
سی ایم رضوان
انتہائی حساس ماحول میں معروف اسلامی اسکالر مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام آباد پہنچ گئے۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران وہ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے شیڈول کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک 5اور 6اکتوبر کو کراچی، 12اور 13اکتوبر کو لاہور جبکہ 19اور 20اکتوبر کو اسلام آباد میں خطاب کریں گے۔ پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان کے خطاب مذہبی ٹی وی چینل پیس ٹی وی سے براہِ راست نشر بھی کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 2016ء میں ڈاکٹر نائیک کے ادارے اسلامک ریسرچ فائونڈیشن پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کر کے اس پر 5سال کے لئے پابندی عائد کر دی تھی۔ بعد ازاں 58 سالہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر 2019ء میں بھارت میں غداری اور منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم کیے گئے جس کے بعد ان کا بھارت واپس لوٹنا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق جب انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ کبھی بھارت واپس نہیں جا سکتے تو انہوں نے 2020ء میں پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا تھا تاہم تب کرونا وائرس کی عالمی وبائ کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا تھا۔ واضح رہے کہ ذاکر نائیک انڈیا میں منی لانڈرنگ اور اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمے میں ملزم ہیں اور انڈین حکومت ان کی حوالگی
کی کوششیں کر رہی ہے۔ ایسے میں ذاکر نائیک کا پاکستان آنا انڈیا سمیت دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ان کے اس دورہِ پاکستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ذاکر نائیک کو پاکستان مدعو کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں وہ ’’ کیا قرآن سمجھنا اور پڑھنا ضروری ہے؟‘‘ یا ’’ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘ جیسے موضوعات پر اظہار خیال کریں گے۔ ایک پاکستانی صارف نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ذاکر نائیک کو اپنے ملک انڈیا میں خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔ ایسے میں ان کو پاکستان مدعو کرنے کے لئے متنازعہ وقت چنا گیا ہے۔ مبینہ طور ہر ذاکر نائیک کو القاعدہ، داعش اور اسامہ بن لادن کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ صارف عامر مغل نے ذاکر نائیک کی ایک پرانی ویڈیو بھی شیئر کی ہے۔ اس ویڈیو میں ذاکر نائیک کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ اس ملک کے ساتھ جو سب سے غلط کام ہوا وہ تقسیم ہے۔ مسلمانوں کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ ایک ملک کی طرح مل جل کر رہتے پھر وہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرتے۔ ایسی ویڈیوز پاکستان میں بھی شیئر کی جا رہی ہیں جن میں ذاکر نائیک کو اسامہ بن لادن اور طالبان کی
کارروائیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے سوشل میڈیا پر ذاکر نائیک کا پروگرام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں آپ کا تہہ دل سے استقبال ہے۔ مدیحہ نامی ایک دیگر صارف نے ان کے دورہ پاکستان کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بہت سی چیزوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن سب سے پہلے ذاکر نائیک، طارق جمیل جیسے لوگوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بلانا بند کیا جائے۔ گزشتہ30سال میں تبلیغی جماعت کی طرف سے طلباء کو بنیاد پرستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ وہ مزید کتنا نقصان چاہتے ہیں؟ حسین حقانی 2008سے 2011تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ پاکستان کو اس دعوت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ مذہبی بنیاد پرستوں
کو دعوت دینے سے ملک کی شبیہ متاثر ہوگی۔ بنیاد پرست مبلغین تو پاکستان کے اپنے ہی کافی ہیں۔ باہر سے بلانے کی ضرورت نہیں۔ تاہم انڈیا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطلوب ہونے کی بناء پر شاید اس دورے کا یہ ایک پہلو ہی نہیں دیگر سکیورٹی پہلو بھی اہم ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید واقعات خاص طور پر ڈاکٹر نائیک کی پاکستان میں تقریریں معاملات کو مزید متنازعہ یا آسان بنا سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہاں کیا کہتے ہیں اور اس کے کیا تاثرات قائم ہوتے ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جب انڈیا میں ذاکر نائیک کے لئے مسائل بڑھے تو وہ ملائیشیا چلے گئے۔ تب ذاکر نائیک نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے لئے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا آسان ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ وہاں جانا چاہتا تو جا سکتا تھا ۔ اسلام میں قاعدہ ہے کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لئے چھوٹا نقصان اٹھا لو۔ اگر میں پاکستان جاتا تو وہ مجھ پر آئی ایس آئی سے وابستہ ہونے کا الزام لگاتے۔ اسی وجہ سے میں پاکستان نہیں گیا۔ ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ پاکستان سے میں محبت کرتا ہوں۔ میں جب بھی باہر جاتا تو جن سفیروں سے ملتا ان میں زیادہ تر پاکستانی ہوتے تھے۔ 2019ء میں جب یہ واضح ہو گیا کہ واپس ( انڈیا) جانے کے امکانات نہیں ہیں تو میں نے کہا کہ اب ہم پاکستان جا سکتے ہیں۔ میرا منصوبہ 2020 ء کے آخر میں آنے کا
