محمد خان جونیجو کو چلتا کر دیا ( حصہ دوم)

کالم تماش گاہ
تحریر ۔ علی حسن
جنرل ضیاء الحق نے اپنے ہی نامزد کردہ وزیر آعظم کو لمبی چوڑی چارج شیٹ مرتب کر کے چلتا کر دیا۔ انہوں وزیر اعظم جو رخصت کرنے سے قبل جو تقریر کی اس کا دوسرا حصہ درج زیل ہے۔
سیاسی سرگرمیوں کی آزادی: صدر ضیا الحق نے پیر کو قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ قومی اسمبلی اور کابینہ توڑے جانے اور جناب محمد خان جونیجو کے سرکاری ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کی کارروائی جمہوری و سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اس میں اچنبھے یا حیرت و ہراس میں مبتلا ہونے کی کوئی بات نہیں کیونکہ نہ تو مارشل لاء لگایا گیا ہے، نہ ایمرجنسی اخذ کی گئی ہے اور نہ ہی آئین کو معطل یا منسوخ کیا گیا ہے بلکہ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے سیاسی پارٹیوں یا سیاسی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں، پریس حسب معمول آزاد ہے، عدلیہ اور انتظامیہ معمول کے مطابق فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔
قصہ قرضوں کا: صدر ضیا الحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ تین سوا تین برسوں میں عوام کے نمائندوں کی قیادت میں ملکی معاشی حالت کو خوب پہنچنا چاہئے تھا لیکن یہ بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ منتخب حکومت نے اپنے ذرائع پر انحصار کرنے کی بجائے سب کچھ ادھار پر چلایا۔ اندرونی ذرائع سے ادھار، بیرونی ذرائع سے ادھار ، ترقیاتی کاموں کے لئے ادھار اور خسارہ جاریہ پورا کرنے کے لئے بھی ادھار لیا گیا۔ صدر ضیا الحق نے اس موقع پر غالب کا یہ شعر بھی پڑھا۔
قرض کی پیتے تھے ے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ صورتحال اس حقیقت کے باوجود ہوئی کہ ان دو تین برسوں میں اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم شامل حال رہا فصلیں اچھی ہوئی ہیں لیکن غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک اقتصادی بحران میں داخل ہو چکا ہے۔
رشوت کا زور رہا: صدر ضیا نے اپنی تقریر میں سابق کابینہ کے حوالے سے کہا میں نے 5جولائی 1977ء کو اپنی پہلی نشری تقریر میں اس وقت کی سیاسی و انتظامی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد مارشل لا کے مقاصد بیان کرتے ہوئے دو باتوں یعنی اسلام اور جمہوریت پر زور دیا تھا۔ صدر ضیا الحق نے قوم خطاب کے دوران کہا کہ اس کے بعد سے میری ترجیحات میں سرفہرست نفاذ اسلام اور جمہوریت ہی رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سالہ تاریخ میں نفاذ اسلام کے لئے جتنا کام ہوا مارشل لا کے آٹھ برسوں میں ہوا۔ گزشتہ مارشل لا حکومت نے بحالی جمہوریت کے لئے جو اقدامات کئے اور جس رضا کارانہ طریقہ سے انتخابات کروا کر از خود تمام اختیارات منتخب حکومت کے سپرد کر دیئے اس کی مثال پاکستان تو کیا تیسری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی لیکن ہمارے ان اقدامات کا قوم کو کیا پھل ملا ؟ ملک میں سیاست بحال ہوئی لیکن قدرے کمزور کچھ منفی سیاست ایک جمہوری حکومت معرض وجود میں آئی اور سوا تین سال تک برسراقتدار رہی لیکن تمام تر اختیارات کے باوجود غیر موثر رہی۔ اس حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی غیر جماعتی ایوان کو جماعتی ایوان میں بدل دیا اور پھر یہی جماعت اور حمایتی حکومت کے لئے وبال جان بن گئے اور جناب وزیر اعظم کو ان خواتین و حضرات کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑے کسی کو پلاٹ اور پرمٹ دیئے کسی کو مالی اور سیاسی رشوت کسی کو اقربا نوازی کی چھٹی دی اور یوں بد عنوانیوں کی مثال تو اعلیٰ سیاسی سلح سے شروع ہوئی۔ صدر نے کہا ایسی صورت میں نچلی سطح پر لوگوں کو رشوت اور بدعنوانی سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور میں آپ اور ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ ترقیاتی کاموں کے لئے ہر رکن اسمبلی کو قومی خزانہ سے خطیر رقم دی گئی اور ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئی صدر نی کہا کہ رشوت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے لیکن اسے جو فروغ گزشتہ تین سوا تین برسوں میں حاصل ہوا پہلے کبھی حاصل نہیں ہوا تھا اب تو ہر سیاسی اہلکار اور بد دیانت سرکاری عہدیدار کھلے عام ہاتھ پھیلا کر اور منہ پھاڑ کر کہنے لگا تھا کہ کام کروانا ہے تو اتنی رقم دے دو ورنہ اپنی راہ لو۔ یہ رقم کہاں سے آتی تھی اور کہاں جاتی تھی یہ کوئی راز نہیں۔ کسی بھی متاثرہ شخص کا دل ٹول کر دیکھ لیجئے آپ کو آہوں اور آنسوں کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔
