ٹریک ریکارڈ کس کا اچھا ہے؟

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہمیں مسلم لیگ نون کے رہنما بیرسٹر عقیل ملک کی بات بھلی لگی پرامن احتجاج آئینی حق ہے، پی ٹی آئی پرامن احتجاج کرتی ہے تو اس یہ قانونی حق ہے بلکہ وہ خود اس سلسلے میں ان کی وکالت کریں گے۔ ان کا یہ کہنا بھی ہے پی ٹی آئی کے احتجاج اور جلسوں کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ گو ہمارے ہاں جمہوریت برائے نام سہی جمہوریت میں جلسوں اور احتجاج کی اجازت ہوتی ہے بلکہ یوں کہیے پرامن جلسے اور جلوس جمہوریت کی روح ہوتے ہیں۔ جلسوں میں اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے نعرئے بازی جمہوریت کے منافی نہیں ہوتی۔ جہاں تک عقیل ملک صاحب کی یہ بات جلسوں اور احتجاج بارے پی ٹی آئی کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے تو بصداحترام عرض ہے پی ٹی آئی کو جلسوں کی اجازت دے کر جلسے کے مقام کو بار بار تبدیل کرنا اور عوام کو جلسوں میں شرکت سے روکنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کرنے بارے کیا حکومتی ٹریک ریکارڈ قابل تعریف ہے؟ گویا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ہم ایوبی دور سے سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور احتجاج کو دیکھ رہے ہیں ماضی کی کسی حکومت نے کسی سیاسی جماعت کے جلسوں اور احتجاج کو روکنے کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کئے جس کا شرف مسلم لیگ نون کی حکومت کو حاصل ہوا ہے۔ حکومت کسی جماعت کے جلسوں اور احتجاج کو روک سکتی ہے کسی جماعت کے لیڈر کو عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتی شائد یہی بات حکومت کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں پی ٹی آئی میں بدنظمی اور اس کے رہنمائوں میں رابطوں کے فقدان نے پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ چوبیس نومبر کو عمران خان نے احتجاج کی کال دی ہے پہلے عمران خان نے اعلان کیا تھا ملک کے تمام شہروں میں احتجاج ہوگا لیکن تازہ ترین بیان میں موصوف نے احتجاج کرنے والوں کے لئے وفاقی دارالحکومت منزل قرار دیا ہے۔ ہم بیرسٹر عقیل ملک کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے عمران خان نے ایک سو نوے ملین پائونڈ کے مقدمہ میں سزا کے خدشہ کے پیش نظر احتجاج کی کال دی ہے۔ سوال ہے کیا یہ رقم عمران خان کے ذاتی اکائونٹ میں ہے۔ اب تو سابق چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے حکم سے یہ رقم حکومت کے اکائونٹ میں جمع ہو چکی ہے۔ ٹرائل کورٹ کی حد تک تو کچھ بھی ہو سکتا لہذا اس کیس کے حتمی نتیجہ بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایسے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں جانے کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ بعض موقعوں پر حکومتی وکلاء عدالتوں سے کہہ مقدمات ٹرائل کورٹس کو واپس بھجوا دیتے ہیں۔ بعض حکومتی حاشیہ برداروں نے چوبیس نومبر کی کال کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوبارہ گرفتاری سے منسوب کر دیا ہے۔ چند روز قبل عمران خان نے اعلان کیا تھا چوبیس نومبر کو ملک کے تمام شہروں میں پی ٹی آئی کا احتجاج ہوگا مگر اب انہوں نے یہ اعلان کیا ہے پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے والوں کی منزل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہوگا۔ وزیراعلیٰ گنڈا پور جو اس احتجاجی کارواں کے روح رواں ہیں نے اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو بانی پی ٹی آئی کو اپنی تمام تر توجہ اپنے خلاف مقدمات کی طرف دینی چاہیے تاکہ وہ جلد ختم ہو سکیں۔ پی ٹی آئی احتجاج ضرور کرے البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے جب حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں کسی کو احتجاج کرنے کی اجازت نہ دینے کے سلسلے میں قانون سازی کر دی ہے جس کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے اسلام آباد میں جلوس اور دھرنوں کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ اصولی اور اخلاقی طور پر حکومت کو پی ٹی آئی کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کی اجازت دینی چاہیے اور پی ٹی آئی رہنمائوں کو اپنے ورکرز کو ہدایات دینی چاہیں وہ احتجاج کی آڑ میں کسی قسم کی تور پھوڑ سے قلی طور پر گریز کریں۔ بدقسمتی سے ملک کی سب سے بڑی جماعت اپوزیشن میں ہے جب کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں پی ٹی آئی کے اس احتجاج میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔ جے یو آئی کو دیکھ لیں ایک طرف مولانا صاحب اپوزیشن میں رہنے کے دعویٰ دار ہیں دوسری طرف وہ پی ٹی آئی کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے کو تیار نہیں جو ان کی دوغلی پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جے یو آئی کے امیر کچھ بھی کہیں لیں ایک بات طے شدہ ہے عمران خان کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد انہوں نے اسے اقتدار سے ہٹانے کے لئے جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اس بات کا حوالہ میرے دوست ممتاز صحافی جناب نواز رضا نے اپنی کتاب میں خاص طور پر حوالہ دیا ہے۔ دراصل پاکستان کی سیاست منافقت سے بھری پڑی ہے کوئی سیاسی رہنما کسی دوسرے سے مخلص نہیں سبھی کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ عوام کو سیاست دانوں نے بیوقوف بنا رکھا ہے بدقسمتی سے یہی حال ہماری صحافت کا ہے صحافیوں کی لابیاں بنی ہوئی ہیں ہر کسی کا ذاتی مفاد کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ تو طاقت ور حلقوں کے پرورودا ہیں اور کچھ سیاست دانوں کے آلہ کار ہیں۔ جناب مجید نظامی ، شورش کاشمیری اور نثار عثمانی جیسے صحافی ناپید ہیں۔ کالم نگاروں کی بات کریں تو اخبارات کے مالکان کی خواہش پر اپنی اپنی آراء دیتے ہیں۔ عدلیہ الگ منقسم ہو چکی ہے آئینی ترمیم کے بعد جو کسر باقی تھی پوری ہو گئی ہے ملک میں حصول انصاف محال ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دینے والوں نے ووٹ کو بے توقیر کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ غریب عوام کو سیاسی جماعتوں سے کسی قسم کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ پی ٹی آئی نے چوبیس نومبر کا احتجاج کی کال دے رکھی ہے اسلام آباد اور گردونواح میں کنٹنیر کا میلہ لگنا شروع ہو چکا ہے۔ ہم حق تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں پیارے وطن میں امن و امان رہے اور سیاسی جماعتیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آئین و قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد جاری رکھیں۔