اسلام آباد پر ایک اور یلغار

روشن لعل
جب حق اقتدار کا فیصلہ تلوار کے زور پر ہوا کرتا تھا، اس دور میں متحدہ ہندوستان کا دارالحکومت دہلی اکثر یلغاروں کی زد میں رہتا تھا۔ حق اقتدار کا فیصلہ تلوار کی بجائے عوام کے ووٹوں سے مشروط ہونے کے باوجود حکمرانی کا ایک خواہشمند اکثر اسلام آباد کی طرف یلغار کرتا پایا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی طرف یلغاروں کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ حق حکمرانی ، عوام کے ووٹوں سے مشروط ہونے کے باوجود جب الیکشن دھاندلی زدہ ہوں تو کسی متاثرہ فریق کی اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کو کیسے غلط قرار دیا جاسکتا ہے ۔ گو کہ اپنی انتخابی شکست کو دھاندلی کا نتیجہ سمجھنے والوں کے احتجاج کے حق سے انکار ممکن نہیں ہے مگر جن لوگوں کا اپنا وجود دھاندلیوں کی پیداوار اور ناجائز سر پرستیوں سے داغدار ہو تو ان کے سامنے یہ سوال رکھنا ہر گز ناجائز نہیں کہ اپنے حریفوں کے ساتھ ہر ناانصافی کو جائز تصور کرنے والے جب صرف اپنی ذات کی حد تک انصاف کے طلب گار ہوں تو ان کی اس خواہش کو کیسے جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ دھاندلیوں کی پیداوار لوگوں کے ماضی کو فراموش کرتے ہوئے کچھ مبصروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں جو کچھ غلط ہوتا رہا اسے درست کرنا تو اب ممکن نہیں لیکن اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ موجودہ غلطیوں کی نشاندہی سے گریز کرتے ہوئے ان کے آئندہ ارتکاب کے امکان کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے۔اپنے اسی موقف کی بنیاد پر وہ اسلام آباد کی طرف ایک مزید یلغار کو جائز سمجھتے ہیں۔
وطن عزیز میں جائز و ناجائز کے زیادہ تر فیصلے انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، اس لیے اسلام آباد کی طرف پی ٹی آئی کی نئی یلغار کو درست یا غلط تصور کرنے کی بجائے اس یلغار کے کامیاب یا ناکام ہونے کے امکان پر غور کرنا زیادہ مناسب ہے۔ اسلام آباد پر عمران خان اور پی ٹی آئی کی یہ پہلی یلغار نہیں ہے۔ قبل ازیں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی اسلام آباد پر کی گئی ہر یلغار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ عمران خان نے پہلی مرتبہ 2013ء کے الیکشنوں کے نتائج پر 35پنکچروں کا الزام لگاتے ہوئے 2014ء میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کے بعد آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہونے تک 126دن پر محیط دھرنا دیا تھا ۔ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ والوں کے ایما پر کیے گئے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دیئے گئے دھرنے کا مقصد نواز حکومت کے غیر آئینی خاتمے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی فراہم کردہ تمام تر سہولتوں کے باوجود اپنا اور اپنی سیاسی پرورش کرنے والوں کا مقصد پورا کرنے میں اس وجہ سے ناکام رہے کیونکہ اسلام آباد کی طرف یلغار کو انہوں نے نام تو ملین مارچ کا دیا لیکن ان کے دھرنے کے شرکا کی تعداد کبھی بھی چند ہزار سے زیادہ نہ ہو سکی۔
دنیا میں کسی ملین مارچ کے ذریعے غیر آئینی طریقے سے حکومتیں ختم کرنے کی جو چند ایک مثالیں موجود ہیں ان میں سب سے بڑی مثال وینزویلا کے مرحوم صدر ہیوگو شاویز کی حکومت گرانے کی ہے۔ 1999ء میں ہیوگو شاویز کی سوشلزم کے نعروں کی بنیاد پر صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ممالک کاوینزویلا کے ساتھ کشیدگی کا آغاز ہوا ۔ اس کشیدگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وینزویلا کی اس وقت کی اپوزیشن پارٹیوں نے 2002 میں امریکی ایما اور کچھ فوجی جرنیلوں کی سہولت کاری سے صدارتی محل کے سامنے لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کر کے ہیوگو شاویز کو صدر کے عہدہ سے سبکدوش ہونے پر مجبور کر دیا۔ وینزویلا کی اپوزیشن پارٹیوں نے لاکھوں لوگوںکے ملین مارچ کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے شاویز کو سبکدوش ہونے پر مجبور تو کردیا لیکن اس سبکدوشی کی عمر 72 گھنٹوں تک محدود رہی۔ ہیوگو شاویز کی سبکدوشی72گھنٹوں کے اندر اس لیے ختم ہو گئی کیونکہ اس کی حکومت کے خاتمے کے لیے اگر دو لاکھ لوگ صدارتی محل کے سامنے اکٹھے ہوئے تھے تو اس کے حق میں دس لاکھ سے بھی زیادہ لوگ وینزویلا کے دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ شاویز کو ہٹانے والے فوجی جرنیلوں کو نہ صرف اسے اس کے عہدے پر بحال کرنا پڑا بلکہ وہ اپنے عہدے چھوڑنے اور مقدمات کا سامنا کرنے پر بھی مجبور ہوئے۔
یہاں ہیوگو شاویز کی مثال بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اگر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکال کر غیر آئینی طور پر حکومتیں گرائی جاسکتی ہیں تو حکومتیں گرانے کے لیے سڑکوں پر لائے گئے لوگوں سے دگنی تعداد میں لوگ اکٹھا کر کے غیر آئینی طریقے سے ختم کی گئی حکومت بحال بھی کرائی جا سکتی ہے۔ عمران خان سال 2014ء سے مختلف مواقع پر صرف دوسروں کی حکومتیں گرانے کے لیے ہی ملین مارچ کی کال نہیں دیتے رہے بلکہ انہوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش ہونے کے بعد اپنی حکومت بچانے کے لیے27مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں لاکھوں لوگ اکٹھا کرنے کی بھی ناکام کوشش بھی کی تھی۔ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لیے 27مارچ کو اسلام آباد میں لاکھوں لوگ جمع کرنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور عدم اعتمادتحریک کی ناکامی کے بعد جب شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو انہیں گرانے کے لیے بھی 25مئی 2022ء کو اسلام آباد میں لاکھوں لوگ جمع کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے آزادی مارچ کی کال دی۔ اس وقت، عدلیہ کی مکمل سہولت کاری کے باوجود عمران خان 25مئی 2022ء کو اسلام آباد میں صرف چند ہزار لوگ ہی جمع کر پائے۔ 25مئی 2022ء سے 9مئی 2023ء تک عمران خان اور شہباز شریف حکومت کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری رہا ۔ اس دوران نہ تو اسٹیبلشمنٹ میں موجود عمران خان اور شہباز شریف کے مختلف حامی اور نہ ہی عدلیہ غیر جانبدارانہ کردار ادا کرتی نظر آئی۔ اپنی گرفتاری یقینی سمجھتے ہوئی عمران خان نے 9مئی 2023ء سے پہلے ہی اس قسم کے بیان داغ دیئے تھے کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکن خاموش رہنے کی بجائے ملک میں جلائو گھیرائو کا بدترین ماحول پیدا کر دیں گے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9مئی 2023ء کو تحریک انصاف کے کارکنوں نے عین اپنے قائد کے بیانوں کے عین مطابق رد عمل ظاہر کیا ۔ جس مقصد کی کامیابی کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ درکار تھے اس مقصد کو جب سیکڑوں لوگوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو حسب سابق 9مئی 2023ء کو بھی ایک بری طرح ناکام مظاہرہ عمران خان کے نامہ اعمال میں درج ہو گیا۔
جو تحریک انصاف عمران خان کی موجود گی میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر مرتبہ لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے میں ناکام رہی اس نے اپنے لیڈر کی غیر موجودگی میں 24نومبر کو اسلام آباد پر مزید ایک یلغار کے لیے لاکھوں لوگ جمع کرنے کی کال دی ہے۔ درپردہ سہولت کاریوں کے باوجود اس یلغار کی کامیابی کے لیے مطلوبہ تعداد میں لوگ اکٹھا کرنا کسی طرح بھی ممکن نظر نہیں آتا۔