Ali HassanColumn

بند کمروں میں تیار کی گئی پالیسیوں کا ایک حصہ

تماش گاہ
تحریر: علی حسن
ملک کی بہتر نہ ہونے والی معاشی صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت ابھی تک ایسے اقدامات نہیں اٹھا سکی ہے جن کے نتیجے میں معاشی اخراجات پر قابو پایا جا سکے۔ اطلاعات ہیں کہ رائٹ سائزنگ کے تحت وزارت صنعت و پیداوار نے اپنی 29میٹنگ میں سے 16متعلقہ اداروں کو ممکنہ بندش یا نجکاری کے لیے شناخت کر لیا ہے، جو کہ حقوق سازی اور نجکاری کی جامع حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حکومت نے کہا کہ 6ماہ میں اہداف حاصل نہ کرنے والے ادارے بند ہونگے۔ باقی اداروں کا عوامی و نجی شراکت داری کے ماڈلز کے تحت جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس امر کا انکشاف وزیر صنعت اور ایڈیشنل سیکرٹری نے سینٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ وزیر صنعت نے بتایا کہ حکومت 16اداروں کی بندش یا نجکاری پر غور کر رہی ہے، جس میں نیشنل فرٹیلائزر کمپنی (NFC)، پاکستان آٹوموبائل کارپوریشن (PACO)، اور نیشنل پروڈکٹیویٹی آرگنائزیش (NPO)اور یوٹیلیٹی اسٹورز آرگنائزیشن جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئندہ چھ ماہ میں ان اداروں کی کارکردگی کو قریب سے مانیٹر کرتے رہیں گے۔ اگر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تو ہم انہیں بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ پاکستان آٹوموبائل کارپوریشن، پاکستان انجینئرنگ کمپنی، ری پبلک موٹرز کے پورٹ فولیوز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، ایڈیشنل سیکریٹری نے سمیڈا کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سمیڈا سمیت کچھ ادارے صنعتی نظام کیلئے اہم ہیں، بندش کے سنگین نتائج ہونگے، اس اقدام کا مقصد آپریشنز کو بہتر بنانا اور کارکردگی میں اضافہ کرنا ہے۔ وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ کم کارکردگی دکھانے والے اداروں کو چھ ماہ کے اندر بند کر دیا جائے گا، جبکہ دیگر کو عوامی و نجی شراکت داری کے تحت دوبارہ ڈھانچہ بندی کی جا سکتی ہے۔ حکومت صنعتی شعبے کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اہم ادارے جیسے کہ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (SMEDA)ریاستی کنٹرول میں رہیں گے۔ وزیر نے یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی، جس کی صدارت سینیٹر عون عباس بپی نے کی۔ وزیر نے کہا کہ حکومت نے مرحلہ وار ناقص کارکردگی دکھانے والے اداروں کو ختم کر کے آپریشنل کارکردگی کو بہتر بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جو ادارے آئندہ چھ ماہ میں کارکردگی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے، انہیں بند کر دیا جائے گا۔ تنویر حسین نے کہا، کم کارکردگی دکھانے والے ادارے بند کر دئیے جائیں گے، جس سے حکومت کی کارکردگی میں بہتری اور صنعتی کارکردگی کو بڑھانے کے عزم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ کمیٹی کو حقوق سازی کی کوششوں کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی، جس میں اہم فیصلوں کے لیے کابینہ کی منظوری اور اداروں کی کارکردگی کا جاری جائزہ شامل تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری آصف سعید خان نے کہا کہ چھ سے سات ادارے ملک کے صنعتی نظام کے لیے بہت اہم ہیں اور ان کی بندش سے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان اداروں میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (SMEDA)بھی شامل ہے، جسے وزارت کے مینڈیٹ کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے 16اداروں کو بند یا نجکاری کرنے کے منصوبے پر بھی روشنی ڈالی، جس میں سیکشن 42کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اگرچہ کابینہ نے ان کی بندش کی ابتدائی منظوری دی تھی، تاہم یہ فیصلہ واپس لینے کی درخواست کے بعد دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ حقوق سازی کی کوششیں قومی اقتصادی اور صنعتی ترجیحات کے مطابق ہوں۔