Column

ملیکتہ العرب

تحریر : صفدر علی حیدری
’’ ( اے رسول) پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔ اس نے انسان کو لٹکے ہوئے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے ! اور آپؐ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی ۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔”سورہ العلق کی یہی پانچ ابتدائی آیات تھیں جو سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ آپؐ ان آیتوں کو یاد کر کے اپنے گھر تشریف لائے۔ آپؐ کے قلب اطہر پر مستقبل کی عظیم ذمہ داریوں کا احساس آپؐ پر ابھی باقی تھا۔ زوجہ محترمہ سے فرمایا کہ مجھے کملی اڑھائو۔ مجھے کملی اڑھائو۔ کچھ دیر آرام فرمانے کے بعد آپؐ نے سیدہ خدیجہؓ سے غار حراء میں پیش آنے والا واقعہ بیان فرمایا۔ واقعہ سن کر غم گسار زوجہ نے آپؐ کو تسلی دی اور فرمایا ’’ اللہ کی قسم! اللہ آپ ؐکو ہرگز غمزدہ نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محروموں کو عطا کرتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں اور راہِ حق میں آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔
یہ آنجنابؐ کی صحبت کا فیض تھا کہ آپؓ کے دہن اقدس سے اللہ ذوالجلال کا نام ادا ہو رہا تھا۔ یہ خدیجتہ الکبریؓ ہیں ، جنہیں خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون، جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ آپؓ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے ’’ طاہرہ‘‘ کے لقب سے مشہور تھیں ۔ اپنی بے پناہ دولت کے سبب وہ’’ ملیکتہ العرب ‘‘ کہلائیں ۔ انہوں نے آنجنابؐ کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپؐ کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق کا احوال اپنے غلام سے بارہا سن چکی تھیں اور آپؐ سے بے انتہا متاثر ہوئی تھیں۔ پھر ایسا ہوا کہ رہ نہ پائیں اور آپؐ نے حضور کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی، جب رسالت مآبؐ کی عمر عزیز صرف پچیس برس تھی۔ آپؓ کو پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی اور 25سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غم گسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہؓ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے۔
سیدہ خدیجہؓ کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں ۔ اسی زمانہ میں’’ حرب الفجار ‘‘ چھڑی ، جس میں سیدہ خدیجہؓ کے والد لڑائی کے لیے نکلے اور جاں بحق ہوئے ۔ یہ عام الفیل سے 20سال بعد کا واقعہ ہے۔ باپ اور شوہر کی وفات سے سیدہ خدیجہؓ سخت ذہنی قلبی صدمہ سے دوچار ہوئیں۔ کنبے کا ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا اب کوئی نگران نہ تھا ، تاہم اپنے اعزہ کو مال تجارت دے کر بھیجتی تھیں۔ ایک دفعہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو جناب ابو طالب نے عبداللہ کے یتیم سے کہا کہ تم کو خدیجہؓ سے جا کر ملنا چاہیے، ان کا مال شام جائے گا۔ بہتر ہے کہ تم بھی ساتھ لے جاتے، میرے پاس ابھی روپیہ نہیں ورنہ میں خود تمہارے لیے سرمایہ مہیا کر دیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہرت ’’ امین‘‘ کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ ؐ کے حسن معاملت ، راست بازی ، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا عام تھا۔ بی بی خدیجہؓ کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ ’’ آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں ، جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا اضافی دوں گی‘‘۔ سید المرسلینؐ نے قبول فرما لیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ کے ہمراہ بصریٰ تشریف لے گئے ۔ اس سال کا نفع سال ہائے گزشتہ کے نفع سے کہیں زیادہ تھا۔ بی بی خدیجہؓ کی دولت و ثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضا و قدر کی نگاہ انتخاب کسی اور پر پڑ چکی تھی۔ نبی محتشمؐ مال تجارت لے کر شام سے واپس آئے تو سیدہ خدیجہؓ نے شادی کا پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت مینہ ( یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ) اس خدمت پر مقرر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منظور فرمایا اور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی ۔ جناب طالب نے اپنے بھتیجے کا خطبہ نکاح پڑھا: ’’ تمام تعریف اس خدا کے لیے ہے کہ جس نے ہمیں نسل ابراہیمٌ اور اسماعیلٌ کی اولاد سے قرار دیا ہے اور ہمارے لیے ایسے گھر ( خانہ کعبہ) کو قرار دیا ہے کہ جس کے گرد لوگ طواف کرتے ہیں اور وہ پر امن حرم قرار دیا ہے کہ تمام دنیا سے نعمتیں اس کی طرف لائی جاتی ہیں اور ہمیں اپنے دیار میں لوگوں پر حاکم قرار دیا ہے ‘‘۔ پھر فرمایا ’’ یہ میرا بھتیجا محمّدؐ ابن عبد اللہ ابن عبد المطلب ہے، اس کا قریش میں جس کسی سے بھی موازنہ کیا جائے گا تو یہ اس سے برتر و بالا تر ہو گا اور اس کو کسی سے بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ مال کے لحاظ سے اس کا ہاتھ خالی ہے ( لیکن یہ کوئی عیب نہیں ہے) کیونکہ مال و ثروت ایک نا پائیدار چیز اور جلدی سے گزر جانے والا سایہ ہے اور اب وہ خدیجہؓ کو اور خدیجہؓ اس کو چاہتی ہے اور حق مہر جو بھی ہو گا، وہ میرے ذمہ پر ہو گا، چاہے وہ مہر نقد ہو یا ذمہ پر ہو، وہ بلند مقام اور اس کی شخصیت عظیم اور اس کی زبان نرم اور تاثیر گزار ہے‘‘۔
سیدہ خدیجہؓ نے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں آنجنابؐ کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں۔ آپؐ کو مشرکین کی تردید یا تکذیب سے جو کچھ صدمہ پہنچتا، حضرت خدیجہؓ کے پاس آکر ختم ہو جاتا تھا کیوں کہ وہ آپؐ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کو آپؐ کے سامنے ہلکا کر کے پیش کرتی تھیں۔ تین سال تک بنو ہاشم شعب ابی طالب میں بسر کرنے پر مجبور ہوئے تو آپؓ بھی آنجنابؐ کے ہمراہ تھیں۔ یہ زمانہ ایسا سخت گزرا کہ طلح کے پتے کھا کھا کر رہتے تھے۔ ام المومنین طاہرہؓ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپؐ کی تائید میں نہ اٹھی۔
کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃالعرب آپؐ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا۔ لیکن اس عالم گیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کر رہی تھی۔ یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہؓ کے قلب سے بلند ہوئی تھی۔ سیرت ابن ہشام میں ہے: ’’ وہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سچی مشیر کار تھیں‘‘۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیلٌ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ خدیجہؓ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپؐ ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے۔
شعب ابی طالب کی محصوری ختم ہوئی تو سیدہ خدیجہؓ وفات پا گئیں۔ یوں رفع صدی کا تعلق اختتام پذیر ہوا۔ جب آپؓ کی تدفین کا وقت آیا تو جناب رسالت مآبؐ خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غم گسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔ رسالت مآبؐ نے ان کی اور اپنے مہربان چچا جناب ابو طالب کی وفات کے سال کو عام الحزن قرار دیا۔ ان کی وفات کے بعد آپؐ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپؐ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے۔ ایک بار حضرت عائشہؓ نے کوئی بات کر دی۔ آپؐ کے صبر کا پیمانہ بھر گیا۔ فرمانے لگے ’’ خدا کی قسم خدا نے مجھ کو اس سے بہتر عطا نہیں کی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے۔ اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھ کو جھٹلا رہے تھے، اور اس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا تھا اور خدا نے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا ‘‘۔
پیغمبر اکرمؐ نے کبھی بھی جناب خدیجہؓ کو فراموش نہیں کیا اور ہمیشہ ان کے اخلاق حسنہ اور ان کی خوبیوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ بی بی عائشہؓ کا کہنا ہے: ’’ مجھے ازواج پیغمبر میں سے کسی پر اتنا حسد نہیں ہوا جتنا خدیجہؓ پر ہوا اس لیے کہ پیغمبرؐ ہمیشہ اسے یاد کرتے تھے اور اگر گوسفند ذبح کرتے تھے تو خدیجہؓ کی دوستوں کے لیے بھی بھیجتے تھے‘‘۔صحیح بخاری و مسلم میں ہے: ’’ عورتوں میں بہترین مریمٌ بنت عمران ہے اور پھر عورتوں میں بہترین خدیجہؓ بنت خویلد ہیں‘‘۔
آپؓ نے اپنی ساری دولت راہ اسلام میں لٹا دی۔ قرآن مجید میں آپ کی مدح وارد ہوئی ہے
’’ آپ کو تہی دست پایا تو مال دار کر دیا‘‘
رسولؐ خدا خود بھی فرمایا کرتے تھے: ’’ کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؓ کی دولت نے پہنچایا‘‘۔
ملیکتہ عرب سیدہ خدیجہؓ کے کئی اعزازات حاصل ہیں۔ آپؓ اس کائنات کے سب سے عظیم شخصیت کی پہلی بیوی ہیں۔ ان کی زندگی میں آپؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔ آپؓ دنیا کی بہترین عورت کی ماں ہیں۔ آپؓ امام المتقین کی ساس ہیں۔ آپؓ حسنین کریمین کی نانا جان ہیں۔ آپؓ نے نبی پاکؐ کے پیچھے سب سے پہلے نماز پڑھی۔ عورتوں میں آپؓ سب سے پہلے اسلام لائیں، آپؓ کی ذات و صفات پر ہمارا سلام پہنچے۔

صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button