میں منت سماجت کرتا رہا: صدر ضیا الحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں گزشتہ تین سوا تین برس تک قومی امور سے متعلق آواز اٹھاتا رہا ہوں کہیں منت سماجت کرتا رہا، کہیں انتباہ کی گھنٹیاں بجاتا رہا، کہیں در پردہ ارباب اختیارات کی سماعت پر بوجھ بنتا رہا اور کہیں سرعام ایوان اقتدار میں چیختا چلاتا رہا لیکن میری آواز پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اصلاح احوال کے لئے کچھ نہ کیا کیا۔ اب میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ خاموش تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہوں اور کوئی اقدام نہ اٹھائوں دوسرا یہ کہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے مناسب کارروائی کروں ۔ اگر کے ابتر حالات مجھے آئین سے ہٹ کر کوئی اقدام کرنے پر مجبور کر سکتے تھے تو آج میں رائج الوقت آئین کے مطابق بہت کچھ کر سکتا ہوں اور آئین کے آرٹیکل کی شق کی ذیلی شق ( ب) کہتی ہے کہ صدر مملکت اگر محسوس کرے کہ اس کی رائے میں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جس میں وفاق کی حکومت دستوری احکام کے مطابق چلائی نہیں جا سکتی اور انتخاب کنندگان سے فیصلہ چاہنا ضروری ہو گیا ہے تو اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کو توڑ سکتا ہے لہذا میں نے ملکی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ میرے رائے میں آئین کی مذکورہ شق میں بیان کی گئی صورت حال ملک میں پیدا ہو چکی ہے لہذا اتوار کو میں نے اپنے اس آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کو توڑ دیا ۔
سندھ میں ہنگاموں کی ذمہ داری: صدر نے اپنی تقریر میں ملکی انتظامی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سارے ملک خاص طور پر کراچی میں جتنا خون خرابہ گزشتہ تین برسوں میں ہوا ہے پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ جمہوری حکومت تو زخموں پر مرہم رکھتی ہے لیکن اس جمہوری حکومت نے زخموں کے منہ کھول دیئے ۔ سنا ہے کہ جمہوری حکومت بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑتی ہے اور ملک میں اتحاد و یک جہتی کو فروغ دیتی ہے لیکن اس جمہوری تجربہ نے تو ملک کو لسانی، علاقائی، نسلی اور طبقاتی آویزش میں یوں مبتلا کر دیا کہ کسی شہری کی جان مال یا عزت محفوظ نہ رہی۔ سندھ سے جمہوری حکومت کا سربراہ لینے کی خاص وجوہات تھیں اور ان کی قیادت سے بہتر نتائج کی توقعات تھیں لیکن سندھ علیحدگی پسند تحریکوں اور سندھ قومیت کا اکھاڑہ بن گیا۔ رشوت کا بازار گرم رہا اور ڈاکوئوں قاتلوں اور اغوا کرنے والوں کے نرغہ میں پھنسے ہوئے عوام ساری ساری رات جاگ کر گزارتے اور کسی بھی لمحہ کسی بھی ناگہانی آفت کا شکار ہونے کے خوف سے کانپتے۔
کچھ نئے اقدامات کا اعلان: اسمبلی توڑنے کے بعد جنرل ضیا نے کچھ نئے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب تک عام انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل نہیں پا جاتی اس وقت تک ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے نگراں حکومت قائم کی جائے گی جس کا اعلان چند روز میں کر دیا جائے گا۔ نرمی کا ماضی میں غلط مطلب لیا گیا، آئندہ مجرموں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اپنے خطاب کے دوران صدر ضیا الحق نے ان ترجیحات کا بھی اعلان کیا جن پر حکومت فوری توجہ دے گی۔ ترجیحات یہ ہیں نفاذ اسلام کے عمل کو از سر نو تازہ کیا جائے گا اس مقصد کے لئے نئے اقدامات کئے جائیں گے۔ نمبر ستا، آسان اور فوری انصاف فراہم کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے گی اور امن عامہ کی حالت بہتر بنا کر عوام میں جان و مال کے تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے گا۔ نمبر ملک کی اقتصادی حالت بہتر بنا کر اسے موجودہ نیم دیوالیہ کیفیت سے نکالا جائے گا۔ ان ترجیحات کے مطابق ان شاء اللہ جلد عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ عام انتخابات آئین کے مطابق مقررہ مدت میں ہوں گے۔ صدر نے کہا کہ پیر کی صبح ہی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی ہے جس کے دوران ان سے کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ہم نے جو قدم اٹھایا ہے وہ اس کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ضروری اقدامات شروع کر دیں۔
