CM RizwanColumn

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

جگائے گا کون؟
تحریر سی ایم رضوان
ساحر لدھیانوی نے شاید آج ہی کے پاکستانی حالات کے متعلق لکھا تھا کہ ’’ کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا۔ بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا‘‘۔ ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو۔ کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا۔ کس لئے جیتے ہیں ہم کس کے لئے جیتے ہیں۔ بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا۔ کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست۔ سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔
بات اگر 24نومبر سے شروع ہونے والی پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی کی جائے تو یقین جانئے کہ ہر بات پہ رونا آتا ہے کہ اب کاروبار زندگی معطل ہو کے رہ گیا ہے۔ تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ راستے بند ہیں مریضوں اور ضروری کام کاج پر جانے والے مسافروں کو شدید پریشان کن حالات کا سامنا ہے۔ فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔ کے پی کے میں گورنر راج لگانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ سب سے تلخ بات یہ کہ اب لاشیں بھی گرنا شروع ہو گئی ہیں۔ سب کو رونا آ رہا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی خوش ہیں کہ ان کی تمنائیں رنگ لے آئی ہیں ملکی کام کاج ٹھپ ہو کے رہ گیا ہے اور ملک بھر میں بے یقینی کا راج قائم ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے پر گزشتہ روز شر پسندوں کے ہاتھوں 3رینجرز اہلکاروں کی شہادت کے بعد حکومت نے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی ذرائع کے مطابق چونگی نمبر 26پر مظاہرین نے رینجرز اور پولیس پر پتھرائو اور فائرنگ کی۔ اس واقعے میں شرپسندوں نے گاڑی رینجرز اہلکاروں پر چڑھا دی تھی جس کے نتیجے میں 3رینجرز اہلکار شہید جبکہ رینجرز اور پولیس کے 5جوان شدید زخمی ہو گئے جنہیں طبی امداد کے لئے اسپتال منتقل کیا گیا۔ دوسری طرف صورتحال پر قابو پانے کے لئے آرٹیکل 245کے تحت پاک فوج کو بلا لیا گیا ہے۔ جس کے تحت انتشاریوں اور شر پسندوں کو موقع پر گولی مارنے کے واضح احکامات دے دیئے گئے ہیں۔ دہشت گرد کارروائی سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں، اب تک شر پسندوں کے حملوں میں رینجرز کے 3اور پولیس کا ایک اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اب تک ایک سو سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں، متعدد کی حالت نازک ہے اور شر پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے ان کو موقع پر گولی مارنے کے بھی واضح احکامات دے دیئے گئے ہیں۔ ان حالات میں رونے کا باعث یہ بھی ہے کہ جو صورت حال شروع ہو گئی ہے اس کے خاتمے اور پُرامن حل کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ خدشہ ہے کہ اب ان حالات کی سنگینی ہی اس معاملہ کو ختم کر پائے گی۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ محسن نقوی کا چند روز پہلے موقف تھا کہ ہم نے پی ٹی آئی کو کہا تھا کہ سنگجانی میں احتجاج کر لیں، اگر وہ ڈی چوک پر آنے پر بضد رہے تو ہم ہر قدم اٹھائیں گے چاہے دفعہ 245ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ریکارڈ پر رکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو سنگجانی میں احتجاج کی پیش کش کی گئی تھی جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں دوسرے ملک کے سربراہ آئے ہوئے ہیں، سخت قدم نہیں اٹھانا چاہتے، ہمیں ریڈ لائن کراس نہ کرنے دیں، وہ ریڈ لائن پی ٹی آئی کو بھی بتا دی گئی ہے وہ کراس کی گئی تو انتہائی قدم اٹھائیں گے۔ اب پی ٹی آئی نے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے سنگجانی جانا ہے یا نہیں جانا، ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ بات کر لیں، چیف کمشنر نے بھی رابطہ کیا ہے، سنگجانی کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے ابھی تک ہمیں فائنل جواب نہیں آیا۔ بار بار سمجھا رہے ہیں، ریڈ لائن کراس کرنے پر مجبور نہ کریں۔ اس سے پہلے بھی ڈی چوک میں کبھی کسی کو احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے قبل اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ڈی چوک پہنچے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ پی ٹی آئی سے مذاکرات سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ منسٹر انکلیو میں میری کسی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں ممکنہ طور پر پشاور موڑ کو دھرنا پوائنٹ ڈکلیئر کرنے کی تجویز ڈکلیئر ہونے پر حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی نہ کرنے کی بات کی گئی۔ جبکہ مظاہرین نے بھی ریڈزون نہ جانے کی یقین دہائی کروائی گئی۔ ایک اطلاع کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان منسٹر انکلیو میں مذاکرات ہوئے، حکومت کی جانب سے وزیرداخلہ محسن نقوی جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر گوہر نے وفد کی قیادت کی۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء امیر مقام نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شرائط کی بنیاد پر پی ٹی آئی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، مجرموں کی رہائی کے عوض مذاکرات نہیں کریں گے، اگر مطالبات ایسے ماننے ہیں تو حکومت اور عدالتوں کا کیا فائدہ ہے؟ پی ٹی آئی نے جو نقصان کیا اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ البتہ وزیر داخلہ نے ارادہ ظاہر کیا کہ جو بھی ڈی چوک پہنچے گا وہ گرفتار ہو گا، وہ آئیں اور ہم انہیں جانے دیں یہ نہیں ہوگا، رینجرز موجود ہے اگر 5 منٹ فائرنگ ہو تو ایک بندہ نظرے نہیں آئے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک میں عالمی سطح کے وفود آ رہے ہیں مخصوص وقت پر احتجاج کی کال کیوں دی گئی سامنے آجائے گا جو شخص بھی یہاں پہنچے گا قانون کے مطابق ان سے نمٹیں گے۔ میانوالی میں فائرنگ کی گئی جس سے واضح ہو گیا کہ یہ شر پسند عناصر کسی بھی طریقے سے لاشیں گرانا چاہتے ہیں، ہمارے پاس گولیوں سے زخمی اہلکار اور شواہد موجود ہیں۔ ہم صبر کر رہے ہیں، یہ واضح ہے کہ یہ لوگ لاشیں چاہتے ہیں یہی ان کی پالیسی ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ پولیس اہلکار کی شہادت کا مقدمہ احتجاج کی کال دینے والوں کے خلاف درج کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار کی شہادت میں ملوث ان تمام افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انہوں واضح کیا کہ جن لوگوں نے احتجاج کی کال دی وہ سب پولیس اہلکار کی شہادت کے ذمہ دار ہیں، کسی کو نہیں چھوڑیں گے سب پر ایف آئی آرز درج کی جائیں گی۔ ہم بھی گولی کا جواب گولی سے دے سکتے تھے بہت آسان تھا لیکن تحمل کا مظاہرہ کیا، پولیس نے گولی کا جواب آنسو گیس یا ربڑ بلٹ کے ذریعے دیا۔ پنجاب اور اسلام آباد پولیس کا جو نقصان ہوا وہ بھی بتائیں گے، پولیس کی 22سے زائد گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلائی گئی ہیں، 119پولیس اہلکار زخمی ہیں جن میں 4اہلکاروں کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں، پولیس اہلکار مبشر بھی فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوئے، اسلام آباد پولیس کے بھی 15اہلکار زخمی ہیں۔
حالات کی سنگینی کے ساتھ ساتھ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے متضاد اطلاعات اور ایک دوسرے کی نفی کرنے والی خبریں بھی عوام کو پریشان کر رہی ہیں اور بے یقینی اور افراتفری کو فروغ مل رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس سنگینی کو مزید تقویت ملتی رہے گی اور اس سنگینی پر پوری قوم سوائے رونے کے کچھ نہیں کر سکتی۔ سٹیک ہولڈرز اور طاقتور کوریڈورز کو موثر اور پُرامن حل پر غور کر کے مربوط پالیسی بنانی چاہئے اور ملک کو تباہی اور افراتفری کے دہانے پر پہنچا دینے والے اس احتجاج کو روک دینی چاہئے۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکن ڈی چوک پہنچ گئے ہیں اور ان کو پاک فوج کے جوانوں نے پورے احترام اور تحفظ کے ساتھ ویلکم کیا ہے اور پی ٹی آئی کے ان ورکروں نے بھی ان فوجی اہلکاروں کے ساتھ تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کروا دی ہیں، ایک اچھا تاثر پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے لیکن اس صورتحال کی تصدیق اور طوالت ہی دراصل معاملہ کو ٹھنڈا کرے پھر یہ سوال سب سے اہم ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی اس طرح کے پرامن حالات سے سمجھوتہ کریں گے یا نہیں۔ یعنی اگر بانی پی ٹی آئی نے صلح امن اور سلامتی کا راستہ اپنایا تو پھر ملک بھی امن کے راستے پر گامزن ہو جائے گا۔ لیکن اگر وہ سابقہ پالیسی پر ہی بضد رہے تو حالات کا رونا مزید بڑھ سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button