عطا تارڑ حکومتی ترجمانی کا حق حقیقی معنوں میں ادا کر رہے ہیں

تحریر : راجہ شاہد رشید
حاجی نواز رضا ایک منجھے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ہیں جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ان کا ایک ہاتھ سابق قائد حزب اختلاف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے ہاتھ میں ہوتا ہے جبکہ دوسرا ہاتھ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہوتا ہے، یہ ہُنر کسی اور کو نہیں آتا، بس ان ہی کو آتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ ان کا دایاں ہاتھ کس کے ہاتھ میں ہے اور بایاں ہاتھ کس کے ہاتھ میں ہے۔ موصوف گزشتہ دنوں اپنا تجزیہ دیتی ہوئے فرما رہے تھے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ سائے کی طرح وزیراعظم میاں شہباز شریف کے ساتھ رہتے ہیں، اپوزیشن کیمپ پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ عطا اللہ تارڑ سیاسی مخالفین کے لیے ’’ شمشیر برہنہ‘‘ ہیں اور وہ حکومت کی ترجمانی کا حق حقیقی معنوں میں ادا کر رہے ہیں۔ میرا اس تارڑ فیملی سے بڑا ہی پرانا خلوص و محبت و ہمدردی کا ایک تعارف و تعلق ہے، اس دور سے جب جسٹس ریٹائرڈ محمد رفیق تارڑ مرحوم صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوتے تھے، جناب عطاء اللہ تارڑ جی کے بارے میں میری یہ رائے رہی ہے کہ یہ بہت ہی بھولے بھالے بندے ہیں، سیدھے سادے انسان ہیں۔ میں نے کہیں یہ کہا یا لکھا تو نہیں ہے لیکن یہ سوچا ضرور تھا کہ پرویز رشید، محترمہ مریم اورنگزیب سمیت مسلم لیگ نون میں متعدد اور بھی اس میدان کے جانے مانے لوگوں کو چھوڑ کر عطا اللہ تارڑ بھائی کو نہ جانے کیوں عصر حاضر میں انتہائی اہم وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے مگر آج میں برادرم و محترم حاجی نواز رضا کی رائے سے صد فی صد متفق ہوں کہ واقعی موصوف منسٹر انتہائی محنت و لگن سے لگے ہیں اپنے کام میں اور وہ یہ ثابت بھی کر رہے ہیں کہ ان حالات میں ان سے بہتر منسٹر انفارمیشن کوئی کیسے ہو سکتا ہے۔ میری ان سے بصد تعظیم و تکریم و احترام التماس ہے کہ خدارا اپنے ریڈیو پاکستان کی بھی خبر لیں، خالی خبر ہی نہ لیں بلکہ اس بے سہارے و مظلوم ادارے پر خصوصی توجہ و شفقت فرمائیں، بجٹ بھی بڑھائیں، کیونکہ ایک مدت سے ریڈیو سے منسلک لوگ پریشان حال و فکر مند ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا، کیا مستقبل ہوگا، اُوپر بیٹھے کرتا دھرتائوں کی کھال کھینچیں اور نچلے طبقے کی دلجوئی فرمائیں، کیونکہ ریڈیو پاکستان کو اور اس سے منسلک لوگوں کو آپ کی کرم گستری اور شفقت فرمائی کی اشد ضرورت ہے۔ ہر سٹیشن کے ہیڈ کی کلاس لیں، بگڑے بچوں کا قبلہ درست کریں۔ اگر آپ نے کوئی نوٹس نہ لیا تو پھر بھی میں باز آنے والا ’’ پُتر‘‘ ہی نہیں ہوں میں، آپ کے پی ایم تک بآسانی پہنچ سکتا ہوں، ان کے آفس ہی نہیں گھر تک بھی دستک دے سکتا ہوں۔ میں جگ بیتیاں نہیں بلکہ تن بیتیاں بتلانے جا رہا ہوں کہ عنقریب اگر میں کسی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہوا تو یقینا کسی ٹی وی چینل سے بحیثیت اینکر پرسن و تجزیہ کار ضرور منسلک ہو جائوں گا ان شاء اللہ۔ انہی سوچ سلسلوں میں مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ کچھ عرصہ میں بطور ریڈیو کمپیئر کوئی کام پروگرام کر لوں کیونکہ ریڈیو رگڑے کھانے والا کھلاڑی کبھی کسی میدان میں ہارتا نہیں ہے، الغرض میں نے اس نیت کے تحت ریڈیو راولپنڈی و اسلام آباد کے تین بڑوں کو خطوط بھی لکھے، لیکن ان متکبر لوگوں نے جواب تک دیا نہ نوٹس لیا۔ میری رائے میں ریڈیو آفیسرز و پروڈیوسرز کو ایک اخبار، ٹی وی رپورٹر کی مانند معاشرے سے چھان بین کر کے نیارا اور پیارا، اچھوتا و منفرد آئیڈیا و ٹیلنٹ سامنے لانا چاہیے، لیکن انہوں نے شاید پراکرت و سنسکرت کے دور کے کوئی خدمتگار اور تابعدار بٹھا رکھے ہیں، جو فون سفارشوں سے سدا بہار بنے بیٹھے ہیں۔ جن لوگوں کی اچھی شہرت و ساکھ کے ساتھ ساتھ سماج میں کوئی نام کام مقام بھی ہو انہیں ضرور لینا چاہیے، بلکہ بسم اللہ کر کے قبولنا چاہیے، ہر شعبہ ہائے زندگی میں اور ہر ادارے میں تبدل و ارتقا کا عمل لازم و ملزوم ہوتا ہے اور یقینا نئے اور محنتی لوگ ہی اداروں کی عزت و عظمت اور ترقی و مضبوطی کا ستون ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا ابھی اعلان تقرری ہی ہوا ہے تو عسکریت کے ماہرین و تجزیہ کار، سیاست کے سالار اور حکومت و اپوزیشن کے سمجھدار سبھی اس اقدام کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ نئے ڈی جی ISIلیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک ایک انتہائی پروفیشنل سولجر ہیں، جن کا شمار پاک فوج کے بہترین آفیسرز میں ہوتا ہے۔ ان کے والد گرامی لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک فوج میں جنرل جی ایم ملک کے نام سے مشہور تھے، جنہوں نے پاک آرمی کی مشکل ترین کور 10کور کو کمانڈ کیا تھا۔ جنرل جی ایم ملک سفید بالوں والے ایک بہت ہی سمارٹ اور گریس فل انسان تھے، ان کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے دور میں اپنے انڈر کمانڈ لوگوں کی پروفیشنل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ مذہبی ٹریننگ پر بھی بہت زور دیا۔ آفیسرز اور جوانوں کے لیے اس زمانے میں تعمیر کردار کیڈر کرائے جاتے تھے، جس میں روز مرہ کے مذہبی مسائل کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا، جنرل جی ایم ملک صاحب کا مذہب پر بہت زیادہ فوکس ہوتا تھا۔ جنرل محمد عاصم ملک کی شہرت بھی فوج میں بہت اچھی ہے اور وہ اپنے والد محترم کی روایات کو لے کر چل رہے ہیں۔ نہ صرف حکومت بلکہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کی بحیثیت ڈی جی ISI تقرری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی تحفظات نہیں بلکہ ہمیں ان سے بہتری کی توقعات ہیں ۔ اس بار ڈی جی ISIکی تقرری کا اعلان پی ٹی وی کے کے ذریعے کیا گیا جبکہ ماضی میں ایسے اعلانات PMآفس یا ISPRسے ہی کیے جاتے تھے۔ گزشتہ تقرری پہ سول ملٹری اختلاف کُھل سامنے آگیا تھا، اس وقت کے پی ایم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم سے مشاورتی نہیں کی گئی، درحقیقت وہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ہی اس منصب پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک اس سے قبل بلوچستان میں انفینٹری ڈویژن اور وزیر ستان میں انفینٹری بریگیڈ بھی کمانڈ کر چکے ہیں، وہ کاکول اکیڈمی سے پی ایم اے لانگ کورس میں اعزازی شمشیر بھی حاصل کر چکے ہیں۔ وہ اس وقت جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ایڈجوٹنٹ جنرل فوج میں نظم و ضبط کو یقینی بناتا ہے، اسی لیے وہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف جاری کورٹ مارشل کی کارروائی کی نگرانی بھی کر رہے ہوں گے۔ انہیں اکتوبر 2021ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی تھی اور تب سے وہ جی ایچ کیو میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک چیف انسٹرکٹر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد اور انسٹرکٹر کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم فورٹ لیون ورتھ امریکہ اور رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز لندن سے گریجویٹ بھی ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے پہلے ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ میں بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ قوم اُمید کرتی ہے کہ ان کے دور میں دنیا کی نمبر ون ایجنسی ان شاء اللہ مزید ترقی کرے گی اور کامرانیاں سمیٹے گی اور ملک و قوم کی ترقی ممکن ہوگی ۔ میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ
ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے