ColumnRoshan Lal

اب سموگ کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا؟

تحریر : روشن لعل
گزشتہ ہفتے، سموگ پر لکھے گئے کالم پر ایک دوست نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا ’’ اس آفت کے خاتمے کی خواہش رکھ کر کچھ لکھنے سے بہتر ہے کہ لوگوں کو اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے طریقے اسی طرح بتائے جائیں جس طرح کرونا سے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا گیا تھا‘‘۔ اس دوست کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2017ء کے بعد جس طرح ہر برس سموگ میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے بعد لوگوں کو یہ سچ بتانا ضروری ہے کہ سموگ کا خاتمہ حکومت کے بس کی بات نہیں، لہذا اب انہیں خود کو سموگ کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے تیار کر لینا چاہیے۔ سموگ کے متعلق کہی گئی دوست کی باتیں صائب محسوس ہونے کے باوجود اس سے متفق ہونے کو دل نہ چاہا، لہذا اسے یہ جواب دیا کہ سموگ کے خاتمے کا امکان اب بھی موجود ہے اس لیے عوام میں ناامیدی پیدا کرنے کی بجائے انہیں یہ کہنا چاہیے کہ وہ نہ صرف سموگ کے خاتمے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالیں بلکہ سموگ کا باعث بننے والی اپنی بد عملیوں کو بھی ترک کریں۔ اس کے بعد یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ دو ہفتے کے دوران نہ صرف حکومت نے سموگ کے تدارک کے نام پر رسمی کارروائیاں کیں بلکہ عوام بھی سموگ کا باعث بننے والے عوامل ترک کرنے سے گریزاں نظر آئے تو خیال آیا کہ حکومتوں سے سموگ کے خاتمے کی امید رکھنے کی بجائے لوگوں کو یہ باور کرانا زیادہ ضروری ہے کہ سموگ کیا ہے اور اس کا زہر ان کی صحت کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے۔
سموگ کا زہر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سرد موسم میں ہائیڈروکاربن اور نائٹروجن جیسے نامیاتی و غیر نامیاتی اجزا، تیزابی بخارات، اڑتی ہوئی راکھ اور پتھر اور ریت کے باریک ذرات کا مرکب سورج کی روشنی کے ساتھ کیمیائی عمل کرتا ہے۔ اس کیمیائی عمل پذیری کی وجہ سے ہوا میں معمول کی گیسوں کے ساتھ ساتھ زہریلے مواد کی بھی بھرمار ہوجاتی ہے۔ زمین کی سطح کے قریب موجود یہ زہریلا مواد نہ صرف انسانی جسم کے اندرونی بلکہ بیرونی حصوں پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔ سموگ پیدا ہونے کی بنیادی وجہ صنعتوں سے خارج ہونے والی گیسیںاور دھواں، کاروں اور دیگر گاڑیوں کا دھواں، کھلی فضا میں جلائی جانے والی اشیا اور ناکارہ اشیا کو جلانے کے لیے بنائے گئے بڑے بڑے بٹھے اور بٹھیاں ہیں۔ جلنے کے عمل کے دوران مختلف مقامات سے خارج ہونے والا دھواں، گیسیں اور کچھ دیگر اجزا ، سرد موسم میں آبی بخارات سے مل کر ایسا دھندلا پن پیدا کر دیتے ہیںکہ جس سے فضا میں تاحد نظر کہر سی دکھائی دینے لگتی ہے۔
سموگ کی آفت کی وجہ سے انسانی صحت پر عارضی سے طویل عرصہ تک برقرار رہنے والے کئی قسم کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سموگ کے ماحول میں وقت گزارنے کی وجہ سے کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور سینے میں جکڑن جیسی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ کیفیت سموگ میں سانس لینے کے دوران کچھ وقت کے لیے بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر ہوا میں سموگ کے زہریلے مواد کی مقدار بہت زیادہ ہو تو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات طویل عرصہ تک بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔ سموگ کے باعث خاص طور پر چھوٹے بچے آنکھ، ناک ، گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ دمے کے مریضوں کے لیے سموگ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سموگ سے بچائو کا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ چار دیواری سے باہر کی سرگرمیوں کو ترک کر دیا جائے مگر سموگ سے نمٹنے کے اس مجوزہ حل کو قابل عمل نہیں سمجھا جاتا۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کا پھیلائو اس وقت صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں کا بھی انتہائی گھمبیر مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے لاہور سمیت پنجاب کے کچھ دیگر بڑے شہروں میں بھی سموگ ظہور پذیر ہو چکا ہے ۔ ان شہروں میں سموگ کے پھیلائو کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ شہری بھی آلودگی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ اگر حکومتوں اور عوام کی یہ غیر سنجیدگی اسی طرح برقرار رہی تو آئندہ آلودگی اور سموگ کے سبب پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں سے تحفظ ممکن نہیں رہے گا۔
یہ بات کوئی راز نہیں کہ عام دنوں میں بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست رہنے والے لاہور میں 2017ء کے بعد سے اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں سموگ انتہائی خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے ۔ پنجاب میں حکومت چاہے جس بھی پارٹی کی وہ یہی عذر پیش کرتی ہے کہ ہمارے سموگ کے پھیلائو کی وجہ بھارتی پنجاب میں دھان کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ سے اٹھنے والا دھواں ہے جو بغیر ویزا سرحد پار کر آتا ہے۔ لاہور کے بعد اب ملتان پنجاب کا دوسرا بڑا سموگ زدہ شہر بن کر نمودار ہوا ہے۔ جو لوگ لاہور میں سموگ کے پھیلائو کے لیے بھارتی پنجاب میں دھان کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ پر تمام تر ملبہ ڈال دیتے ہیں کیا وہ اسی جواز کے تحت بھارتی پنجاب کے کسانوں کو ملتا ن میں سموگ کاذمہ دار بھی قرار دے سکتے ہیں۔ ملتان میں سموگ کا ظہور مکمل طور پر ہماری اپنی ناعاقبت اندیشی، بد عملیوں اورغیر ذمہ داریوں کا نتیجہ ہے جبکہ لاہور میں سموگ کے پھیلائو کے لیے بھی ہم خود کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ حکومتی ترجمان ، سموگ کے پھیلائو کی تمام تر ذمہ داری بھارت پنجاب کے کسانوں پر عائد کرکے مقامی لوگوں کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر اس موقف کے تحت بیرونی دنیا کو مطمئن کرنا ممکن نہیں ہے۔ سال 2022کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے جب ملک کے تقریباً 10ملین لوگ بری طرح متاثر ہوئے ، اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی ڈوبے نہیں، ڈبوئے گئے ہیں ۔انتونیو گوتریس نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوںکے قتل عام جیسے اثرات دنیامیں کہیں بھی اس طرح نہیں دیکھے جس طرح پاکستان میں نظر آرہے ہیں، ان قاتل ماحولیاتی تبدیلیوں کی ذمہ دار وہ زہریلی گیسیں ہیں جن کے اخراج کے ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں لہذا ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں رونما ہونیوالی تباہی کا ازالہ کریں ۔ انتونیو گوتریس کے اس بیان کی حمایت برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے بھی کی تھی اور اسی بیان کے بعد ہالی ووڈ اداکارہ انجیلینا جولی نے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا ۔ ترقی یافتہ ممالک کے ماحول کو تباہ کرنے جیسے صنعتی عمل کے خلاف اگر بیرونی دنیا کے انسان دوست لوگ ہماری حمایت میں کھڑے ہو سکتے ہیں تووہ ہماری اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سموگ کے لیے ہمیں لعن طعن بھی کر سکتے ہیں۔ لہذا ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے سے پہلیہی حکومتوں اور عوام کو سموگ کے خاتمے کے لیے راست اقدام کی طرف جانا چاہیے ورنہ سموگ کا باعث بننے والی ہماری کوتاہیاں مقامی لوگوں کی صحت تباہ کرنے کے ساتھ ہمیں بیرونی انسان دوست لوگوں کی ہمدردیوں سے بھی محروم کر دیں گی۔

جواب دیں

Back to top button