Column

خود انحصاری

شہر خواب۔۔۔
صفدر علی حیدری
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو یکم جولائی 1971ء میں قائم ہوا ۔ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ایک کروڑ پینتالیس لاکھ باسٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے، آبادی کے لحاظ سے یہ ایک چھوٹا صوبہ ہے لیکن معدنی دولت کے لحاظ سے یہ بڑا زرخیز خطہ ہے، اپنے محلِ وقوع ، جغرافیائی اہمیت، قدرتی و معدنی وسائل، ساخت اور متنّوع ثقافتی خدوخال کی وجہ سے ہمیشہ توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے لوگ نیم صحرائی زمینی ساخت اور کم بارشوں کی وجہ سے اکثر خشک سالی اور قحط کی صورت حال سے دوچار رہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں کے بلند و بالا پہاڑ قدرت کے انمول معدنی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن اس قدر قدرتی و معدنی وسائل رکھنے کے باوجود اس خطّے کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 770کلومیٹر طویل ساحلی پٹّی کے حامل اس خطّے کے لوگوں کی زندگی میں خوش حالی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ البتہ چند برسوں سے سی پیک کے حوالے سے بڑی شدّ و مد سے باتیں ہو رہی ہیں ۔ تاہم یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اربوں ڈالر کے منصوبوں سے بلوچستان کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟۔
صوبائی حکومتوں کے اتفاقِ رائے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے ستمبر 1995ء میں نیشنل منرل پالیسی کا اجراء کیا گیا ، لیکن کئی برس گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا، تو مشرف دورِ حکومت میں اکتوبر 1999ء میں مذکورہ پالیسی کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کیا گیا ، تاکہ اس پر عمل درآمد سے معدنیات کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو ترغیب مل سکے۔ اس حوالے سے بعض کام وفاق اور بعض صوبوں کو سونپے گئے ۔ جن میں معدنی سرمایہ کار سہولت کار اتھارٹی کی تنظیمِ نو ، معدنیات کی تلاش اور اس کے لیے لائسنس کے اجراء کا طریقۂ کار وضع کرنا ، صوبوں میں مائنز اور منرلز محکمے کا قیام اور اس کے لیے قوانین کے اجراء سمیت سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل کی تقرری، صوبے میں تین ڈویژنل ہیڈز کی تقرری، آپریشنل اسٹاف کی بھرتی اور مائن اور منرلز کے شعبے کے لیے تزویراتی حکمتِ عملی کی ترتیب شامل تھے ۔ اس حوالے سے زیادہ تر کام صوبے کی جانب سے کیا گیا ، جس کے بعد قومی منرل پالیسی پر 8مارچ 2002ء سے عمل درآمد شروع ہوا اور جو کام کیے گئے ، اُن میں مائنز و منرل کے لیے علیٰحدہ محکمے کا قیام ، سیکرٹری کی تقرری ، متعلقہ محکموں کی وساطت سے ون ونڈو سروس کے تحت مائننگ انڈسٹری کو سہولتیں مہیّا کرنے کے علاوہ ڈائریکٹریٹ جنرل، مائنز و منرل، انسپکٹریٹ آف مائنز اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مائنز ویلفیئر ونگ کا قیام شامل تھے۔قومی منرل پالیسی ہی کی روشنی میں بلوچستان منرل رولز 2002ئ کا بھی اجراء کیا گیا ۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، خام لوہا اور ماربل ( اونیکس) ماربل ( آرڈینری) کرومائیٹ، بیرائیٹ، لائم سٹون، گرینائیٹ سمیت 20دیگر قیمتی معدنیات کے علاوہ تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں ۔ علاوہ ازیں، سوئی کے علاوہ لوٹی کے مقام سے بھی گیس حاصل کی جا رہی ہے ۔ بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری سے فی الوقت تین بڑے معدنی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ جن میں ضلع چاغی میں سینڈک اور ریکوڈک کے تانبے اور سونے کی تلاش اور اسے بروئے کار لانے کے منصوبے اور ضلع لسبیلہ میں دُدرخام لوہے کا منصوبہ شامل ہیں۔ تاہم ان منصوبوں میں تعطّل ، منرل پالیسی کے تحت صوبوں کو رائلٹی، لیزنگ اور ٹیکس کی مد میں ان کے محدود حصّے کی وجہ سے خاطر خواہ آمدنی نہیں ہو پا رہی ہے ۔
