Ali HassanColumn

بھٹو اور خاتمہ

علی حسن
ذوالفقار علی بھٹو کا خاتمہ صرف ان کی بظاہر سیاست سے خاتمہ نہیں تھا بلکہ ان سے سیاسی طور پر چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ ایک مختصر وقت کے لئے تو ان کا خاتمہ کرنے والوں تسلی دے گیا لیکن آج بھی پاکستان کی سیاست پر بھٹو ہی حاوی ہیں۔ زیر نظر تحریر اپنے وقت کے سینئر اعلیٰ سرکاری ملازم روئیداد خان مرحوم کی انگریزی زبان کی کتاب ’’pakistan a dream gone sour‘‘ کے اردو ترجمہ سے لی گئی ہے تاکہ قارئین کو پاکستان کے سیاسی تغریرات سے آگا ہی حاصل ہو سکے۔
’’ پاکستان پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت نے جو جان لیوا غلطی کی وہ یہ تھی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچانے کی تمام تر کوششوں کو عدالت کے کمرہ تک محدود رکھا وہ یہ سمجھتی رہی کہ عام قسم کے مقدمات قتل کی طرح ، اس مقدمہ قتل کا فیصلہ بھی صرف حقائق و کوائف و شواہد و دلائل کی بنا پر کیا جائے گا۔ ایسا سمجھنا سادہ لوحی تھا، پی پی پی کی قیادت یہ بھول گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی اور موت کا فیصلہ عدالت کے کمروں میں نہیں بلکہ پاکستان کی گلی کوچوں میں ہو گا۔ پی پی پی کی قیادت کے سامنے شیخ مجیب الرحمان کی مثال تھی جس پر اگر تلہ سازش کا مقدمہ دائر ہوا تھا۔ پھر وہ مقدمہ واپس لے لیا گیا تھا۔ کیوں ؟ اس لئے نہیں کہ استغاثہ کمزور تھا بلکہ اس لئے اس کو واپس لینا پڑا تھا کہ عوام جوق در جوق ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے تھے ، بہت سے سرکاری دفتر اور گھر نذر آتش ہو رہے تھے ( ان گھروں میں خواجہ شہاب الدین کا گھر بھی شامل تھا) ڈھاکہ میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ اس کے باوجود کرفیو کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ جب ڈھاکہ کی صورت حال قابو سے قطعا ًباہر ہو گئی تو ایوب خان کو مجبوراً شیخ مجیب الرحمان کے خلاف مقدمہ واپس لینا پڑا تھا۔ اس کے بعد کے واقعات کو دیکھیے۔25 مارچ 1971ء کو فوجی کارروائی کے بعد شیخ مجیب الرحمان کو ڈھاکہ سے گرفتار کیا جاتا ہے، بظاہر صورت حال قابو میں آجاتی ہے لیکن بات وہاں ختم تو نہیں ہوتی۔ بنگالی اپنی جدو جہد جاری رکھتے ہیں۔ مکتی باہنی ( لشکر نجات) بناتے ہیں ، اپنی جدو جہد کو جنگ آزادی میں بدل دیتے ہیں، اپنی جد و جہد کو بین الاقوامی جہت دیکر باہر کے ملکوں سے مدد مانگتے ہیں، حتی کہ خود مختاری کا اعلان کر دیتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ شیخ مجیب الرحمان کی پوزیشن 1971ء میں اور ذوالفقار علی بھٹو کی پوزیشن 1977ء میں، ان دونوں پوزیشنوں میں بہت فرق تھا۔1971ء میں شیخ مجیب کے ہاتھ صاف تھے، ان کا ماضی بے داغ تھا اور عوام کی حمایت کی قوت ان کے ساتھ تھی، اس کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اقتدار کے نشہ میں بہک کر عوام کا اعتماد کھو چکے تھے اور 1977ء میں ان کی پوزیشن شیخ مجیب الرحمان کی 1971ء والی پوزیشن سے کہیں زیادہ کمزور تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا سارا زور عدالتوں میں مقدمے لڑنے اور فیصلے کے بعد غیر ملکی سربراہان حکومت سے رحم کی اپیلیں جمع کرنے پر لگا دیا۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ایسی اپیلوں سے جنرل محمد ضیا الحق کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ جب جنرل محمد ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دی گئی عرضداشت رحم کو نا منظور کر دیا تو مجھے ذرا بھی حیرت نہ ہوئی، کیونکہ ایک مرتبہ جنرل صاحب مجھ سے کہہ چکے تھے: روائید اد صاحب اب تو صورت یہ ہے کہ یا اس کی گردن تہ تیغ ہو گی یا میری! مرات نے کہا تھا: تف ہے اس انقلاب پر جو عہد رفتہ کے نشان کا سر قلم نہ کر سکے۔
