وہ ۔۔۔۔۔ مثبت رپورٹنگ

محمد ناصر شریف
سوشل میڈیا اور ہزاروں کیمروں کی موجودگی میں وہ۔۔۔۔۔ مثبت رپورٹنگ ممکن ہی نہیں، جو کوئی طبقہ چاہتا ہے۔ ہم کسی بھی واقعے کو کتنے ہی مثبت انداز میں کیوں نہ دیکھیں ، پیش کریں، اسے اپنے طور پر بیان کریں لیکن اس کے حقیقی اور منفی پہلوئوں کو آج کے جدید دور میں چھپانا ممکن ہی نہیں ہے۔
گزشتہ روز ہم نے خود آنکھیں بند کر لیں جو کہا گیا کہہ دیا کہ آئل ٹینکر میں دھماکا ہوا یا آئل ٹینکر نکال کر دھماکا ہوا، لیکن اگلے دن وہ تفصیلات جاری ہوگئیں جو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس جدید دور میں دور قدیم کے طرز عمل کے حامل لوگوں کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب بات تیز رفتار ترقی کی ہوتی ہے تو ہر جگہ ہورہی ہے۔ خصوصا اطلاعات کے شعبے میں اطلاعات سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے پھیل رہی ہیں کہ ان کو روکنا مشکل ہے۔ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو حکام اور متعلقہ ادارے بعد میں پہنچتے ہیں اس واقعے سے متعلق ویڈیو اور آڈیو پہلے موبائل ڈیوائس کی اسکرینوں پر چلنے لگتی ہے اور عام شہری عینی شاہدین سے کی جانے والی بات چیت بھی دھڑا دھڑ اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں ایک جانب سے صدا لگائی جاتی ہے کہ مثبت رپورٹنگ کی جائے حکم بجا لاتے ہوئے مثبت رپورٹنگ بھی ہوجاتی ہے لیکن حاصل کیا؟ شہری اور عوام ہنستے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہ معلومات ہوتی ہیں ہے جو آفیشلز کے پاس بھی نہیں ہوتی، اسی لئے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا زاول بتدریج جاری ہے کہ بہت ہی مثبت ہوگئی ہیں اتنا مثبت کہ کسی شہری ادارے یا خدمت فراہم کرنے والے ادارے کی کوتاہیوں کو بھی منظر عام پر لانے کے بجائے مثبت رپورٹنگ میں لگے ہوئے ہیں ۔
6 اور 7اکتوبر کی درمیانی شپ کراچی ایئر پورٹ کے قریب دھماکا ہوا ، ہر طرف افراتفری پھیل گئی ، متعدد گاڑیوں میں آگ لگ گئی، دھماکے نوعیت اس قدر شدید تھی کہ ایئرپورٹ کے اطراف کی آبادی کے مکین گھبراہٹ کے باعث گھروں سے باہر نکل آئے، ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگا کہ زلزلہ آگیا، دھماکے کی شدت اتنی تھی کہ اس کی آواز کئی کلومیٹر تک سنائی دی گئی، ڈیفنس، پی ای سی ایچ ایس، جمشید روڈ، ملیر، شاہ فیصل کالونی، ناظم آباد، کریم آباد، گلستان جوہر، گلشن اقبال سمیت شہر کے کئی دوسرے حصوں میں بھی اس کی آواز سنائی دی، ناظم آباد کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ایسا محسوس ہوا ہے کہ علاقہ میں کوئی بم پھٹ گیا ہے، ملیر کے رہائشی نے کہا کہ پوار گھر ہل گیا، ایسا لگا کہ زلزلہ آگیا ہے، محلے کے لوگ گھروں سے خوفزدہ ہوکر باہر نکل آئے۔ ابتدائی طور پر دھماکے کو آئل ٹینکر بلاسٹ قرار دیاگیا اور رات گئے تک اسی بات کو بتانے کا پابند بھی کیا گیا۔ واقعے میں 2افراد ہلاک اور 10زخمی بھی ہوئے۔ دھماکے کے باعث بیرون ملک جانے والے مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کئی مسافر ٹریفک جام اور راستے کی بندش کی وجہ سے ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکے جس کی وجہ سے ان کی فلائٹس مس ہوگئیں۔
دوسری جانب بلوچ لبریشن آرمی نامی ایک تنظیم نے بہت تیزی سے اپنا پریس ریلیز مختلف سوشل میڈیا گروپس میں شیئر کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے ناصرف دھماکے کی ذمے داری قبول کی بلکہ بتایا کہ ان کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے نکلنے والے چینی انجینئروں اور سرمایہ کاروں کے ایک اعلیٰ سطح کے قافلے کو فدائی وی بی آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا ۔
یہ تو ہوگئی گزشتہ کل کی مثبت رپورٹنگ، اب آج یعنی پیر کی مثبت رپورٹنگ دیکھئے
