کرپشن کے خلاف بھرپور مہم کی ضرورت ہے

تحریر : رفیع صحرائی
کرپشن ایک معاشرتی ناسور ہے جو کسی ادارے، معاشرے یا ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ 9دسمبر کو ہر سال بین الاقوامی یومِ انسدادِ بدعنوانی ( انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے) منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں کرپشن کے خلاف آگاہی دینا ہے تاکہ معاشرے سے بدعنوانی اور ناانصافی کا خاتمہ اور میرٹ کا چلن عام کیا جا سکے۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور عملی طور پر ثابت کیا جائے کہ عام آدمی سے لے کر خواص تک کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس وقت ملکِ عزیز میں کرپشن کو ناجائز نہیں سمجھا جاتا۔ چھوٹے بڑے، سرکاری غیر سرکاری، غریب سرمایہ دار جسے دیکھو اپنی اپنی سطح پر بدعنوانی کا ارتکاب کرتا نظر آتا ہے۔ سرکاری اہلکار اپنے ذاتی فائدے کے لیے معاشی بدعنوانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دار اپنے کاروبار میں ڈنڈی مارتا نظر آتا ہے۔ کارخانوں اور ملوں میں دو نمبر اور گھٹیا پراڈکٹ تیار کی جاتی ہیں۔ مصنوعات بازار میں آنے سے پہلے ہی ان کی نقل بازار میں دستیاب ہوتی ہے۔ مستری مزدور ایک دن کا کام اپنی سست روی سے دو تین دن تک کھینچ لے جاتے ہیں۔ دودھ بیچنے والا پانی کی ملاوٹ کر کے اپنا منافع بڑھا لیتا ہے۔ گھٹیا مال کو ایک نمبر بتا کر بیچنا اور زیادہ منافع کمانا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کر کے جیتنا، ووٹوں کی خرید و فروخت کر کے حکومتیں بنانا اور گرانا ہمارے ملک میں عام پریکٹس ہے۔ اصل دکھ کی بات یہ ہے کہ سب جانتے ہیں یہ برا اور غیراخلاقی کام ہے مگر کسی کو بھی اس برائی کا احساس ہوتا ہے نہ شرمندگی۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے ہمارے ہاں اینٹی کرپشن کا محکمہ وجود میں لایا گیا مگر اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ بہت سے ایسے کیسز بھی منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں محکمہ اینٹی کرپشن کے ملازمین اور افسران خود کرپشن میں مبتلا ثابت ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کم از کم تیس مرتبہ کسی نہ کسی طریقے سے کرپشن کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوا۔ یکم نومبر 1991ء کو کرپشن کے خلاف ایک جامع قانون نیب (National Accountability Bureau) کا نفاذ ہوا۔ قومی احتساب بیورو نے نامساعد حالات میں بھی بہت سے بدعنوان لوگوں کو پکڑا۔ سیاسی دبا کے باوجود بھی نیب نے کرپشن کے خلاف شعور اجاگر کرنے، کرپشن کو طاقت کے ساتھ روکنے اور بہت سے مگر مچھوں کو قابو کر کے ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت ملکی خزانے میں جمع کروائی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ نیب کو سیاسی انجنیئرنگ اور جوڑ توڑ کے لیے بھی استعمال کیا گیا اور اس کے ذریعے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ نیب کے ذریعے بلیک میل ہونے والے بھی کوئی دودھ کے دُھلے نہیں تھے۔
کرپشن کی بنیادی وجہ انسان کے اندر کا لالچ اور مسابقت کا جذبہ ہے۔ لالچی شخص بہت آسانی سے کرپشن پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ نوّے کی دہائی تک زندگی بہت سادہ ہوا کرتی تھی۔ ہماری ضروریات بھی محدود تھیں۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی ترقی و بہتات نے ہم سب کا لائف سٹائل تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ پہلے صرف بنیادی ضروریات پورا کرنے کا سوچا جاتا تھا۔ سب قناعت پسند تھے۔ اب تعیّشات نے بھی ضروریات کی جگہ لے لی ہے۔ سادہ خوراک کی جگہ فاسٹ فوڈ اور سافٹ ڈرنکس ہماری ترجیح بن چکے ہیں۔ سادہ لباس کی جگہ مہنگے اور برانڈڈ ملبوسات نے لے لی ہے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لگژری شادیاں اور ان پر کئی قسم کی ڈشز، فضول رسومات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش نے اخراجات میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخلہ دلوانا فیشن بن گیا ہے۔ موٹر سائیکل والا کار لینے کا خواہشمند ہے۔ کار والا مزید بڑی اور مہنگی گاڑی خریدنا چاہتا ہے۔ خواہشات کے بے لگام گھوڑے نے ہمیں لگام ڈال رکھی ہے۔ لوگ اپنے محدود ذرائع آمدنی میں رہتے ہوئے جب دوسروں کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو ناجائز ذرائع آمدنی کے راستے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ زندگی کا حقیقی مقصد اور عنوان بندگی ہے۔ جب اصل عنوان سے پیچھے ہٹ جائیں تو بدعنوانی آگے بڑھ کر اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس راستے کی کوئی منزل نہیں ہے۔ بدعنوانی ایسا جال ہے جو ایک مرتبہ کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو پھر اس کا اس جال سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ کرپشن کے خاتمے کے معروف سلوگن Say no to Corruption( بدعنوانی سے انکار کیجیے) کا ترجمہ بھی اپنی مرضی سے ’’ کرپشن کو کچھ مت کہو‘‘ کرتا ہے۔
عالمی یومِ انسدادِ بدعنوانی کے موقع پر ہم سب کے لیے یہ عہد کرنا ضروری ہے کہ ملک میں سے کرپشن اور ناانصافی کے خاتمہ اور میرٹ کے بول بالا کے لیے سب اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے تاکہ عوام میں پھیلی مایوسی اور ناامیدی کا خاتمہ ہو سکے۔ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ عام شہریوں، اساتذہ، سول سوسائٹی، اور میڈیا کو اس سے آگاہی اور اس کے انسداد کے لیے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