جنرل محمد ضیا الحق کو اس مقولہ کی صداقت کا علم بھی تھا اور اس پر یقین بھی۔ وہ اپنی جان کے لئے کسی قسم کا کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہ تھے۔ صرف اور صرف جنرل محمد ضیا الحق میں اتنی سکت تھی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک لے جاتے۔ جیسے سیزر کے لئے بروٹس تھا، چارلس اول کے لئے گرامویل تھا، ذوالفقار بھٹو کے لئے ضیا الحق تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر جنرل محمد ضیا الحق صرف اور صرف انصاف کے تقاضے پورے کر رہے تھے۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل محمد ضیا الحق اعلی عدالتوں کی طرف سے دی گئی موت کی سزائوں میں اصولا ًکبھی تبدیلی یا تخفیف نہیں کرتے تھے تو پھر ذوالفقار علی بھٹو کے معاملے میں ایسا کیوں کرتے ؟ لیکن میں اپنے ذاتی علم کی بنا پر اس قسم کے خیالات کی تردید کرتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے پہلے اور اسکے بعد ، بہت سے معاملات میں اعلی عدالتوں کے طرف سے سنائی موت کی سزائوں میں جنرل ضیا الحق نے تخفیف بھی کی اور تبدیلی بھی۔ اور ایسا کرتے وقت انہوں نے نہ اعلی عدالتوں کے فیصلوں کی پرواہ کی اور نہ وزارتِ داخلہ کے مشوروں کی۔
2اپریل1979 ء کو میں اپنی سرکاری گاڑی میں گھر سے پنڈی کلب گیا، وہاں ذوالفقار علی بھٹو کی واحد زندہ بہن منا اور ان کے شوہر نسیم الاسلام ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں ان سے ملا، وہ دونوں میرے اچھے برے ہر طرح کے وقت کے ساتھی تھی۔ حتی کہ میری خاطر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے اپنے تعلقات بگاڑ لئے تھے ۔ پنڈی کلب کے گرد خفیہ سراغ رساں ایجنسیوں ( مثلاً انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، سپیشل برانچ) کا پہرہ تھا، لیکن میں اس محاصرہ کی پروا کئے بغیر ان دونوں کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا تا کہ ہم سب ملکر شام کا کھانا ایک ساتھ کھائیں۔ خفیہ ایجنسیوں کی گاڑیاں ہمارا تعاقب کرتی رہیں میں چاہتا تھا کہ منا کو بتلا دوں کہ ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھنے والے ہیں کیونکہ یہ میرے علم میں تھا کہ وہ کس دن کس تاریخ کس وقت تختہ دار پر چڑھنے والے ہیں۔ میں ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ یہ منحوس خبر منا کو سنائوں تو کیسے سنائوں کہ منانے اپنی مخصوص چھٹی نسوانی حس سے محسوس کر لیا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ رونے لگی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا میں صرف ایک بار اور اپنے بھائی کا آخری دیدار کر سکتی ہوں؟ مجھے معلوم تھا کہ وقت گزر چکا ہے لیکن پھر بھی اس کی تسلی کی خاطر میں نے کوشش کا وعدہ کر لیا۔ منا نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد از جلد پنڈی سے کراچی اور کراچی سے لاڑکانہ پہنچنا چاہتی ہے تاکہ جب اس کے بھائی ذوالفقار علی بھٹو کی لاش لاڑکانہ پہنچے تو وہ وہاں موجود ہو۔ ہم تینوں کی بھوک مر چکی تھی۔ رات کا کھانا ہم تینوں میں سے کسی نے نہیں کھایا، اور ہم پی آئی اے کے پنڈی دفتر میں چلے گئے میں نے منا اور ان کے شوہر نسیم الاسلام کو پنڈی سے کراچی اور کراچی سے لاڑکانہ کی نشستیں ہوائی جہاز میں ترجیحی بنیادوں پر دلوادیں اور پھر میں ان دونوں کو پنڈی کلب چھوڑ آیا۔ اگلے روز یعنی 3اپریل 1979ء کو میں پھر ان دونوں سے ملا اور انہیں بتلادیا کہ جیسا کہ مجھے خدشہ تھا منا کی درخواست اپنے بھائی سے ملنے کی نامنظور ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا اب ہمارا پنڈی میں رہنا بے کار ہے۔ چنانچہ میں نے انہیں پنڈی ایئر پورٹ پر چھوڑ دیا تا کہ وہ اسی شام کی پرواز سے کراچی چلے جائیں، میں نے انہیں رخصت کیا اور نہایت آزردہ خاطر اور افسردہ دل اپنے گھر لوٹا۔
