Ali HassanColumn

محمد خان جونیجو کو چلتا کر دیا گیا

تحریر ۔ علی حسن

صدر مملکت جنرل ضیا الحق نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑ دی۔ اس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے۔ تاہم پارلیمینٹ کا ایوان بالا( سینیٹ ) برقرار رہے گا۔ صدر ضیا الحق نے کہا کہ ملک میں جمہوری عمل جاری رہے گا اس مقصد کے لئے پاکستان میں نگراں حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا سربراہ عوام کا منتخب نمائندہ ہو گا۔ سابقہ قومی اسمبلی کے رکن کے علاوہ سینیٹ کے کسی رکن کو بھی ملک کا نگراں وزیر اعظم مقرر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا آئین برقرار ہے، موجودہ پروگرام کے مطابق الیکشن پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کے لئے انتخابات سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر ہوں گے۔ یہ انتخابات چیف کمشنر آف پاکستان کرائیں گے، جنہیں اس سلسلے میں بہت جلد خصوصی ہدایات دی جارہی ہیں۔ صدارتی فرمان میں چونکہ قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ بھی توڑنے کا ذکر تھا، اس لئے صدر سے پوچھا گیا کہ محمد خان جونیجو کیا ان کے فرمان کے بعد ملک کے وزیر اعظم نہیں ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ بالکل صحیح کہا آپ نے۔ جناب جونیجو اس وقت کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہے۔ جب ان سے ضمنی استفسار کیا گیا کہ آیا انہوں نے قومی اسمبلی توڑنے اور اس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ ختم ہونے کے فیصلے سے محمد خان جونیجو کو پیشگی بتا دیا ہے تو صدر ضیا الحق نے کہا کہ نہیں، وہ اس پریس کانفرنس کے بعد جناب محمد خان جونیجو کو خود اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے جارہے ہیں۔ صدر ضیا الحق نے کہا کہ نئی نگراں حکومت عام انتخابات کے علاوہ پاکستانی عوام کو عدل و انصاف حقیقی معنوں میں مہیا کرے گی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سنبھالے گی۔
’’ میرے دو اہم کام ہوں گے، نفاذ اسلام کے عمل کو تیز کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنا۔ صدر نے کہا کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل نمبر کی شق ( ب) کے تحت اپنے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا سول حکمرانی ختم ہو گئی ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک سویلین ہوں اور میں نے یہ قدم آئین کے مطابق اٹھایا ہے۔ اس سوال کے جواب میں آیا نئے انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوں گے یا غیر جماعتی بنیاد پر صدر ضیا الحق نے کہا کہ ابھی تک فیصلہ یہی ہے کہ آئندہ انتخابات جماعتی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ صدر مملکت نے اپنی اس اقدام کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام لانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی ہے۔ صدارتی فرمان میں کہا گیا ہے کہ عوام کی جان و مال محفوظ نہیں اور ملکی سلامتی و یک جہتی خطرے میں ہے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ وہ اور قوم اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ سول حکومت نفاذ اسلام کے کام کو تیز کرے گی لیکن میں نے دیکھا کہ نظریاتی بنیاد نظر انداز کی جارہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انہوں نے انتخاب کرائے اور عوام کو توقع تھی کہ نفاذ اسلام کے کام میں پیش رفت ہو گی۔ جمہوریت کی جانب بھی کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں صرف زبانی باتیں کی گئیں، کئی سیاسی مجبوریاں تھیں اور کسی نے ان کے سوا اور کوئی بات نہیں سوچی۔ میں نے وزیر اعظم سے بار بار اس بارے میں بات کی۔ انتخاب کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہوا ۔ چنانچہ آئین کے مطابق مجھے بعض فیصلے کرنے پڑے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ انتخابات کا مقصد پورا نہیں ہوا ۔ میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑ رہا تھا کیونکہ میں نے ریفرنڈم کرایا تھا تا کہ نفاذ اسلام کا عمل جاری رہے اور تیز تر ہو، میں یہ کام کرنا چاہتا تھا لیکن میں اپنا وعدہ پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب نفاذ اسلام کے عمل کو تیز تر کیا جائے گا۔ انصاف قائم کیا جائے گا اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو یقینی بنایا جائے گا۔ میں سابق سول حکومت کی کامیابی چاہتا تھا لیکن یہ کامیابی نہ ہوئی، ابھی تک کے فیصلے کے مطابق نئے انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوں گے۔ یہ ہماری کوشش ہوگی کہ آئندہ عام انتخابات میں عوام اچھے لوگوں کو منتخب کریں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اقدام قوم کو جمہوریت کی جانب لے جائے گا۔ اگرچہ یہ ضروری ہے کہ استحکام کے لئے سیاسی اقدامات کئے جائیں لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ یہ سیاسی اقدام قوم کو کہاں لے جاتے ہیں۔ اسی لئے آئین میں مذکورہ شق رکھی گئی تھی کہ اگر وزیر اعظم کو یقین ہو کہ ایسی صورت حال ہو گئی ہے تو وہ قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کے لئے کہیں۔ تاہم اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو صدر مملکت خود قومی اسمبلی توڑ کر اپنی صوابدید کے مطابق انتخابات کروا سکتا ہے۔ میں پیر کو قوم سے خطاب کے دوران عوام کے سامنے ان وجوہات کو پیش کروں گا جن کا میں گزشتہ کئی مہینوں سے جائزہ لیتا رہا ہوں اور جن کے بارے میں، میں نے پارلیمینٹ میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ جمہوریت کے عمل کا حصہ ہے نئے انتخابات تک آئین نافذ رہے گا۔ اور نئی قومی اسمبلی کے قیام تک میں آئین کی تمام ضروریات پوری کرتا رہوں گا۔ میری دلی خواہش ہے کہ ملک میں اسلامی اقدار فروغ پائیں لیکن قومی اسمبلی ایسا نہ کر سکی۔ یہ میرے لئے تشویش کا معاملہ تھا۔ میں پیر کو جس نگراں حکومت کا اعلان کروں گا وہ سویلین ہو گی۔ یہ ایک اہم قدم ہے جو پاکستان کو حقیقی جمہوریت کی جانب لے جائے گا جو قومی اسمبلی توڑی گئی ہے وہ جمہوریت اور نفاذ اسلام کے بارے میں عوام کی توقعات پوری نہیں کر سکی۔ جمہوری عمل میں انتخابات اچھے اور برے کی تمیز کا کام کرتے ہیں۔ میری حکومت نے پاکستان کا رخ اسلامی اقدار کی جانب کیا لیکن یہ تمام مراحل ایک رات میں طے نہیں کئے جاسکتے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ میں نے گزشتہ تین سال میں قومی اسمبلی سے متعدد بار کہا کہ معاشرے کو اسلامی بنانے کے اقدامات کری لیکن اس ضمن میں کچھ مجبوریاں تھیں۔ میں وہ تمام اقدامات کرنے کی کوشش کروں گا جو فوری طور پر کئے جاسکیں۔ عوام کو مناسب وقت پر اپنے نمائندے از سر نو منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ حکومت اسلامی نظام کے نفاذ، انصاف اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کام کرے گی۔ اب تک جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے مطابق انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ عوام اچھے نمائندے منتخب کریں۔۔۔۔۔ نگراں حکومت کا سربراہ یا تو رکن سینیٹ ہو گا یا اس سے باہر کا کوئی شخص ‘‘۔ ( جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button