موازنہ ۔۔۔ تقابل ۔۔ تنقید

شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
کہتے ہیں ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، سو اسے وقت پر، بروقت اور ویلے سر کر لینا چاہیے۔ اور کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قدر وقت پر کرنی چاہیے۔ وقت گزر جائے تو پیچھے پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ جیسے صحت کی قدر بیماری سے پہلے ، جوانی کی قدر بڑھاپے سے پہلے، فرصت کی قدر مصروفیت سے پہلے ، رشتے کی قدر قطع تعلقی سے پہلے ، زندگی کی قدر موت سے پہلے اور نصیحت اور تربیت کی قدر بگاڑ سے پہلے۔
آج کالم تربیت کے حوالے سے۔ یہ والدین کے لیے ہے، خاص طور پر والدہ کے لیے کہ تربیت کی ذمہ داری اس پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ وہ بچے کی اولین درس گاہ ہے۔ شروع کے چار سال خاص طور پر بچہ ماں کے زیر سایہ پروان چڑھتا ہے۔ سو ماں کی چھاپ اس پر باپ سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ باپ کا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا ہے۔ وہ تھک ہار کر گھر لوٹتا ہے تو اسے کوئی ہنگامہ نہیں چاہیے ہوتا۔ وہ چند گھنٹے کا سکون چاہتا ہے اور چند گھنٹے کی پرسکون نیند، تاکہ وہ جب صبح جاگے تو حالات سے لڑنے کے لیے پھر سے تیار ہو۔ باقی رہا اتوار کا دن تو عموماً وہ سو کر گزارنا یا دوستوں کے گپ شپ کی بتا دیتا ہے۔ ایسا ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو کسی آفس میں کام کرتے ہیں۔ جن کا کوئی ذاتی کاروبار ہو، کوئی دکان وغیرہ ہو تو ان کا وقت اول الذکر لوگوں سے زیادہ گھر سے باہر گزرتا ہے اور وہ اسی قدر سکون کے زیادہ متلاشی ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز جب میں گھر میں آیا تو خلاف توقع عدلت لگی ہوئی تھی۔ میری بیوی اور ان کی دوست اور دوست کی بیٹی بیڈ پر تشریف فرما تھے، میری بیٹی کٹہرے میں کھڑی، اپنے خلاف چارج سیٹ بغور سن رہی تھی۔ اس کا چہرہ دیکھے بنا میں سمجھ گیا کہ کچھ برا ہونے والا ہے۔ میں نے بیگ ایک طرف رکھا اور سر تھام کر بیٹھا۔ اس سے زیادہ کچھ کرنا safeنہ ہوتا۔ کچھ دیر بعد میری بیوی خاموش ہوئی تو میری بیٹی، جو کہ سیکنڈ ائر، کا ایک مشہور معروف جملہ سننے کو ملا I hare comparison یہ جملہ اتنی بار اس سے سنا ہے کہ مجھے یاد ہو گیا ہے ۔ یاد تو اس کی ماں کو بھی ہو گیا ہو گا مگر وہ اسے سمجھ نہیں پائی۔ جبھی تو ایسی عدالت اکثر و بیشتر لگتی ہے اور اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ عورت کو یہ زعم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی عقل مند نہیں ہے۔ کم از کم وہ شوہر سے تو کہیں زیادہ دانش مند ہوتی ہے ۔ اور مرد کی دانش اسی میں ہے ( اور بہتری بھی ) کہ وہ اس بات پر ایمان لے آئے ۔
اب آپ کالم کا عنوان کی علت سمجھ گئے ہوں گے۔ یہ سچ ہے، بہت بڑا سچ کہ بچوں کو موازنہ تقابل اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی تنقید سے سخت چڑ ہوتی ہے۔ اور ہم والدین اکثر اوقات موازنہ، تقابل اور تنقید سے باز نہیں آتے۔ اور اگر والدین شعبہ تعلیم سے ہوں تو بس تو پھر ہو گیا کام۔