جب تک اگلی منتخب اسمبلی وجود میں نہیں آجاتی میں نے آئین کے تقاضوں کے مطابق ایک نگراں کابینہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی و صوبائی وزارتیں محدود وقت کے لئے ختم ہوئی ہیں، کیونکہ آئین کی جس شق کے تحت میں نے اتوار کو جو اقدام کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ مقررہ مدت میں تازہ انتخابات کرا کر نئی اسمبلیاں تشکیل دی جاسکیں۔
ان ترجیحات پر عمل درآمد کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں گے۔ وہ عنقریب اسلامی نظریاتی کونسل اور سینٹ کے ان ارکان سے ملاقات کریں گے جنہیں نفاذ اسلام سے گہری دلچسپی ہے ۔ صدر نے کہا کہ اسلام سے میری لگن اور نفاذ اسلام کے لئے تڑپ کسی تعارف کی محتاج نہیں، اس کے لئے عوام کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ امن و امان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ اگرچہ میں نرمی، شفقت اور ہمدردی کا قائل ہوں لیکن میں یہ بھی محسوب کرتا ہوں کہ بعض اوقات گھی صرف ٹیڑھی انگلی سے ہی نکالا جا سکتا ہے ۔ جب تک قصور وار کو قصور کی سزا نہ دی جائے، غنڈے کو بد معاشی کا مزہ نہ چکھایا جائے، قاتل کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جائے، سماج دشمن عناصر کو پکڑ کر کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے معاشرہ سدھر نہیں سکتا۔ ماضی میں میں نے نرمی دکھائی ، چشم پوشی کی مگر اب نئے دور میں سختی کے وقت سختی ہوگی۔ مجرموں سے ان کے جرم کے مطابق سلوک ہو گا۔ قصور وار کو انصاف کے تقاضوں کے تحت سزا دی جائے گی۔ صدر ضیا الحق نے کہا کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں سے توقع کریں گے کہ وہ فوری سماعت کرنے والی عدالتیں بڑی تعداد میں قائم کریں۔ قاضی عدالتوں کے جلد قیام کا بندوبست کریں تاکہ ملک کے اندر امن عامہ کی صورت حال کو جلد از جلد قابو میں کیا جا سکے اور عوام کے جان و مال کو تحفظ دیا جا سکے ۔ صدر ضیا الحق نے اپنے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ ضروری وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ جمہوری حکومت کی ناکامی جمہوری نظام کی ناکامی نہیں ہے۔ یہ ایک فرد یا چند افراد کی ناکامی تو ہو سکتی ہے ایک سسٹم کی ناکامی نہیں بلکہ اس سسٹم کی کامیابی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک وقتی الجھن کو سیاسی، جمہوری اور آئینی دائرہ میں رہتے ہوئے حل کر رہے ہیں۔ میں اہل وطن کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا مقصد وہی ہے یعنی اسلامی جمہوری نظام، ہماری منزل وہی ہے یعنی منتخب اداروں اور منتخب حکومت کا قیام ہمارا مشن وہی ہے یعنی نفاذ اسلام، ہمارا راستہ وہی ہے یعنی انتخابات، ہماری قوت کا سرچشمہ وہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور عوام کی بھر پور تائید ۔
کل تو کچھ ہوا وہ راستے کی چٹان نہیں بلکہ ادنی سی کھائی ہے۔ ہم ان شا ئاللہ اسے ایک جست میں پار کر لیں گے۔ میں اس وقتی دھند کے باوجود کھائی کے اس پار پاکستان کی لئے ایک روشن، خوبصورت اور تابناک مستقبل دیکھ رہا ہوں ۔ ایک ایسا مستقبل جو اسلام اور جمہوریت کی دہری قندیلوں سے منور ہے ۔
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی ہے ایک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نوید جس کی اس کا مشتاق ہے زمانہ
نفاذ اسلام سے عدم دلچسپی: صدر ضیا الحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ تین سوا تین برسوں میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ نفاذ اسلام کے کام کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ نئے اقدامات تو در کنار پہلے سے کئے گئے اقدامات کو بھی سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔ نظام صلوٰۃ کو تو عملا ختم ہی کر دیا گیا۔ نظام زکوٰۃ و عشر میں کئی خامیاں پیدا ہو گئیں۔ قاضی کورٹس کا پوری طرح تیار کردہ نظام کو نظر انداز کر دیا گیا اور خدا خدا کر کے وہ شریعت بل نواں ترمیمی بل جسے سینٹ نے ایک دن میں پاس کر دیا تھا۔ قومی اسمبلی میں آخری وقت تک پڑا رہا۔ سیاسی مصلحتیں، سیاسی مفادات اور سیاسی ترجیحات ہر اچھے کام کو نگل گئیں۔
میں نے کئی مرتبہ عزت مآب وزیراعظم سے ملاقاتوں میں اور پھر برملا پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی لیکن کچھ نہ ہوا۔ کبھی میری گزارشات کو ایک آئینی سربراہ مملکت کی بے اثر آواز سمجھ کر رد کر دیا گیا اور کبھی میرے خطاب کو قائد حزب اختلاف کا خطاب قرار دیا گیا لیکن عمل میری کسی بات پر نہیں کیا گیا۔