کراچی ایئرپورٹ کے قریبی چینی شہریوں پر ہوئے حملے کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی گئی، دھماکا خودکش تھا جس میں 70 سے 80کلوگرام مواد استعمال کیا گیا، گاڑی کے مالک کا بھی پتا چل گیا جو کہ بلوچستان کا رہائشی ہے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکا گاڑی میں وی بی آئی ای ڈی کے ذریعے کیا گیا، دھماکا جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر روانگی کے سگنل پر ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ خود کش حملہ غیر ملکیوں کے وفد پر ہوا، دھماکے کے نتیجے میں 12گاڑیوں کو بری طرح نقصان پہنچا اور تین مکمل تباہ ہوئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور گاڑی میں دھماکا خیز مواد لے کر سوار تھا اور چینی باشندوں کی آمد کا منتظر تھا جس نے ہدف کو قریب آتے دیکھ کر گاڑی ان سے ٹکرا دی۔ تفتیشی حکام نے بتایا ہی کہ حملے میں استعمال گاڑی کے چیسز سے مالک کی تفصیلات مل گئی ہیں جس کا نام شاہ فہد ہے اور وہ بلوچستان کے شہر نوشکی کا رہائشی ہے۔
گزشتہ کل کے پورے قصے کا مرکز ی کردار آئل ٹینکر کہاں گیا اس کا ابھی تک پتہ نہیں چلا ، آئل ٹینکر دھماکے کا اسکرپٹ لکھنے والوں کو پتہ نہیں ایسے مقام پر آئل ٹینکر دھماکا کس قدر تباہی مچا سکتا تھا ۔ واقعہ کل بھی سنگین ہی تھا جس کو کچھ لوگوں نے مثبت دکھانے کی کوشش کی ۔
اس واقعے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے بیان میں کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی شہریوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے پاکستان چین کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب دہشت گردی کے واقعے میں 2چینی انجینئرز جان سے گئے اور ایک زخمی ہوا۔ پاکستان اس واقعے میں چین اور پاکستان دونوں کے متاثر ہونے والے افراد کے خاندانوں سے ہمدردی اور اظہار تعزیت کرتا ہے۔ انہوں نے واقعے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا بھی کی۔ ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ کراچی میں ہونے والی دہشت گرد کارروائی پاک چین پائیدار دوستی پر حملہ تصور کرتے ہیں اور اس بزدلانہ کارروائی کرنے والے عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر سخت سزا دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک اپنی چینی بھائیوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مجید بریگیڈ سمیت اس بزدلانہ حملے کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ چینی سفارت خانے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور پاکستان اور چینی شہریوں کی سلامتی کے لئے اپنے عزم کو اعادہ کرتی ہے۔
چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے فوری ایمرجنسی پلان نافذ کرکے پاکستان سے تحقیقات کی درخواست کی ہے۔ پاکستان کو چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
چین نے دہشت گرد حملے میں پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی کے دو چینی انجینئروں کی ہلاکت اور ایک شہری کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان حملے کی مکمل تحقیقات کرے اور قصورواروں کو سخت سزا دے۔
پوری پاکستانی قوم چینی بھائیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے اور لواحقین سے تعزیت کرتی ہے۔ باقی ہمیں اپنے مقتدر حلقوں سے کہنا یہ ہے کہ آپ کے سسٹم میں دہشتگردوں ، علیحدگی پسندوں، انتہا پسندوں، قدامت پسندوں کے بہت سارے سہولت کار موجود ہیں ۔ جب تک ان لوگوں کو بھی سسٹم سے علیحدہ نہیں کیا جاتا دہشت گردی کے واقعات کو روکا نہیں جاسکتا، مختلف آپریشنز کے نام پر آپ کارندے تو ختم کر سکتے ہیں لیکن مائنڈ سیٹ نہیں اور مائنڈ سیٹ ختم کرنے کے لئے ریاست کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