اس میں کوئی شک نہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا پر فوکس کریں لیکن اس سلسلہ میں معقولیت کا دامن تھامے رہنا بنیادی چیز ہے، اور معقول اس وقت ہار مان لیتی ہے جب انسان دوسروں سے اپنے بچوں کا تقابل یا موازنہ شروع کر دیتا ہے۔ آپ تو بہن بھائیوں میں موازنہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے دو انسانوں کو ایک جیسا نہیں بنایا تو آپ اور میں کون ہوتے ہیں ان کا موازنہ کر کے ان کو احسان کمتری کا شکار کرنے والے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کبھی بچے ہوا کرتے تھے اور گھر والے تو کیا محلے والے اور رشتہ دار تک ہم سے عاجز آئے ہوئے ہوتے تھے ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم میں سے شاید ہی کسی نے ستر اسی فیصد سے زائد نمبر لیے ہوں مگر ہم بچوں کے نوے فیصد نمبروں پر مطمئن نہیں ہوتے۔ میرے ایک دوست فیض محمود صاحب جو ایک ریاضی کے ایک معروف استاد تھے، اکثر کہا کرتے تھے کہ میں اپنے شاگردوں کے نمبر دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ ہمارے تین سو نہیں آئے تھے ، ان کے پونے چار آ جاتے ہیں۔
آج مجھے اپنے اس کالم میں اس موازنے اور تقابل کا ذکر کرنا ہے کو گھر میں والدین اپنے بچوں کے درمیان کرتے ہیں۔ ایک بچہ کے50فیصد نمبر آتے ہیں تو اس کا موازنہ، جس کے90فیصد آئے ہوتے ہیں، سے کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے’’ اس نے کبھی نہیں سدھارنا، پڑھائی تو اسے خدا واسطے کا بیر ہے ‘‘، اگلے ٹیسٹ میں اس کے نمبر چالیس فیصد سے کم آنے ہیں۔ کہنے کے انداز میں فرق ہوتا ہے اور اس سے بڑا فرق واقع ہوتا ہے۔ اگر یوں کہنے کے بجائی انداز بدل دیا جاتا تو بات بن جاتی، ’’ کوئی بات نہیں، اگلے ٹیسٹ میں میرے بیٹے کے نمبر اور زیادہ آئیں گے، اب محنت کرنے لگا ہے، پچھلے ٹیسٹ سے تو اس بات اچھے نمبر آئے ہیں ‘‘۔
کہتے ہیں دو نجومیوں نے جو کہ ایک ہی استاد کے شاگرد تھے اور اس فن میں یکساں مہارت رکھتے تھے، کسی بادشاہ کا ہاتھ دیکھا۔ دونوں کو بادشاہ نے الگ الگ بلوایا اور اپنی عمر کے بارے سوال کیا۔ ایک کے جواب سے بادشاہ اتنا خوش ہوا کہ اسے انعام و اکرام سے نوازا، جبکہ دوسرے کے جواب سے اس حد تک ناراض ہوا کہ اسے جیل میں ڈال دیا۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ ایک نے بادشاہ سے کہا کہ اس کی عمر خاندان بھر میں سب سے لمبی ہو گی، جبکہ دوسرے نے کہا بادشاہ سلامت آپ اپنے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے۔
تعلیم ضروری ہے، تربیت اس سے زیادہ ضروری۔ مگر پذیرائی سب سے زیادہ ہو ضروری۔ کوشش کریں موازنہ اور تقابل نہ کریں، تنقید خود بخود دم توڑ دے گی۔ اپنے بچوں کی خامیوں کا اشتہار مت لگائیں۔ ورنہ کل کو وہی باتیں دوسرے کرنے لگیں گے۔ جب آپ تک وہ باتیں پہنچیں گی تو آپ کو بہت دکھ ہو گا۔ کڑھنا ختم کرنے اور سراہنا شروع کر دیں کہ آپ خود بھی کبھی یہ شکوہ کرتے ہوں گے کہ آپ کو پزیرائی نہیں ملتی سراہا نہیں جاتا۔
ہو سکے تو اس نیک کام کا آغاز آج سے کریں۔ اس سے معاملات سلجھیں گے۔ الجھنیں ختم ہوں گی۔
آخر میں میری ایک کہانی بعنوان داد ۔۔داد ۔۔۔۔
میرا احمد اس وقت شاید دس ماہ کا تھا اور خود سے کھڑے ہونے کی مشق کر رہا تھا۔ ایک دن ہم اسے ترغیب دلانے کے لیے کہ وہ خود سے اٹھ کر کھڑا ہونا سیکھ جائے۔۔۔۔ تالیاں بجا بجا کر داد دے رہے تھے۔ وہ کھڑے رہنے کے بعد گرتا اور پھر سے کھڑا ہوتا اور داد پاتا۔ اس طرح اس نے کئی بار داد پائی، ایک بار ہم کوئی بات کر رہے تھے کہ تالیاں بجانا بھول گئے۔ اس نے ہمیں متوجہ کیا اور جب ہم نے دیکھا تو وہ اشاروں میں کہہ رہا تھا
تالیاں بجائیں تالیاں ۔۔