دنیا میں سونے اور چاندی کا دوسرا بڑا ذخیرہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک میں پایا جاتا ہے، جبکہ چاغی کے بہ ظاہر خشک اور سنگلاخ پہاڑوں میں ایک کروڑ 23لاکھ ٹن تانبے اور دو کروڑ 9لاکھ اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ریکوڈک میں 58فیصد تانبے اور 28فیصد سونے کے ذخائر کی کل مالیت کا اندازہ لگ بھگ 65ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
تمام تر مشکلات کے باوجود یہ وسائل تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اگر توجّہ اور اعتماد کا ماحول پیدا ہو جائے، تو پاکستان معدنی وسائل کی دریافت اور پیداوار کے ذریعے نہ صرف تجارتی خسارے سے نجات حاصل کر سکتا ہے ، بلکہ اس کی بدولت غیر مُلکی قرضہ بھی ادا کر سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ مُلک میں دیگر معدنی وسائل بھی دستیاب ہیں۔ جن میں معدنی تیل ایک اہم قیمتی سرمایہ ہے۔ ملک میں تیل کے ذخائر بلوچستان کے اکثر علاقوں سمیت سطح مرتفع، پوٹھوہار، کھوڑ، ڈھلیاں، کوٹ میال، ضلع اٹک میں سارنگ، ضلع چکوال میں بالسکر، ضلع جہلم میں جویامیر اور ڈیرہ غازی خان میں ڈھونڈک اور سندھ میں بدین، حیدر آباد، دادُواور سانگھڑ کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش کے لیے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن(OGDC)قائم کی گئی ہے۔ صنعتوں کو رواں رکھنے کے لیے قدرتی گیس کی ضرورت ہوتی ہے، جو پیٹرول کے مقابلے میں سستی بھی ہوتی ہے۔ ملک کی توانائی کا تقریباً 35 فی صد قدرتی گیس پر منحصر ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں قدرتی گیس سب سے پہلے 1951ء میں بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی کے قریب سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی، اس کے بعد سندھ اور پوٹھوہار سمیت 13مقامات میں دریافت ہوئی۔ گیس کے ذخائر کے سب سے اہم مقامات بلوچستان میں سوئی، اوچ، کوئٹہ، لورالائی، عوب، زیارت، دکی، ہرنائی سمیت سندھ میں خیر پور، مزرانی، سیری، ہنڈ کی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک، پیر کوہ، ڈھلیاں اور کوٹ میال شامل ہیں۔ اسی طرح کوئلہ بھی قیمتی ذرائع توانائی میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک میں شامل ہے، جہاںکثیر مقدار میں یہ معدنیات موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، ملک میں کوئلے کے تقریباً ایک ارب 75کروڑ ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ تاہم، پاکستان میں ملکی ضرورت کا صرف گیارہ فی صد کوئلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں ڈنڈوت، مکڑوال اور پڈھ کے مقام پر بھی کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان میں کوئٹہ، شاہ رگ، خوست، ہرنائی، ڈیگاری بولان سمیت مختلف علاقوں میں کوئلہ موجود ہے۔ سندھ میں کوئلے کی کانیں جھمپیر اور لاکھڑا میں موجود ہیں۔ حال ہی میں ضلع تھرپار کر میں بھی کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں، مگر انتہائی گہرائی میں ہونے کے باعث انہیں کھود کر نکالنا مشکل ہے، البتہ اسے گیس میں تبدیل کرکے اس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ملکی صنعت و حرفت کے لیے خام لوہے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کا شمار بھی انتہائی اہم معدنیات میں ہوتا ہے، جس سے فولاد، مشینریز اور مختلف قسم کے اوزار بنائے جاتے ہیں۔ کالا باغ کے علاقے میں خام لوہے کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جب کہ ایبٹ آباد، لنگڑیال اور چترال میں بھی لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں خام لوہا ( لوہے کی معدن) خضدار، مسلم باغ سمیت مختلف علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ملک میں اب تک منظرِ عام پر آنے والا لوہا درمیانے درجے کا ہے، جس سے ملک کی صرف 16فیصد ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز میں درآمد شدہ خام لوہا استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح کرومائیٹ، جو ایک سفید رنگ کی دھات ہے، فولاد سازی، طیارہ سازی، رنگ سازی اور لوازمات بنانے میں کام آتا ہے۔ اس کے دنیا میں سب سے بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں، جسے برآمد کر کیکثیر زرِمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اس کے ذخائر بلوچستان میں مسلم باغ، چاغی، خاران اور خیبر پختون خوا میں مالا کنڈ، مہمند ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں پائے جاتے ہیں۔
درج بالا اہم، قیمتی معدنیات کے علاوہ بھی قدرت نے پاکستان کو بیش بہا معدنی خزائن سے نوازا ہے، ان اربوں ڈالرز مالیت کے دریافت شدہ معدنی وسائل کو بروئے کار لاکر ملک سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ برقی آلات سازی میں عام استعمال ہونے والے تانبے کے وسیع ذخائر ضلع چاغی میں موجود ہیں، جب کہ سفید رنگ کا چمکیلا پتھر جپسم، جو سیمنٹ، کیمیائی کھاد،پلاسٹر آف پیرس اور رنگ کا پائوڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے، پنجاب کے ضلع جہلم، میاں والی اور ڈیرہ غازی خان کے علاوہ خیبر پختون خوا میں کوہاٹ، سندھ میں روہڑی اور بلوچستان میں کوئٹہ، لورالائی سمیت دیگر علاقوں میں بہ کثرت پایا جاتا ہے۔مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سنگِ مرمر بھی چاغی، مردان، سوات، شانگلہ کے اضلاع اور خیبر پختون خوا میں بہ کثرت پایا جاتا ہے۔ اپنی نزاکت و نفاست اور خوش نما رنگوں کی بنا پر پاکستان کا سنگِ مرمر دنیا میں سب سے زیادہ عمدہ اور معیاری سمجھا جاتا ہے۔ سیاہ و سفید سنگِ مرمر، ضلع اٹک میں کالا چٹا کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سنگِ مرمر سی بنائی گئی مختلف اشیاء کی برآمد سے پاکستان کثیر زرِ مبادلہ کما رہا ہے۔ کوئٹہ سے عوب تک اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ضلع چاغی میں پایا جانے والا ماربل ( اونیکس) اپنی خوب صورتی کی وجہ سے آرایشی اشیاء بنانے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ دھاتی منرلز کی بات کی جائے، تو یہاں ایلومینیم کے بھی بڑے ذخائر موجود ہیں، جو زیارت اور قلات کے علاقوں باکسائٹ اور لیٹرائٹ میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ دیگر دھاتوں میں کرومائٹ کے ذخائر مسلم باغ، خضدار اور لسبیلہ کے علاقوں میں موجود ہیں۔ سیسے اور جست کے خضدار اور لسبیلہ کے علاقوں میں کم وبیش 60ملین ٹن سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی کیرتھر بیلٹ کے علاقے دودّر میں بھی کوئی دس ملین ٹن کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے، جب کہ چاغی میں آتش فشانی چٹانوں میں مِلا جلا لوہا بھی کوئی ایک سو ملین ٹن کے لگ بھگ موجود ہے۔ چاغی میں چاندی، مولی بڈنم ، یورینیم اور ٹنگسٹن بھی کچھ مقدار میں ہے۔ پلاٹینیم مسلم باغ، عوب، خضدار اور لسبیلہ کے علاقوں میں موجود ہے، جس پر تفصیل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹائی ٹینیم اور زرقون مکران کی ریت میں پائے گئے ہیں۔ مکران اور سیاہان کے علاقے میں اینٹی منَی اور سونا چاندی کے ذخائر کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔ ان تمام وسائل کے تناظر میں اگر موثر حکمت عملی کے ساتھ ٹھوس اقدامات کے ساتھ صوبے میں موجود معدنیات پر خصوصی توجّہ مرکوز کی جائے، تو عین ممکن ہے کہ پاکستان دنیا کے خوش حال ترین ممالک میں شامل ہو جائے ۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ہمیں ایک اچھا ماحول پیدا کرکے اکائیوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ملک سے کرپشن اور بد عنوانی کا خاتمہ کرکے چھوٹی اکائیوں کو اقتدار میں نمایاں حصّہ دینا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم امداد لینے والے ممالک کی فہرست سے نکل کر امداد دینے والوں میں شامل ہو جائیں ۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے امن امان ہے۔ آئے روز دہشتگردی کے واقعات پیش آتے ہیں جن میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ جنگوں کا فیصلہ اکثر مذاکراتی میز پر ہی ہوتا ہے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا ایک حوصلہ افزاء بیان سامنے آیا ہے’’ مجھے پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل پر کامل یقین ہے ، ایک سال پہلے چھائے ہوئے مایوسی کے بادل آج چھٹ چکے ہیں‘‘۔ کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا میں نے گزشتہ نشست میں بھی کہا تھا کہ ’’ مایوسی مسلمان کے لیے حرام ہے‘‘، آج پاکستان کی معیشت کے تمام اعشاریے مثبت ہیں، اگلے برس تک ان شاء اللہ مزید بہتر ہوں گے۔ آرمی چیف نے کہا مایوسی پھیلانے اور ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والے لوگ آج کدھر ہیں؟ کیا ان کو جواب دہ نہیں ٹھہرانا چاہئے؟ کوئی چیز بشمول سیاست ملک سے مقدم نہیں، ہم سب کو ذاتی مفاد پر پاکستان کو ترجیح دینی چاہیے ۔ ریاست ماں کی طرح ہے اور اس کی قدر لیبیا، عراق اور فلسطین کے عوام سے پوچھنی چاہئے، یاد رکھیں! پاکستان کے علاوہ ہماری کوئی شناخت نہیں ہے ۔ جتنی بھی مشکلات ہوں اگر ہم سب مل کر کھڑے ہو جائیں تو کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ، آپ اپنا پیسہ لے کر پاکستان آئیں، عوام بھی کمائے اور ملک بھی ترقی کرے ۔ جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ صرف پاکستانی ہی پاکستان میں ’’ بیل آئوٹ‘‘ کے ذریعے معاشی استحکام لا سکتے ہیں، دہشتگردی کی پشت پناہی غیر قانونی کاروبار والے کرتے ہیں جن کے پیچھے مخصوص عناصر ہوتے ہیں۔ آرمی چیف نے مزید کہا کہ پاکستان کی ڈیجیٹل سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی ڈیجیٹل سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ادھر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی کے ایک اہم رکن نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو نصیحت کی کہ وہ خیبر پختونخوا سے احتجاجی ریلیاں پنجاب لانے سے گریز کریں کیونکہ ایسے سیاسی اقدامات سے بین الصوبائی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ ذرائع کے مطابق اجلاس میں علی امین گنڈاپور نے پارٹی مشکلات کا بتاتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان بغیر کسی جرم کے جیل میں قید ہیں ۔ ایک باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پہلے یہ مسئلہ اٹھایا کہ کیسے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ حملے کی طرز پر پشاور سے اسلام آباد تک احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرتے ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ ایسے احتجاج سے جان و مال کا بھی نقصان ہوتا ہے۔واقفان حال کے بقول اجلاس میں مریم نواز کا لب و لہجہ ذرا سخت تھا لیکن گنڈا پور نے عوامی تاثر کے برعکس پر سکون انداز سے جواب دیا تاہم دونوں وزرائے اعلیٰ کے درمیان مزید کوئی بحث نہیں ہوئی ۔ ذرائع کے مطابق اس دوران علی امین گنڈا پور پر سکون تھے اور انہوں نے سخت لب و لہجہ اختیار نہیں کیا کیونکہ وہ وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ذرائع نے نقوی اور گنڈا پور کی قربت کا مشاہدہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں لگ رہا تھا کہ پس پردہ کچھ ہو رہا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات ہے کہ اگر ہمیں اس ملک کو آزاد اور خود مختار ملک بنانا ہے تو خود انحصاری کا راستہ اپنانا پڑے گا۔ جس کے لیے مذاکرات اولین شرط ہیں ۔ اسی میں بلوچستان کی بھلائی ہے، اسی میں پاکستان کی بہتری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلوچستان میں امن امان قائم ہو تا کہ ہم بلوچستان میں چھپے وسائل کام میں لا کر خود انحصاری کی طرف قدم بڑھا سکیں۔

جواب دیں

Back to top button