Ali HassanColumn

الٰہی بخش سومرو مرحوم جو وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تھے

علی حسن
معروف سیاستداں الٰہی بخش سومرو کا جمعرات کو طویل علالت کے بعد98برس کی عمر میں کراچی میں انتقال ہو گیا ۔ ان کی اہلیہ کا انتقال بھی اسی سال جنوری کے مہینہ میں ہوا تھا۔ اپنی اہلیہ کی موت کے بعد ان کے علالت نے طول کھینچا تھا۔ سیاست میں تو حالات نے ان کو گھسیٹا۔ وہ تو ایک سرکاری افسر تھے۔ بھٹو کے اقتدار میں آنے سے قبل وہ کے ڈی اے کے سربراہ تھے۔ سیاست میں انہوں نے نواز شریف کی قربت حاصل کی۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران اس وقت زیادہ سرگرم ہو گئے تھے جب جنرل اپنا وزیر اعظم مقرر کرنا چاہتے تھے۔ الٰہی بخش نے پیر پگارو کی چھتری کے نیچے پناہ لی لیکن پیر پگارو انہیں وزیر اعظم نہ بنوا سکے۔ پیپلز پارٹی میں وہ شامل نہیں ہو سکتے تھے کہ بھٹو سے اختلافات کی وجہ سے مرحومہ بے نظیر بھی سیاسی طور پر ان کے قریب نہیں آسکیں۔ نواز شریف خود وزیر اعظم کے امیدوار تھے اس لئے وہ الٰہی بخش سومرو کے مدد گار کیوں ہوتے۔ نواز شریف نے بہت کیا کہ انہیں قومی اسمبلی کا سپیکر نامزد کر دیا، سپیکر کا عہدہ انہوں نے بادل نخواستہ قبول کیا تھا۔ ان کی منزل تو وزیر اعظم کا عہدہ تھی جسے وہ حاصل نہ کر سکے۔ ان کے تایا اللہ بخش سومرو قیام پاکستان سے قبل سندھ کے وزیر اعلی رہے تھے۔ ان کے والد مولا بخش قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ خاندان کے کئی افراد اعلی سیاسی عہدوں پر رہے تھے۔
ضلع جیکب آباد کے ایک صحافی شاہد سومرو کے علاقے کے ایک با اثر زمیندار کے بیٹے کے ہاتھوں قتل کے بعد شاہد کے بھائی اور دیگر رشتہ دارو سمجھ رہے تھے کہ ان کے لئے عدالت میں مقدمہ لڑنا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ کندھ کوٹ سے سکھر آنا جانا وسائل کی کمی کے باعث ممکن نہیں تھا۔ شاہد سومرو روزنامہ کاوش کے لئے رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ ایسی صورتحال کے بعد حیدرآباد اور سکھر کے صحافیوں نے فیصلہ کیا کہ شاہد کے معاملہ پر قتل کے ذمہ دار شخص سے خون بہا لیا جائے۔ وہ بھی اس لئے ممکن ہوا کہ قتل کا ملزم وحید بجارانی پولس کی حراست میں تھا۔ پولس نی صحافیوں کے دبائو کے تحت اسے حراست میں تھا اور اس کا مقدمہ درج کر کے چالان کر دیا تھا۔ وحید بجارانی شیر محمد بجارانی کا بیٹا تھا۔ شیر محمد اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بالائی سندھ کے علاقوں میں جہاں قبائل بستے ہیں اور سرداروں کی سلطنتیں قائم ہیں ، عام لوگوں کی لئے مزاحمت کرنا نا ممکن سی بات ہوتی ہے۔
جرگہ منعقد کرنے پر آمادگی کے بعد اکتوبر 2003ء میں کندھ کوٹ میں ہی اجتماع منعقد ہوا۔ صحافیوں نے ضلع شکار پور سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان الٰہی بخش سومرو کو بھی جرگہ میں مدعو کیا تھا تاکہ مقتول شاہد سومرو کی خاندان کو یقین ہو جائے کہ جرگہ میں ان کی طرف سے بھی کوئی موجود ہے حالانکہ الٰہی بخش سومرو پوری کارروائی میں خاموش رہے۔ الٰہی بخش ضلع جیکب آباد میں بھی اپنا اثر رکھتے تھے۔ جرگہ میں اس علاقہ کے بعض قبائل کے چیف سردار سندر خان سندرانی