تھا۔ میں نے لوگوں سے رابطہ کیا اور مکمل پلان بنا لیا گیا۔ حکومت کے لوگ بھی مدعو کر رہے تھے لیکن کوویڈ آ گیا۔ انڈیا جانے کے امکانات کے بارے میں ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ انڈیا جانا بہت آسان ہے۔ باہر نکلنا مشکل ہے۔ بلانے کے لئے تو ریڈ کارپٹ بچھا دی جائے گی کہ آئو اور اندر جیل میں بیٹھو۔ ظاہر ہے کہ گرفتار کر لیں گے۔ ان کی فہرست میں نمبر ایک دہشت گرد ذاکر نائیک ہی ہے۔
ایک نجی ٹی چینل جس پر عموماً ذاکر نائیک کی تقاریر نشر ہوتی ہیں پر انڈیا، برطانیہ اور بنگلہ دیش سمیت کچھ ممالک نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ذاکر نائیک اس ٹی وی چینل کے مالک بھی ہیں۔ ذاکر نائیک کو اپنی تقریروں میں اسلام کے بارے میں بات کرتے سنا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ سال 2015ء میں ذاکر نائیک کو سعودی عرب نے ’’ اسلام کی خدمت کرنے پر‘] اپنے باوقار ایوارڈ سے نوازا تھا۔ انہیں شاہ سلمان نے یہ اعزاز دیا تھا۔ اس اعزاز سے تقریباً 15سال پہلے سال 2000 ء کے آس پاس ذاکر نائیک کی تقاریر نے بڑی تعداد میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ بعد میں ذاکر پر اسلام کو دوسرے مذاہب سے برتر قرار دینے اور دوسرے مذاہب کو نیچا دکھانے کا الزام لگایا گیا۔ ذاکر کی تقاریر کو جنون پھیلانے والی قرار دیا گیا لیکن ذاکر نائیک کی زندگی میں ایک بڑی مصیبت کا دور اس وقت شروع ہوا جب سال 2016میں بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کے حملے میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ تفتیش کاروں کے مطابق گرفتار ہونے والے شدت پسندوں میں سے ایک نے بتایا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقاریر سے متاثر تھا۔ ذاکر نائیک نے ستمبر 2024 ء میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس بارے میں کہا تھا کہ’’ مجھ پر اس بنیاد پر الزام لگایا گیا کہ حملہ آوروں میں سے ایک نے فیس بک پر مجھے فالو کیا ہوا ہے‘‘۔ بعد میں ممبئی پولیس کی سپیشل برانچ نے اس معاملے کی جانچ کی۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد ذاکر نائیک کی تنظیم آئی آر ایف پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد ذاکر نائیک انڈیا چھوڑ کر ملائیشیا چلے گئی اور حکومت ہند نے ذاکر نائیک کو مفرور قرار دے دیا۔ 2019ء میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے دھماکوں میں 250افراد کی ہلاکت کے بعد بھی ذاکر نائیک کو مزید الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ 2021ء میں بھارتی وزارت داخلہ نے ذاکر نائیک کی اسلامک ریسرچ فائونڈیشن یا آئی آر ایف پر عائد پابندی کو پانچ سال کے لئے مزید بڑھا دیا۔ جبکہ مرکزی حکومت نے یو اے پی اے کے تحت سال 2016میں آئی آر ایف پر پابندی لگا دی تھی۔ مرکزی حکومت کی جانب سے آئی آر ایف پر پابندی عائد کرنے کے لئے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ یہ تنظیم ایسی سرگرمیوں میں شامل ہے جو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ اس سے ملک کے امن اور فرقہ وارانہ اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ذاکر نائیک ملک اور بیرون ملک مسلم نوجوانوں کو شدت پسند سرگرمیوں کے لئے اکسا رہے ہیں۔ اگست 2016میں اس وقت کے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کہا تھا کہ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر نائیک کے جماعت الدعوۃ، انڈین مجاہدین اور حزب المجاہدین جیسی انتہا پسند تنظیموں سے تعلقات ہیں۔ ذاکر نائیک کے خلاف انڈیا میں وارنٹ جاری ہیں۔ ذاکر پر نوجوانوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر اکسانے کا بھی الزام ہے۔
ذاکر نائیک 1965ء میں ممبئی کے علاقے ڈونگری میں پیدا ہوئے۔ ذاکر کے خاندان میں بہت سے لوگ ڈاکٹر تھے۔ ذاکر کے والد بھی ڈاکٹر تھے اور ان کے بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔
ذاکر نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری ہائی سکول سے حاصل کی۔ بعد میں ذاکر نے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔
1991 ء میں میڈیکل پریکٹس چھوڑنے کے بعد ذاکر نے اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اب اس فائونڈیشن اور اس کے تحت چلنے والے سکول کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ ذاکر نائیک کا پیس ٹی وی کا یوٹیوب چینل بھی انڈیا میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ ذاکر نائیک کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایسے کئی مواقع آئے جب ذاکر کی حوالگی سے متعلق خبریں آئیں۔ ملائیشیا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ جب ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم اگست میں انڈیا آئے تھے تو ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پی ایم مودی سے ملاقات میں ذاکر نائیک کی حوالگی سے متعلق معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ پی ایم مودی نے کئی سال پہلے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ میں کسی ایک شخص کے بارے میں نہیں بلکہ شدت پسندی کے جذبات کی بات کر رہا ہوں۔ کیا کسی بھی ٹھوس معاملے میں ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کسی شخص یا تنظیم نے کچھ ظلم کیا ہے یا غلط کیا ہے‘‘۔ بہرحال ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ دہشتگرد ہیں مگر ان کے لاکھوں فالوورز کی نظر میں وہ مبلغ ہیں۔