پر نئے کپڑے اور اچھے کھانوں کی امید رکھتے ہیں۔ مگر برسوں سے قیدی وبند میں رہنے والوں کی اہل و عیال جن کا کلی دارومدار ان قیدیوں پر ہوتا ہے جو جیل آنے سے قبل اپنے خاندان کی کفالت کا ذریعہ ہوتے ہیں جیلوں میں آنے کے بعد ان کے خاندانوں کی حالت زار دیدنی ہوتی ہے۔ ہمارا دین ویسے بھی بے سہاروں کا سہارا بننے کا درس دیتا ہے۔ ملک کے بڑے بڑے مخیر حضرات بے سہارا قیدیوں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں تو کوئی وجہ نہیں جیلوں میں محض جرمانہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی رکی رہے۔