
سی ایم رضوان
پاکستان کی سر زمین پر رہتے دنیا بھر کی سیاست، مذہبی افکار اور سیاسی معاشرت کو علم و استدلال، جدید سوچ اور انقلابی اسلامی فکر سے آشنا و متاثر کر دینے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی آج ہی کے دن یعنی 25ستمبر 1903ء کو حیدر آباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ 1906تا 1913ء ابتدائی تعلیم کے مراحل سے گزرے۔ 1918ء میں صرف پندرہ سال کی عمر میں صحافت کا آغاز ’’ اخبار مدینہ‘‘ سے کیا۔ 1920ء میں سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ 1925ء میں ’’ الجمعی دہلی‘‘ کی ادارت سنبھالی، 1932ء میں حیدر آباد دکن سے ’’ ماہنامہ ترجمان القرآن‘‘ کا اجرا کیا۔ 26اگست 1941ء کو لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ 11مئی 1953ء کو اس وقت کی ایک فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی۔ 1963ء میں لاہور میں مولانا سید مودودی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ 1967ء اور بعد میں بحالی جمہوریت کی تحریک کا حصہ رہے، بالآخر 22ستمبر 1979ء کو وفات پائی۔
آج پاکستان میں جمہوریت کے پچھلے چند ادوار کے ٹوٹے پھوٹے تسلسل کے بعد بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ جمہوریت کے نام پر ملک کی آبادی فکری لحاظ سے دو واضح گروہوں میں منقسم ہو چکی ہے دلچسپ امر یہ ہے دونوں گروہ سطحی، مفاداتی اور بے بنیاد نظریات و خیالات کے قائل اور ایک تیسری مفاد پرست قوت کی ریشہ دوانیوں پر مبنی پالیسی کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں آج اس جدید سوچ اور اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے خواہاں اور بیسویں صدی میں عالم اسلام کے سب سے بڑے تحریکی رہنما و عالم دین مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کے افکار کا تذکرہ نہایت فائدہ مند ہے کہ انہوں نے انتہائی باریک بینی سے اسلامی سیاسیات کا مطالعہ کیا اور مغربی جمہوریت کے جبری طوفان کے آگے فکری بند باندھنے کی قابل ذکر اور موثر کوشش کی۔ سابقہ سالوں میں سید مودودی پر بہت زیادہ تحقیقی کام بھی ہوا ہے، اس کام کی مجموعی نوعیت اور پاکستانی معاشرے کی موجودہ سیاسی حالت کو اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا ہر گز بیجا نہ ہو گا کہ پاکستان میں فکر مودودی کی پیروی کر کے فی زمانہ مغربی جمہوریت کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے اور اسلام کے قریب ترین شورائی نظام کے تابع سیاسی اصلاحات نافذ کر
کے اس ملک کی ڈوبتی کشتی کو بھی کنارے کی جانب لایا جا سکتا ہے۔ لندن میں ایک سوال کے جواب میں سید مودودی نے کہا تھا کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مستحکم اور پائیدار نظام حکومت قائم نہیں کیا جا سکتا۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ان ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس لئے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ ہی دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔ اس قدر واضح ہدایات کے باوجود سید مودودی پر شدت پسندی کا الزام افسوسناک ہے۔ سید مودودی کے نزدیک معاشرہ میں تبدیلی کے لئے آئینی اور دستوری و جمہوری طریق کار اختیار کیا جائے گا، مولانا کے نزدیک جمہوریت اسلام کے تصور شوریٰ کے قریب ہے، وہ لکھتے ہیں کہ یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (Theocracy) کے برعکس ایک جمہوریت بنا دیتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اہل مغرب جس چیز کو لفظ جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں اس میں جمہور کو حاکمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے اور ہم مسلمان جسے جمہوریت کہتے ہیں اس میں جمہور صرف خلافت کے حامل ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لئے ان کی جمہوریت میں بھی عام رائے دہندوں کی رائے سے حکومت بنتی اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختار مطلق ہے اور ہمارے تصور کے مطابق ’’ جمہوری خلافت اللہ کے قانون کی پابند ہے‘‘۔ مولانا مودودی کا فکر بنیادی طور پر شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار و ثمرات کا انعکاس ضرور ہے البتہ اس میں ندرت بھی ہے بلکہ نہایت ہی اہم اضافہ بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے رائے عامہ کی ہمواری اور اس کی فکری و فلسفیانہ بنیادوں کی تشریح و توضیح کی ہے۔ سید مودودی نے دلائل قرآن وسنت سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی ریاست کا قیام ایک دینی فریضہ ہے۔ سید مودودی
اپنی کتاب ’’ اسلامی ریاست‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اگر وہ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دیں اور اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کا فیصلہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے مطابق کریں۔ اسلامی ریاست اور اسلامی دستور کے مطالبے کی پشت پر دراصل یہی احساس کار فرما ہے کہ اگر مسلمان خدا کے قانون کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا دعوائے اسلام ہی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ حقیت ہے جس پر پورا قرآن دلیل ہے۔ مولانا اسلامی ریاست کی ضرورت پر قرآن کریم کی روشنی میں چار دلائل دیتے ہیں۔ سورہ آل عمران آیت 26کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے لہٰذا خلق بھی اسی کی اور امر بھی اسی کا۔ سورہ النساء آیت 60سے ثابت کرتے ہیں کہ قانون سازی کا حق صرف اللہ رب العزت کو ہے، سورہ ص آیت 26کے تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے نزدیک صحیح حکومت اور صحیح عدالت صرف وہ ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق چلے۔ اسی طرح وہ سورہ النساء آیت 115کے تحت کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک وہ حکومت باغی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں۔ سید مودودی کے اسی تصور کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید مودودی لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب رہے کہ مذہب زندگی کا ضمیمہ نہیں، مذہب کو تہذیب و تمدن اور سماج سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ اسلامی حکومت کی اہمیت پر باقی علماء نے بھی زور دیا ہے لیکن اس سلسلے میں وہ طریقہ کار نہیں بتایا کہ ریاست کیسے قائم ہوگی، اس کے برعکس سید مودودی نے ریاست قائم کرنے کا عملی طریقہ بتایا۔ دور جدید میں اسلامی ریاست کی تشکیل کا عمل اور اس کا مخصوص منہج یا طریق کار وہ موضوع ہے جس کی فاضلانہ تفہیم اور اس کی عملی تفسیر میں سید مودودی کو دوسرے مفکرین اور علماء پر سبقت اور امتیاز حاصل ہے۔
اسلامی حکومت کے قیام کی صحیح ترتیب سید مودودی کے نزدیک یہ ہے کہ پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے کیونکہ اسلام کے احکام و قوانین اوپر سے مسلط نہیں کئے جا سکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ پیدا کیا جانا ضروری ہے۔ بلاشبہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کئے جا سکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ سید مودودی جمہوریت کے ناقد رہے ہیں لیکن وہ موجودہ دور میں جمہوری طریقے سے ہی حکومت حاصل کرنے کے قائل تھے، زیر زمین سرگرمیوں، احتجاج کی پالسی کے برعکس وہ تعمیری ذرائع استعمال کرنے کے قائل تھے، انہیں یہ معلوم تھا یہ راستہ دشوار اور لمبا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کسی بھی تشدد کے سخت ناقد تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ دشمن کتنا بھی ظلم کرے پھر بھی خفیہ طریقے سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے نزدیک سیاست کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، سید مودودی کا ماننا تھا کہ دین اسلام فطری دین ہے لہٰذا بہت سارے معاملات میں لچک دی گئی ہے۔ سید کے ہاں مرعوبیت بالکل نہیں تھی۔ وہ اسلامی نظام سیاست کے ساتھ دوسرے نظاموں کی پیوند کاری کے سخت خلاف تھے۔ بظاہر ان کی سیاسی فکر فی زمانہ مغربی اداروں کے پس منظر میں تشکیل پاتی نظر آتی ہے کیونکہ حکومت کی مشینری اور اس کے مختلف اعضا کے درمیان تعلق، حدود و قیود کا نظام، قانون کی تدوین، ترکیز اور تنفیذ، ریاست کی ماہیت، مقصد، نظام کار اور اصولِ حکمرانی وغیرہ کے تمام تصورات اور اصطلاحات جدید فکر ہی سے مستعار ہیں مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس سے سیّد مودودی کی ٹھیٹھ اسلامی فکر ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی بلکہ تقریب فہم کی خاطر انہوں نے جدید لب ولہجہ اور اسلوب میں قرآن وسنت کی سیاسی تعلیمات پیش کی ہیں۔
سید مودودی کی سیاسی فکر میں ارتقاء بھی ہوا، مثلاً ایک زمانے میں وہ خلیفہ یا صدر کے ویٹو کے قائل
تھے لیکن بعد میں ان کی رائے یہ بنی کہ صدر یا خلیفہ مجلس شوریٰ کے فیصلوں کے آگے ویٹو نہیں کر سکتا۔ سید مودودی کی سیاسی فکر بتدریج ترقی کرتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی ریاست میں صدر ریاست کے حقِ استرداد کے سلسلے میں اگرچہ وہ اصولی طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی قطعی حکم موجود نہیں ہے۔ البتہ خلافت راشدہ کے تعامل سے علمائے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظم ریاست کا اصل ذمہ دار صدر ( چیف ایگزیکٹو) ریاست ہے اور وہ اہل الحل و العقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے پر ہی عمل کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’’ ویٹو‘‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم آگے چل کر وہ اس بات کی بھی صراحت کرتے ہیں کہ اس پر عمل کرنا خلافت راشدہ کے اسلامی معاشرے ہی میں ممکن ہے اور یہ کہ اگر شوریٰ کا طرز اور اس کی روح اور اہل شوریٰ کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو جو خلافت راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں تو پھر اس سے بہتر کوئی طریق کار نہیں ہے جو وہاں اختیار کیا گیا۔ اس ( خلافت راشدہ) کے طریق کار کو اگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے جائیں تو زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلس شوریٰ میں اگر صدر ریاست اور ارکان مجلس اپنی اپنی رائے پر اَڑ جائیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصواب عامہ (Referendum)کروا لیا جائے، پھر جس کی رائے کو بھی رائے عامہ رد کر دے وہ مستعفی ہو جائے لیکن جب تک ہمارے لئے اپنے ملک میں اس روح اور اس ذہنیت اور اس طرز کی مجلس شوریٰ بنانا ممکن نہیں ہے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقننہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کر دیں۔ الغرض سید مودودی کی سیاسی فکر اور عصری معنویت کا خلاصہ یہ ہے کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مستحکم اور پائیدار نظام حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ان ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لئے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔ یہی آج ہمارے ملک کا اہم اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