Column

سہولت کاروں پر گرفت کب؟

تحریر : سیدہ عنبر ین
بلوچستان پاکستان دشمن طاقتوں کا ہدف ہے، وہ اپنے آلہ کار گروپوں کو اسلحہ کے علاوہ مالی امداد باقاعدگی سے بہم پہنچاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پریس میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، پاکستان کے الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا میں اس پر صرف ان دنوں بات ہوتی ہے جب بلوچستان میں تخریب کاری کا کوئی بڑا واقعہ پیش آئے، چند روز اس کا چرچا رہتا ہے پھر سب اپنی ڈگر پر چلنے لگتے ہیں، کبھی ماما قدیر، کبھی ماہ رنگ بلوچ متحرک ہو تو میڈیا اس کی بڑھ چڑھ کر کوریج کرتا نظر آتا ہے، پھر نئے دن کے ساتھ اس کے موضوعات نئے ہوتے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اہم سیاسی شخصیات ٹی وی سکرینوں پر کم نظر آتی ہیں، ان کی دلچسپی کم ہو گئی ہے یا شاید وہ کسی ایک طرف واضح پوزیشن لیکر اپنی واضح شناخت نہیں بنانا چاہتے، اس طرز عمل سے واضع ہوتا ہے کہ انفرادی ترجیحات کیا ہیں اور کس تیزی سے بدل رہی ہیں۔ چند ماہ قبل بسوں سے اتار کر پنجاب کی شناخت رکھنے والوں کو چن چن کر قتل کیا گیا تو وزیراعلیٰ بلوچستان کے علاوہ کسی بلوچ لیڈر کی طرف سے تخریب کاروں کے خلاف کوئی بیان کوئی انٹرویو سامنے نہیں آیا، وزیراعلیٰ بلوچستان نے جب تخریب کار گروپوں اور خاندانوں کا ذکر کیا کہ کون کن کا بیٹا ہے اور کس ملک میں بیٹھ کر کیا کر رہا ہے تو انہوں نے ان شخصیات کا نام نہایت ادب سے لیا جو حیران کن تھا۔
ایک خودکش حملے میں پہلی مرتبہ ایک عورت نے اپنے آپ کو اڑا لیا، دو روز قبل ایک نوجوان بلوچ لڑکی عدیلہ نے تربت میں ایک پریس کانفرنس کی، جس میں اس نے بتایا کہ اس کا برتن واش کر کے کس طرح اسے مذموم سرگرمیوں میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، یہ پریس کانفرنس انہوں نے ہی منعقد کرائی ہے جو اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں دشمنوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ان کی کارروائیوں کا توڑ کرنے میں ملک اور اس کے باسیوں کی زندگی کو محفوظ بنانے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں، ملک دشمنوں سے ہم آہنگ طبقہ اسے طبقہ ایک جوابی کارروائی ثابت کرنے کی کوششوں میں زمین آسمان ایک کئے ہوئے ہے، ان کی ہر بات کی تان، احساس محرومی پر آ کر ٹوٹتی ہے جس میں اب زیادہ حقیقت نہیں ہے، پھر بھی اگر کہیں کچھ ہے تو اس کے ذمہ دار کراچی سے خیبر تک بسنے والے نہیں بلکہ کسی حد تک بلوچ لیڈر شپ بھی ہے، بلوچ لیڈر ممبران قومی اسمبلی اور ممبران سینیٹ سامنے آئیں اور بیان فرمائیں انہوں نے اپنے اپنے زمانہ اقتدار میں اپنے علاقے کیلئے ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے، سکول کالج ہسپتال، پینے کا پانی، ملازمتوں کے موقع مہیا کرنے کیلئے اب تک کیا کیا ہے اور ترقیاتی فنڈز کہاں خرچ کیے ہیں، وفاقی حکومت اور دفاع پاکستان کے ذمہ دار ارادے کے ترجمان نے متعدد مرتبہ اپنی تفصیلی پریس بریفنگ میں متعدد پراجیکٹس کا ذکر کیا ہے، یہ تمام تفصیلات تسلی بخش ہیں، کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔
تخریب کاری کے ہتھے چڑھنے والی عدیلہ بلوچ پریس کانفرنس کیلئے آئی تو اس کے والدین ہمراہ تھے، اس پریس کانفرنس کے بعد ایک اور پریس کانفرنس کا انتظار ہے، جس میں بتایا جائے کہ عدیلہ سے ملنے والی تفصیلات کی روشنی میں کون سے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کسی کو گرفتار کیا گیا ہے، کوئی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اسے ملک کے انداز اور ملک کے باہر کہاں کہاں سے مدد و سہولت مل رہی تھیں۔ مزید برآں کیا یہ وہی ملک ہے جس کی طرف سے تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے معاملے پر متعدد سیاسی شخصیات کے علاوہ ہمارے وزیر دفاع واضح الفاظ میں بیان دے چکے ہیں جبکہ انہی کی حکومت کی ترجیحات میں اسی پاکستان دشمن ملک کے ساتھ دوستی بڑھانے سرحدیں اور تجارت کھولنے کے معاملات پر بھی تیزی سے کام ہو رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان امریکہ کے دورے پر ہیں، جہاں وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوتے ہوئے پاکستانیوں کی ترجمانی کریں گے وہ یقیناً پاکستان کو درپیش چیلنجز کا ذکر کریں گے جن میں سرحدوں پر ہونے والے واقعات اور پاکستان کے اندر ہونے والے تخریب کاری کے واقعات کا ذکر ہونا چاہیے لیکن کیا وہ اس کے ذمہ دار کا نام لیکر اس کے کارنامے گنوائیں گے یا گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑ کر واپس آ جائیں گے، امکان تو اسی بات کا ہے اور ماضی کی پرفارمنس بھی یہی ہے کہ ہم دشمن کو ایک سایہ سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگتے رہنے کو اپنی پرفارمنس بتاتے اور جتلاتے رہتے ہیں نام لینے پر تیار نہیں ہوتے، اسے اس کی زبان میں جواب دینے سے کتراتے ہیں، وہ ہماری سرحد کے اندر بم گرا کر چلا جاتا ہے، ہم صرف اس کا دروازہ کھٹکھٹا کر واپس آنے کو اپنی بڑی کامیابی گردانتے ہیں، اس کا ہوائی جہاز گرا لیتے ہیں لیکن اس کے پائلٹ کو جذبہ خیر سگالی کیلئے فوراً عزت و اہتمام سے رہا کر دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر بہادری کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرے، یہ سہولت کرنے والے آج بھی نیک نام ہیں، انہیں اس کارکردگی کے صلے میں پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز دے دیا جائے ان کے اور ہمارے دشمن دونوں کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں گے، عدیلہ بلوچ کا برین مکمل طور پر واش نہ ہو سکا، شاید ڈیٹرجنٹ اعلیٰ کوالٹی کا نہ تھا یا اس کی مقدار کم تھی، ہر اعتبار سے ہماری خوش قسمتی لیکن دوسری طرف ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ ملک کے اہم عہدوں پر سیکڑوں ایسے افراد بیٹھے ہوئے ہیں جن کا برین مکمل طور پر واش ہوچکا ہے، یہ کبھی دشمن کے کس طرح ہتھے چڑھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی، وہ اپنے جسموں سے بارود باندھ کر خود کو اڑا لیتے تو ہمارا کچھ نقصان ضرور ہوتا لیکن کچھ تخریب کاروں سے نجات مل جاتی، انہوں نے ایسا کچھ نہ کیا، وہ سیانے نکلے، وہ پاکستان کی معاشی اقتصادی بنیادوں میں بارود بھرتے رہے، کسی کو خبر نہ ہوئی، ان پر نظر رکھنے والوں کی بینائی نے ساتھ نہ دیا یا ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، کوئی بروقت نہ بولا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدے ملک کو تباہ و برباد کر دیں گے، یہ معاہدے ہوتے رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ری نیو بھی ہوتے رہے، ملک کنگال ہو گیا، قوم کا ہر فرد بد حال ہو گیا، کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، ہر بات میں پاکستان کے مامے بننیں والے اس معاملے میں ہمارے مامے کیوں نہ بنے، آنکھیں موندے کیوں پڑے رہے، تخریب کار اپنا کام کرتے رہے ان کا ساتھ روکنے والے ان کے سہولت کار بنے رہے، دونوں قومی مجرم ہیں، ان سہولت کاروں پر گرفت کب ہوگی؟۔

جواب دیں

Back to top button