شام میں بھی حکومت زمین بوس ہو گئی

کالم تماش گاہ
تحریر ۔ علی حسن
مطلق العنان آمر حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار الاسد نے مشترکہ طور پر پچاس سال سے زائد حکومت کی، جو بالآخر زمین بو س ہو گئی۔ شامی حکومت مخالف باغیوں نے 8دسمبر کو ایک برق رفتار کارروائی میں دمشق پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے اور شام میں بعث پارٹی کے پانچ دہائیوں پر مشتمل اقتدار کا اختتام ہو گیا۔ شامی حکومت کے مخالف ایک عرصے سے ہر قسم کی صعوبت کے باوجود بشار الاسد جسے مغربی ذرائع ابلاغ کسی ظالم حکومت سے کم قرار نہیں دے رہے تھے۔ شام کی بدنام زمانہ صیدنایا جیل سے انسانی جسم کو کچلنے والی ایک ہولناک مشین بھی برآمد ہوئی ہے، جس سے انسانوں کو مبینہ طور پر کچلنے کے بعد ان کی باقیات کو بھی ٹھکانے لگایا جاتا تھا۔ شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع بدنام زمانہ صیدنایا جیل، جسے ’’ انسانی مذبح خانہ‘‘ کہا جاتا ہے، میں ایک ہولناک تشدد کی مشین ملی ہے جو قیدیوں کے جسموں کو کچلنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں ایک ہائیڈرولک مشین کو دکھایا گیا ہے، جس کے ساتھ رسیاں اور تھیلے بھی موجود ہیں، جو مبینہ طور پر قیدیوں کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ویڈیو کے کیپشن میں لکھا گیا کہ پھانسی کے بعد، قیدی کو پریس میں ڈال کر کاغذ کی طرح کچل دیا جاتا تھا۔ اس کے جسم اور ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں ۔ مشین کے نیچے خون کے بہائو کے لیے راستے بنائے گئے ہیں اور پھر باقیات کو ایک تھیلے میں ڈال کر جیل سے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ خیال رہے کہ شامی حزب اختلاف کے جنگجوئوں نے اس جیل کے کئی قیدیوں کو آزاد کرایا ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صیدنایا جیل کو انسانی مذبح خانہ قرار دیا تھا اور 2011ء سے 2016 ء کے درمیان اسد حکومت پر ہزاروں شامی قیدیوں کو منظم طریقے سے تشدد اور پھانسیاں دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، جیل کے کئی زیر زمین سیل ہیں جو صرف الیکٹرانک کی پیڈز کے ذریعے کھولے جا سکتے ہیں، اور بہت سے قیدی اب بھی وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
صدر بشارالاسد کی دمشق میں موجود ذاتی رہائش گاہ کے اندر داخل ہوکر عوام نے حسب معمول لوٹ مار شروع کر دی۔ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دمشق میں ان کی ذاتی رہائش گاہ کو لوٹنے اور نقصان پہنچانے کی تصاویر سامنے آئی ہیں۔ عوام بشارالاسد کی رہائش گاہ میں داخل ہوگئے اور وہاں موجود قیمتی اشیاء کو اپنے ساتھ لے کر جانے لگے۔ شام کے شہری بشارالاسد کے ڈرائنگ روم میں بھی داخل ہوگئے، جہاں انہوں نے توڑ پھوڑ کرنے کے بعد قیمتی اشیاء بھی تلاش کرنا شروع کر دیں۔ ایک خاتون اور مرد ایک تصویر میں شام کے صدر کی رہائش گاہ میں موجود چیزوں کو تلاش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ شامی صدر بشار الاسد اور ان کی حکومت نے ترکیہ کی مذاکرات کی پیشکش کو نامعلوم کیوں رد کر دیا تھا۔ ایک بیان میں ترک صدر نے کہا کہ شام کو تباہ و برباد چھوڑ کر بشار الاسد خود فرار ہوگئے۔ ترک صدر اردوان نے کہا کہ شام کے لوگ تمام عقائد و اقدار کے ساتھ ہمارے بھائی ہیں، شامی خانہ جنگی سے بچ کر آنے والوں کے لیے ترکیہ محفوظ پناہ گاہ رہا ہے، یقین ہے شام میں تبدیلی کی ہوا شامی عوام کے لیے سودمند ثابت ہو گی۔ انھوں نے کہا ترکیہ کسی دوسرے ملک کی زمین یا خود مختاری پر نظر نہیں رکھتا، سرحد پار آپریشن کرنے کا واحد مقصد ترکیہ کو دہشتگردی سے بچانا ہوتا ہے۔ ترک صدر نے کہا ترکیہ اپنی سرحدوں پر نئے دہشتگرد عناصر کو اْبھرنے نہیں دے گا۔ شام کے لوگ ہی شام کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ صدر اردوان نے کہا ترکیہ شام کی تعمیر نو میں شامی عوام کی مدد کرے گا۔ انھوں نے کہا ظالموں کے آگے سر نہ جھکانے پر شام کے بہادر لوگوں کو یاد رکھا جائے گا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ اس نے شام کے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کو گِرانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پیر کو امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے کیلیے شامی باغیوں کے حملے میں امریکا نے براہ راست کوئی کردار ادا نہیں کیا نہ ہی حملے کی کوئی ہدایات دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں اب بہتری کے لیے آگے بہت مواقع موجود ہیں، امریکا اب شام میں تمام گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے ساتھ ان کے والد حافظ الاسد کا مجسمہ بھی زمین بوس کر دیا گیا، جس کی تصاویر بھی سامنے آگئی ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری تصاویر میں حافظ الاسد کے مجسمے کو دکھایا گیا ہے، جسے شامی شہریوں نے گرا دیا ہے۔ کولاج میں موجود پہلی تصویر 2دسمبر 2024ء کو دمشق میں لی گئی جب حافظ الاسد مجسمہ اپنی اصل حالت میں قائم تھا، جبکہ دوسری تصویر میں 8دسمبر 2024ء کو دمشق کے باغیوں کے قبضے کے بعد زمیں بوس مجسمے کو ڈنڈے کی مدد سے توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
بلغاریہ کی نابینا خاتون باباوانگا کی جانب سے کی گئی پیشگوئیوں میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی شام تباہ ہو گا مغرب اور مشرق کے درمیان ایک عظیم جنگ ہو گی۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز شام سے سامنے آنے والی خبروں کے بعد نابینا خاتون باباوانگا کی تیسری جنگ عظیم سے متعلق برسوں قبل کی گئی پیشگوئی سچ ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا نے مرنے سے قبل کئی پیشگوئیاں کر رکھی ہیں، جن میں سے ایک شام کی تباہی سے متعلق بھی ہے۔ ان کے پیشگوئیوں کے مطابق جیسے ہی شام تباہ ہوگا مغرب اور مشرق کے درمیان ایک عظیم جنگ ہو گی۔ بابا وانگا کے مطابق موسمِ بہار میں مشرق میں جنگ شروع ہو گی جو تیسری عالمی جنگ ہو گی، مشرق میں ہوئی جنگ مغرب کو تباہ کر دے گی۔ بابا وانگا کی پیشگوئیاں درست ثابت ہونے کی صورت میں آئندہ چند ماہ میں تیسری عالمی جنگ چھڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح بابا وانگا نے مرنے سے قبل گزشتہ سالوں کی طرح 2025ء کے حوالے سے بھی کچھ پیشگوئیاں کی تھیں، جن کے مطابق 2025ء میں یورپ میں تباہ کن جنگ ہو گی اور آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوگی، زوال اور تباہی کا عمل آئندہ برس سے شروع ہو جائیگا۔