سفیر پاکستان کے خطاب میں ننگی فلم

صورتحال
سیدہ عنبرین
اہل وطن کو حکومت پاکستان کا ممنون ہونا چاہئے کہ اس نے اپنے ایک فیصلے سے ہمیں ایک گناہ سے محفوظ کر لیا ہے، یہ اجتماعی گناہ تھا، جس میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں، ان کے ماتحت تمام اداروں سے منسلک اہم افراد، انصاف تقسیم کرنے والے، حساس اور بے حس سبھی شامل تھے، یہ گناہ وی پی این کا استعمال تھا، جو غیر شرعی، یعنی حرام تھا، لیکن لاعلمی نہیں، یہ حرام خوری ہوتی رہی، ضروری ہے اس کردہ گناہ سے توبہ کی جائے، یہ توبہ انفرادی سطح پر تو ہر شخص اپنے گھر میں رہ کر کر سکتا ہے، لیکن یہ گناہ اجتماعی سطح پر کیا جا رہا تھا، لہٰذا اس کی توبہ اجتماعی سطح پر کی جانی چاہئے، اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن آسان ترین یہ ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری توبہ کا اہتمام اسی طرح کیا جائے جس طرح سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹر حضرات کو توبہ کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں ایسے اجلاسوں سے خطاب کیلئے عدلیہ اور حساس اداروں کے نمائندوں کو دعوت دی جاتی رہی ہے، انہیں بھی اس اجلاس میں دعوت دی جائے، تاکہ مرکز اور مرکزی شخصیات توبہ تائب ہو جائیں، تمام صوبے، صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس میں یہ توبہ کریں اور اس اہم موقع پر اپوزیشن جماعتوں کو اسی طرح ساتھ لے کر چلیں جیسے وہ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور متعدد عصرانوں اور ظہرانوں میں جوق در جوق شریک ہو رہے تھے، عوامی توبہ کیلئے اسلام آباد میں کنونشن سینٹر میں ایک عظیم اجتماع کیا جا سکتا ہے، جبکہ صوبائی دارالحکومت میں کھیلوں کیلئے بنائے گئے سٹیڈیم اس کھیل کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں، اس یوم توبہ کا انتظام و انصرام آن لائن بھی کیا جا سکتا ہے اور نیک کام کیلئے وی پی این کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ وی پی این پر بندش کیلئے حاصل کردہ فتوے میں بتایا گیا ہے مجرب الاخلاق سرگرمیوں کیلئے جس ایجاد کا استعمال کیا جائے وہ غیر شرعی و حرام ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک سروے کہتا ہے 24کروڑ عوام سے 2کروڑ افراد ننگی فلمیں دیکھتے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں ایک مسلمان ملک جو کلمے کے نام پر بنا ہے اس کے باسی اگر ننگی فلمیں دیکھتے ہیں تو یہ باعث شرم ہے، بے حیائی کی انتہا ہے۔ اجتماعی توبہ کیلئے اگر وی پی این استعمال کرنے کا فیصلہ ہو جائے اور آن لائن پر اتفاق ہو جائے تو بہت احتیاط کی ضرورت ہو گی، ایسا نہ ہو اس دوران آن لائن کوئی ننگی فلم چل جائے۔ یہ واقعہ ایک اہم سرکاری دفتر میں ہو چکا ہے۔ یہ دفتر امریکہ میں پاکستان کے سفیر کا دفتر یعنی سفارتخانہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ دل خراش واقعہ حکومت پاکستان کے سفیر متعین امریکہ کی ایک زوم میٹنگ کے دوران پیش آیا، جس میں نوجوان خواتین کے علاوہ بزرگ خواتین و حضرات بکثرت موجود تھے۔ ذرائع کیا خبر دیتے ہیں، پس منظر کچھ یوں ہے، جناب مسعود احمد خان ایک نامور سفارتکار ہیں، وہ سابق صدر آزاد کشمیر بھی رہ چکے ہیں۔ فروری کے انتخابات سے قبل وہ امریکہ میں سفیر تھے، ان انتخابات کو امریکی تھنک ٹینک، متعدد ارکان کانگریس نے جھرلو انتخابات سے تعبیر کیا، اس حوالے سے متعدد سیمینار اور کانفرنس ہوئیں، جن میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا گیا، اس حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی نوٹس لیا گیا، یہ سب کچھ ہونے کے بعد جناب مسعود خان صاحب کو واپس بلا لیا گیا کہ وہ اس تاثر کو روکنے میں ناکام رہے، ان کے بعد جناب رضوان سعید شیخ صاحب کو یہ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ ان کے ایما پر طے پایا کہ وہ ایک زوم میٹنگ کے ذریعے امریکی پاکستانیوں سے خطاب کریں گے۔ موضوع تھا پاسپورٹ ویزا اور امریکی امیگریشن کے معاملے میں مشکلات، سوال و جواب کی اجازت بھی تھی، اس کیلئے دو گھنٹے کا وقت مقرر تھا، اہم اور حساس موضوع کے سبب امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس میٹنگ میں شرکت کیلئی جمع تھی، تعارفی گفتگو کے بعد ایک نوجوان خاتون کھڑی ہوئیں، جن کا نام مختلف لوگ مختلف تلفظ سے لے رہے ہیں، ملیکہ صمدانی یا ماہ بقا صمدانی، ان کا نام جو بھی درست ہے، ہم انہیں میڈیم صمدانی کہہ سکتے ہیں، وہ اپنی نشست سے کھڑی ہوئیں، انہوں نے کہا سفیر محترم آپ کا آج کا موضوع تو کچھ اور ہے، لیکن اس بات پر بھی اظہار خیال فرمائیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جھرلو انتخابات کے حوالے سے جو تفصیلات آ رہی ہیں وہ تشویش ناک ہیں۔ سفیر محترم جناب رضوان سعید شیخ اگر موضوع پر رہتے تو بہتر ہوتا، لیکن انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری نبھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، امریکہ اور امریکی نظام کے لَتّے لینے شروع کر دیئے۔ انہوں نے فرمایا امریکہ ہمیں انسانی حقوق کا سبق کیسے دے سکتا ہے، اس کے یہاں کیا ہو رہا ہے، ہمارے انتخابات پر تنقید کرنے والے بتائیں، امریکہ میں انتخابات کے دوران کیا کیا کچھ نہیں ہوتا، کون کون سے ہتھکنڈے استعمال نہیں ہوتے، انہوں نے بتایا آج امریکہ دنیا کا سب سے بڑا قرض دار ہے، وہ کئی سو ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہم ایک خوددار ملک ہیں، اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، 77سال سے سر اٹھا کر جی رہے ہیں، اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے، وہ جوش خطابت میں بڑھتے چلے گئے اور بھول گئے ہم نے آزادی کے 24برس کے اندر آدھا ملک کھو دیا، باقی نصف آج 140ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ پاکستان سے ہر برس درجنوں ارب ڈالر لوٹ کر بیرون ملک لے جائے جا رہے ہیں، ہمارے پاس قرضوں کی سود کی قسط ادا کرنے کے پیسے موجود نہیں، ہم ہر 3ماہ کے بعد کشکول اٹھا کر بھیک مانگنے نکلتے ہیں اور رسوا ہوتے ہیں۔ ہم اپنے قیمتی اثاثے اونے پونے فروخت کر رہے، جن میں ریکوڈیک، پی آئی اے اور سٹیل ملز شامل ہیں۔ ہم نے اپنے ایئر پورٹس تک گروی رکھ دیئے ہیں، یہ ہے ہماری آزادی اور خود مختاری اور ترقی کی داستان۔
جناب رضوان سعید شیخ کا خطاب جاری تھا کہ اچانک اس زوم میٹنگ میں سکرین پر ننگی فلم چلنا شروع ہو گئی، جس پر وہاں موجود خواتین و حضرات کی چیخیں نکل گئیں، انہوں نے اس جانب توجہ دلائی لیکن یہ ننگی فلم چلتی رہی، جس پر زوم میٹنگ میں وقفہ کر دیا گیا، سفارتی عملے نے معاملے کو سنبھالنا چاہا لیکن کچھ بھی ان کے بس میں نہ تھا، اہم سوال یہ ہے کہ تمام انتظام تو سفارتی عملے اور سفارتخانے کا تھا، یہ ننگی فلم کیسے چل گئی۔ اعلیٰ سطح کی تحقیقات اور سزا کا تعین ہونا چاہئے، وی پی این بند اور ننگی فلموں کا راستہ ضرور روکیں، لیکن آغاز امریکہ کے پاکستانی سفارتخانے سے کریں، یہ واقعہ دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کر گیا۔