کمیٹی نے اہم اداروں کے اثاثوں کے پورٹ فولیوز پر بھی تبادلہ خیال کیا، جن میں پاکستان انجینئرنگ کمپنی شامل ہے، جس پر 7سے 8ارب روپے کا قرضہ ہے جبکہ اس کے اثاثے 19ارب روپے مالیت کے ہیں۔ ریپبلک موٹرز، جس کے اثاثے 10ارب روپے ہیں، کو بھی 28افراد کی جانب سے اثاثوں پر قبضے کے مسئلے کا سامنا ہے اور وہ اثاثوں کی بازیابی کے لیے قانونی ٹیم کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن، جو کہ روز مرہ کے استعمال کی ریٹیل تقسیم کا ایک اہم ادارہ ہے، پر بھی بات چیت کی گئی۔ ابتدائی طور پر اسٹورز کو بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، تاہم حکومت نے اب انہیں نجکاری کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کارپوریشن کے 4300اسٹورز میں سے 2400نقصان میں چل رہے ہیں، خاص طور پر بلوچستان اور گلگت بلتستان میں، جبکہ 1900منافع بخش ہیں۔ اگست میں نجکاری کمیشن نے نجکاری کے عمل میں معاونت کے لیے ایک مالی مشیر کی خدمات حاصل کی تھیں، جسے مرحلہ وار انجام دیا جائے گا۔ وزیر تنویر حسین نے پاکستان کے صنعتی اور ریٹیل شعبوں کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم آئندہ چھ ماہ میں ان اداروں کی کارکردگی کو قریب سے مانیٹر کرتے رہیں گے۔ اگر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تو ہم انہیں بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ سینیٹر بپی نے متوازن حکمت عملی پر زور دیا اور کہا کہ خاص طور پر ملتان میں اہم اداروں کو قبل از وقت بند نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ روزگار کے مواقع کی حفاظت کرے اور ضروری صنعتوں کی مسلسل فعالیت کو یقینی بنائے۔ رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت اقتصادی امور ڈویڑن نے گریڈ ایک سے چار تک کی 140پوسٹیں متروک ( dying cadre)قرار دیدی ہیں۔ وزارت کے شعبہ ایڈمن نے اس ضمن میں باضابطہ اْفس آرڈر جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کا بینہ کے27اگست 2023کے فیصلہ کی روشنی میں یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ کابینہ نے جنرل اور نان کور سروسز ( صفائی ، پلمبنگ با غبانی وغیرہ ) کو آئوٹ سروس کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن نے ایم ایس ونگ نے 18اکتوبر کو آ فس میمو ر نڈم جاری کیا تھا جس میں تمام وزارتوں اور ڈویڑنوں کو کابینہ کے فیصلے پر عمل درآ مدیقینی بنا نے کی ہدایت کی گئی تھی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کی منظوری سے جن 140پوسٹوں کو dying cadreقرار دیا گیا ہے ان پر مزید بھرتیاں نہیں ہوں گی اور نہ ہی موجودہ ملازمین کو ترقی دی جا ئے گی۔ جوں جوں یہ ملازمین ریٹائر ہوتے جائیں گے پوسٹ ختم تصور کی جائے گی۔
اس تماش گاہ میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء فروخت کرنے والے ادارے یوٹیلیٹی اسٹورز کی بارے میں توجہ سے کام نہیں کیا گیا ہے۔ بابو لوگوں نے بازاروں کو بذات خود دورہ کرنے یا چکر لگانے کی بجائے بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلہ سنا دیا۔ بابو لوگوں اور ان کی بیگمات کو یقین ہی نہیں کہ یہ اسٹور عام آدمی کی سہولتوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن ’’بابو‘‘ لوگوں کو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ حکومتوں کا کام یا ذمہ داری صرف منافع کمانا ہی نہیں ہوتا ہے۔ ویسے ہی پاکستان میں عام آدمی کو جس طرح سرکاری اقدامات کے نام پر سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے، حکومتوں اور سیاست دانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ لاوہ پک گیا ہے، کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ اس وقت کیا ہوگا۔ کوئی ہے جو اس مسئلہ پر سوچے۔

جواب دیں

Back to top button