حکومت مخالف تحریک

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
وزیراعلیٰ گنڈا پور نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک بانی پی ٹی آئی کی کال سے مشروط کر دی۔ جمہوری ادوار میں اپوزیشن جماعتوں کے جلسے اور جلوس جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ جمہوریت کیسی جس میں حکومت کے خلاف اپوزیشن جلسے اور جلوس نہ کرے بشرطیکہ ایسے جلسے اور جلوس قانون کے دائرے میں ہوں۔ عمران خان نے مارچ کی کال خود دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی مشیر رانا ثناء اللہ کا دعویٰ ہے عوام عمران خان کی کال پر باہر نہیں نکلیں گے ۔ سوال ہے حکومت پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی البتہ رانا ثناء اللہ عوام کو سڑکوں پر آنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال کر دیکھ لیں تو حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کی غلط فہمی دور ہو سکتی ہے ۔ موجودہ حکومت کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا اور مبینہ طور پر فارم 47میں ردوبدل کیا گیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے الیکشن منصفانہ ہوتے تو پی ٹی آئی ایک بار پھر اقتدار میں آجاتی ۔ پی ٹی آئی کے بانی اور ورکرز کے خلاف مقدمات کی بھرمار کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود عمران خان کی مقبولیت میں کمی نہ ہونا اس امر کی واضح دلیل ہے خان نے عوام کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے۔ صوابی میں پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا صوبے میں اس کی اپنی حکومت تھی۔ سوال ہے کیا پی ٹی آئی اسی جوش و جذبے سے ملک کے دیگر صوبوں میں جلسے ا مارچ کر سکے گی ۔ ہمارے خیال میں ابھی تک یہ طے نہیں پایا ہے پی ٹی آئی کا مارچ وفاقی دارالحکومت کی طرف ہو گا یا کسی اور جانب۔ جہاں تک عوام کو سڑکوں پر لانے کی بات ہے جس طرح کے پی کے سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور عوام کو لانے میں کامیاب ہوتے ہیں دیگر صوبوں سے پی ٹی آئی رہنما عوام کو سڑکوں پر لا سکیں گے؟ ۔ یہ اور بات ہے پنجاب میں پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت ملے تو عوام جوق در جوق چلے آئیں گے۔ سوال ہے جس جوش و جذبے سے کے پی کے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام سڑکوں پر آسکیں گے؟۔ سانحہ نو مئی کے مقدمات میں پی ٹی آئی کی خواتین اور مرد جیلوں میں ہیں جن کے خلاف نہ مقدمات کی سماعت شروع ہوئی نہ ہی پی ٹی آئی کی طرف سے انہیں کسی قسم کی قانونی امداد کے لئے ٹھوس اقدامات کئے گے ہیں۔ کئی عشرے پہلے کے سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کتنی پاپولر تھی ۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا اور بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا تو بھٹو کی پھانسی تک حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی نے نہ کوئی جلسہ کیا نہ ہی لوگ سڑکوں پر لاسکی ۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا ملک کی پاپولر جماعت کے لیڈر کو پھانسی دے دی گئی پیپلز پارٹی عوام کو سڑکوں پر نہیں لا سکی۔ اگرچہ عمران خان کی مقبولیت ذوالفقار علی بھٹو سے کم نہیں تاہم عمران خان کو پیپلز پارٹی اور اس کے قائد کی مقبولیت کا حشر سامنے رکھنا چاہیے ۔ یہ بھی حقیقت ہے پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی ایسی بڑی جماعت نہیں جو حکومت مخالف تحریک میں پی ٹی آئی کی شریک سفر ہو سکے۔ پی ٹی آئی نے جے یو آئی سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں جے یو آئی حکومت مخالف تحریک میں کسی صورت پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دے گی۔ عوام نے اپوزیشن جماعتوں کی تحفظ آئین کی تحریک کا حشر دیکھ لیا ماسوائے بلوچستان کے کسی صوبے میں اپوزیشن اس ضمن میں جلسہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ تاریخ شائد ہے اپوزیشن جماعتوں کی کوئی تحریک طاقت ور حلقوں کی حمایت کے بغیر نہ چلائی جا سکی نہ ہی کامیابی سے ہمکنار ہو ئی ہے۔ جنرل مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو نواز شریف کو سعودی عرب بھیجا گیا تو مسلم لیگ نون کی طرف سے کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے وفاقی دارالحکومت میں طویل دھرنا دیا تو بھی انہیں اداروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ورنہ کوئی جماعت کسی شہر میں اتنا طویل دھرنا دینے کا سوچ نہیں سکتی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے شہباز شریف تک جیتنے وزراء اعظم آئے ان کا اقتدار طاقتور حلقوں کی مرہون منت تھا ورنہ اپنے طور پر کوئی جماعت یا اس کا کوئی لیڈر اقتدار میں آنے کا سوچ نہیں سکتا۔ بلاشبہ عمران خان کے غلامی سے نکلنے کے بیانیے نے بہت شہرت پائی لیکن عمران خان کو ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول ترین لیڈر کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ مشہور فقرہ ہمیں یاد ہے اگر مجھے کچھ ہوا تو ہمالیہ بھی روئے گا۔ پاکستان کے عوام نے اپنے مقبول ترین سیاسی رہنما کو پھانسی لگتا دیکھ کر نہ کوئی جلسہ کیا نہ وہ سڑکوں پر نکلے۔ سیاسی رہنمائوں نے عوام کو ہر دور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ کسی معاشرے میں انقلاب ایسے ہی لائے جاتے اس کے لئے قوم کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ایران کے حضرت آیت اللہ خمینی نے ملک سے 29برس جلاوطن رہ کر ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ لاکھوں ایرانی عوام ایئرپورٹ کے اندر سے ان کی گاڑی کو ہوائی اڈے سے باہر لے آئے جس کے بعد خمینی نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جس میں دور شنہشایت کی تمام خرابیوں کا ایک مرتبہ قلع قمع کر دیا۔ وزراء کو چوراہوں پر پھانسی پر لٹکا کر ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جو مسلمانوں کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ آیت اللہ خمینی نے وطن سے دور رہ کر اپنی تقاریر کی کیسٹوں سے ایسا انقلاب برپا کیا جس کی کم کم مثالیں ملتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کے عوام ایک جبر کے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں تبدیلی کے لئے انہیں حضرت آیت اللہ خمینی کے روشن انقلاب کی مثال سامنے رکھتے ہوئے غلامی سے آزادی کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ جیسے بانی پی ٹی آئی جیل سے رہائی کے لئے کوئی ڈیل کرنے سے انکاری ہے اسی طرح عوام کو غلامی کے طوق سے آزاد ہونے کے لئے نکلنا ہوگا۔