اسی اثنا ء میں راولپنڈی جیل کا عملہ ، مارشل لا حکام کی زیر نگرانی ، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے انتظامات مکمل کر رہا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ان انتظامات سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا اور میں اس المیہ ڈرامے کے آخری ایکٹ میں شامل ہونے سے بچ گیا۔ تا ہم جیسے جیسے سولی کا وقت قریب آرہا تھا پیشرفت کی اطلاعات مجھ کو مل رہی تھیں۔ وہ رات مجھ کو معمول کی رات سے زیادہ لمبی لگی۔ میں تمام رات جاگتا رہا اور سوچتا رہا کہ تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کیا سوچ رہے ہوں گے کیا کر رہے ہوں گے ؟ جب اعصابی تنائو بہت بڑھا تو میں نے ئوعظیم کی دو گولیاں کھائیں لیکن ان سے بھی میرا اعصابی تنائو کم نہیں ہوا۔ میں تمام رات کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلتا رہا اور سقراط کے وہ آخری الفاظ یاد کر تا رہا کہ جنہیں افلاطون نے اپنی کتاب معذرت (Apology) میں یوں درج کیا ہے: ’’ ولیم افلاطون ! اب جانے کا وقت آچکا ہے۔ ہم دونوں کو جانا ہے مجھے مرنے کے لئے تمہیں جینے کے لئے۔ کون سا راستہ بہتر ہے۔ میرا یا تمہارا۔ خدا ہی جانے‘‘۔
پو پھٹنے سے ذرا پہلے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا تاکہ وہاں جاکر دیکھوں تو سہی کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد وہاں کا کیا رنگ ڈھنگ ہے ، کہ اتنے میں مجھے اطلاع ملی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عم زاد اور صوبہ سندھ کے سابق وزیر اعلی مجھ سے ملنے کے لئے نیچے ڈرائنگ روم میں میرے منتظر ہیں۔ میں نیچے اترا، ان سے ملا۔ انہوں نے چھٹتے ہی مجھ سے پہلا سوال یہ کیا: کیا ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہیں؟ میں نے جواب دیا : ذوالفقار علی بھٹو کو گزشتہ رات 2بج کر4منٹ پر پھانسی دیدی گئی۔ کہنے کو تو میں نے یہ کہہ دیا لیکن یہ کہتے کہتے میرا پیمانہ صبر چھلک پڑا اور میں رو دیا۔ ممتاز بھٹو نے مجھے تسلی دینے کی خاطر اپنا ہاتھ میرے گھٹنے پر رکھ دیا۔ وہ پر سکون تھے ان کے جذبات ان کے قابو میں تھے یقینا ان کے اعصاب مجھ سے کہیں زیادہ مضبوط تھے۔ اس کے بعد چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے دفتر پہنچا تو وہاں تقریبا ًتمام فوجی کنبے افسروں کی آنکھوں کو سرخ پایا۔ تھوڑی سی بات چیت کے بعد ایک پریس نوٹ کا مسودہ تیار کیا گیا اور اسے جاری کر دیا گیا۔ اس کا مضمون یہ تھا: ’’ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو آج رات دو بجے راولپنڈی جیل میں پھانسی دیدی گئی، 4اپریل1979ء کی صبح کو ان کی لاش کو ایک خصوصی طیارے میں پنڈی سے لاڑکانہ پہنچا کر وہاں ان کے خاندان کے بزرگوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ان بزرگوں نے لاش کو خواہش کے مطابق لاڑکانہ میں، نوڈیرو کے قریب گڑھی خدا بخش کے آبائی قبرستان میں صبح ساڑھے دس بجے دفن کر دیا۔ جنازے میں ان کے اعزہ یعنی دو چچا، نبی بخش بھٹو اور پیر بخش بھٹو، ان کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم کے علاوہ ان کے دوست احباب اور علاقے کے دوسرے باشندے شامل تھے ‘‘۔

جواب دیں

Back to top button