Column

سوشل میڈیا موذی بیماری

تحریر : ندیم ملک

سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کو جہاں امتحانات میں آسانی کے لیے سب کچھ سوشل میڈیا پر دستیاب ہے، وہیں بچوں کو سوشل میڈیا نے ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے، ہر دوسرا طالب علم ٹک ٹاکر ہے، ماں باپ بچوں کو پڑھانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، وہیں دوسری جانب بچے ان پیسوں کو فضول خرچ کر رہے ہیں۔ ٹک ٹاک، انسٹا گرام، یوٹیوب، وٹس ایپ، دیگر ایپس نے بچوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب بچے کتابیں دور دراز علاقوں سے بمشکل حاصل کرتے تھے اور اپنی پڑھائی پر دھیان دیتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا نے اتنی آسانیاں پیدا کر دی ہیں کہ چند سیکنڈ میں ہر طرح کی معلومات گوگل سے مل جاتی ہیں۔ خواہ وہ تعلیمی ہو یا سیاسی ،کسی بھی طرح کی معلومات ہوں، جب سے سوشل میڈیا آیا ہے لوگ کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔
ہمارے دوست سعود عثمانی نے کہا تھا:
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
جس طرح کا یہ سوشل میڈیائی نظام چلتا نظر آ رہا ہے یوں لگ رہا ہے جیسے لوگ کتابوں سے بالکل نالاں ہو چکے ہیں، جبکہ ٹک ٹاک سے لوگوں نے دل لگا لیا ہے، سوشل میڈیا نے بہت سے لوگوں کو راتوں رات جہاں مشہور کر دیا وہیں بہت سوں کے گھروں کے برتن تک بک گئے، یہ المیہ ہے سوشل میڈیا پر اپنی عزت نفس کو مجروح کرکے مشہور ہونے سے کون سا تمغہ امتیاز ملے گا ذرا سوچئے! سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
قول ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے
یہاں تو لوگ علم حاصل کرنے کے لیے ٹک ٹاک پر چلے جاتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے اس پر وقت ضائع کرتے ہیں، جس سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے، ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تو آج کل یہ روایت قائم ہوگئی ہے، دوست بنائو، پھر دوستوں کے ساتھ گھومو پھرو اور موبائل پر ٹک ٹاک بناءو، صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک کی ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوتی ہیں۔ بچیوں کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے، آگے چل کر یہی ویڈیوز آپ کی زندگی کی بربادی ثابت ہوسکتی ہیں، کتنی ہی بچیوں کے گھر سوشل میڈیا کی وجہ سے تباہ ہوئے آئے، روز سوشل میڈیا پر خبریں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن بچے اپنا قبلہ درست نہیں کر رہے، اپنا نہیں تو خدارا اپنے والدین کا سوچیں، جنہوں نے آپ کے لیے خواب دیکھ رکھے ہیں، افسوس صد افسوس آپ لوگوں کو سوشل میڈیا سے فرصت ہی کہاں جو اپنے پیچھے اپنے ماں باپ کا خیال کریں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جو بے حیائی سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بنی ہوئی ہے اس پر سختی سے نوٹس لیں۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ پر سختی سے پابندی عائد کریں۔ اس طرح سے اداروں کی ساکھ خراب ہوتی ہے، حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ پولیس میں بھرتی خواتین و حضرات بھی اس موذی بیماری کا شکار ہیں۔

جواب دیں

Back to top button