بھی موجود تھے۔ جرگہ میں طویل بحث کے بعد جرمانہ عائد کیا گیا جو سولہ لاکھ روپے بنتا تھا۔ سندھ میں جرگوں میں جرمانہ کی جو رقم عائد کی جاتی ہے، فیصلے کے بعد اس رقم میں اس حد تک کٹوتیاں کرائی جاتی ہیں کہ جرمانے کی رقم گھٹ کر کچھ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ صحافیوں نے جب کٹوتیوں کا وقت آیا تو شد و مد کے ساتھ مخالفت کی اور طے شدہ تمام رقم وصول کی۔ یہ بات جرمانہ ادا کرنے والے فریق کے بعض ہمدردوں پر اس حد تک گراں گزری کہ کہا گیا جو رقم دے رہے ہیں وہ واپس بھی لے سکتے ہیں۔ چیف سردار سندر خان کی توجہ اس جانب کرائی گئی تو انہیں نے تنبیہ کی کہ اس قسم کی باتیں نہ کی جائیں۔ جرگہ میں ساڑھے سولہ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد ہوا تھا، صحافیوں نے وہ رقم الٰہی بخش سومرو کے حوالے کی تھی کہ وہ شاہد سومرو کی بیوہ کو پہنچا دئیے جائیں۔ شاہد کے بھائی موجود تھے لیکن صحافی نہیں چاہتے تھے کہ یہ رقم بھائیوں کے ہاتھ میں دی جائے۔ الٰہی بخش مرحوم نے یہ ذمہ داری خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی۔ شاہد کی بیوہ نے اس رقم سے شاہد کے بچوں کی پرورش کی۔
الٰہی بخش بھٹو کے اقتدار میں آنے کے وقت حکومت سندھ کے ملازم تھے۔ ان کی تقرری کے ڈی اے میں تھی۔ ان کے بھٹو مرحوم سے بھی ذاتی تعلقات تھے لیکن ان کے والد مولا بخش سومرو نے سن 70کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کی تھی، جو بھٹو مرحوم کو اس حد تک ناگوار گزری کہ ان کی الٰہی بخش سومرو کے ساتھ ٹھن گئی جو سومرو کے جیل جانے کا سبب بھی بنا تھا۔ ضلع شکار پور کا سومرو خاندان قیام پاکستان سے قبل سے سیاست میں سرگرم تھا۔ مولا بخش کے بڑے بھائی اللہ بخش قیام پاکستان سے قبل سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے تھے۔ انہیں کسی نے تانگہ پر سواری کے دوران قتل کر دیا تھا۔ ان کے بعد مولا بخش سیاست میں سرگرم ہو گئے تھا۔ سن 70کے انتخابات کے بعد اور جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد الٰہی بخش سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی افتخار بھی سرگرم ہو گئے اور مار شل لاء دور میں وزیر بھی بنے۔ اللہ بخش مرحوم کے خاندان کے دیگر کئی افراد اپنے اپنے وقت میں سیاست میں سر گرم ہوتے رہے۔
سومرو خاندان با اثر ہونے اور سیاست میں سر گرم ہونے کے باوجود ضلع شکار پور میں سرکاری ترقیاتی کام بھی نہیں کرا سکے۔ حالانکہ خود الٰہی بخش ن لیگ میں شمولیت کے دوران سپیکر کے عہدے پر متعین رہے لیکن شکار پور ان کی توجہ کا محتاج ہی رہا۔ بنیادی بات دلچسپی کا فقدان تھا۔ اکثر شکار پوری سیاستدان رہائش شکار پور میں رکھتے ہیں لیکن ان کی اصل رہائش کراچی میں ہوتی ہے۔ الیکشن کے موقع پر وہ شکار پور کا رخ کرتے ہیں۔ پورے صوبے میں تقریبا تمام اضلاع ترقیاتی کاموں سے محروم رہتے ہیں۔ ضلع شکار پور میں قیام پاکستان سے قبل ہندو آبادی نے ذاتی ذرائع اور وسائل سے جو ترقیاتی کام کرائے تھے، قیام پاکستان کے بعد اس کا عشر عشیر بھی سیاست داں نہیں کر سکے۔ دلچسپی کو فقدان رہا۔ شکار پور قیام پاکستان سے قبل خوبصورت شہر قرار پاتا تھا۔ اس شہر میں صوبہ سندھ کے علاوہ علاقوں میں تجارت کرنے والے ہندو اپنی رہائش کے لئے مکان تعمیر کراتے تھے۔ معروف تاجر حضرات جو جاوا، سماترا اور دیگر علاقوں میں کاروبار کیا کرتے تھے وہ دل کھول کر رقم لگاتے تھے، اسی لئے مکانات ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ ان کے مکانات کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا تھا کہ وہاں کے کئی مکانات کے دروازوں میں قیام پاکستان کے بعد بہت سارے لوگ دلچسپی رکھتے تھے اور انہیں خرید لیا کرتے تھے۔ اب تو شکار پور کئی لحاظ سے بنجر ہو گیا ہے ۔ غلام حسین ہدایت اللہ جو بااثر سیاست دان تھے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں وزیر اعلیٰ سندھ رہے تھے۔ اس سے قبل وہ گورنر بھی رہے، ان سمیت کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔ عوام کی مجبوری ہوتی ہے کہ الیکشن میں امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ کامیابی کے بعد امیدوار اپنی مدت کا زیادہ تر وقت کراچی میں قیام کر کے گزار دیتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button