پاک روس تعلقات، درست پیشرفت

پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چند ایک ممالک کو چھوڑ کر وطن عزیز کے سبھی کے ساتھ مثالی اور دوستانہ تعلقات ہیں اور باہمی تعاون کے سلسلے دراز ہیں۔ دُنیا بھر میں پاکستان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں امن و امان کے لیے پاکستانی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امسال عام انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی بہت سے ممالک کے دورے کیے اور اُن کے ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے عظیم معاہدات کو حتمی شکل دی۔ شہباز شریف ملک میں عظیم سرمایہ کاریاں لانے کے لیے ابھی بھی کوشاں دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کا مشن ملکی معیشت کو مستحکم اور مضبوط بنانا ہے اور اس حوالے سے وہ شب و روز کوشاں رہتے ہیں۔ اُن کی کوششیں ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہیں اور اُن کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے مثبت نتائج بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کئی معاملات میں حالات بہتر رُخ اختیار کررہے ہیں۔ خصوصی طور پر مہنگائی سنگل ڈیجیٹ پر آگئی ہے۔ شرح سود میں خاطرخواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پچھلی 6سال کے دوران پہلی بار عوام کی حقیقی اشک شوئی ہوتی نظر آرہی ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات خاصے خوش گوار اور دیرینہ ہیں۔ یہ کچھ سال کی بات نہیں، یہ تعلقات کئی عشروں پُرانے ہیں۔ گو بعض ادوار میں یہ سردمہری کا شکار بھی رہے ہیں، لیکن پھر ان تعلقات میں گہرائی اور مضبوطی بھی دیکھی گئی۔ ماضی میں روس کے ساتھ پاکستان کئی معاہدات سے جڑا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں روس اور پاکستان خاصے قریب آئے۔ سستے تیل کی خریداری سمیت روس کے ساتھ انتہائی اہم معاہدات کیے گئے تھے۔ گزشتہ روز روس کے نائب وزیراعظم پاکستان کے اہم دورے پر آئے اور پاکستانی ہم منصب کے ساتھ اہم پریس کانفرنس کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات درست میں گامزن ہیں اور توانائی کے شعبے میں تعاون آگے بڑھا جائے گا۔ اسلام آباد میں نائب وزرائے اعظم پاکستان اور روس نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور اس موقع پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے لیے پاکستان روس کا شکر گزار ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان اور روس کا تعاون جاری ہے، پاکستان اور روس کے تعلقات درست سمت میں جا رہے ہیں اور آج کی ملاقات میں ڈپٹی وزیراعظم روس سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باہمی دلچسپی کے امور جس میں تجارت، معیشت پر بات چیت کی گئی ہے اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کو بھی آگے بڑھایا جائے گا۔ روس کے نائب وزیراعظم الیکسی ورچوک نے کہا کہ تجارت، معیشت اور کلچرل تعلقات مضبوط کریں گے، تفصیلی بات چیت ہوئی ہے کہ روس پاکستان کی معیشت میں کیسے مدد کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ملاقات میں بزنس اور عوامی رابطوں پر بھی بات چیت کی گئی ہے، روس کے وزیراعظم کی ایس سی او میں شرکت متوقع ہے۔ روسی نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روس رواں برس برکس کی میزبانی کر رہا ہے، ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان نے برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کیا ہے، ہمارے پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں، اتفاق رائے سے پاکستان رکن بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھی برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کیا ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ برکس کی رکنیت کے لیے ایک طریقہ کار ہے، طریقہ کار کے تحت ہی پاکستان برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کررہا ہے، تمام رکن ممالک کی اتفاق رائے سے ہی حمایت ملتی ہے۔روس کے نائب وزیراعظم کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس موقع پر انتہائی خوش گوار ماحول دیکھنے میں آیا۔ دونوں ممالک کے نائب وزرائے اعظم نے انتہائی اہم پریس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے روسی تعاون ہر لحاظ سے قابل قدر ہے اور پاکستان اور اس کے عوام اس پر روس کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ روس کے تعاون سے پاکستان کی معیشت بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ حالات بہتر ہوں گے۔ صورت حال موافق ہوگی۔ مختلف شعبہ جات میں روس کی جانب سے کیا جانے والا تعاون مفید ثابت ہوگا۔ برکس کی رکنیت ملنے سے پاکستان کے لیے عالمی منڈی کے مزید دریچے وا ہوں گے اور یہ پاکستان کے حق میں بہتر رہے گی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان مختلف ممالک کے ساتھ مختلف معاہدات کے تحت تجارت، معیشت اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر سُو کامیابی اُس کا مقدر بنے گی۔ پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ان وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو تمام تر دلدر دُور ہوسکتے ہیں۔ ناصرف قرضوں کے پہاڑ سے نجات مل سکتی ہے بلکہ ملک و قوم ترقی و خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن بھی ہوسکتے ہیں۔ قرض سے مسائل حل کرنے کے بجائے وسائل پر تمام تر انحصار کی پالیسی ملک و قوم کے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔
بلوچستان: گھوسٹ اساتذہ کیخلاف بڑی کارروائی
تعلیم کو ترقی کا زینہ قرار دیا جاتا ہے، جن قوموں نے تعلیم کو اوّلیت دی اور اس میں معیار کو قائم رکھا، اپنے طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں ذرا بھی غیر ذمے داری اور کوتاہی نہیں برتی، وہی قومیں آج بین الاقوامی سطح پر ترقی و کامرانی کی معراج پر پہنچی دِکھائی دیتی ہیں اور جن ممالک میں تعلیم کو فوقیت نہ دی گئی، اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے، تعلیم کے زوال کو کمال میں بدلنے کے لیے چنداں کوششیں نہ کیں، وہ آج ناصرف زوال کا شکار ہیں، بلکہ بدترین حالات کو پہنچے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہے، جہاں تعلیم کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ تعلیم کی بہتری کے لیے سنجیدہ کوششوں کا فقدان رہا۔ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہ کیے جاسکے، محض اس حوالی سے بیانات تک ہی محدود رہا گیا۔ نتیجتاً حالات مزید بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ پورے ملک میں ناصرف گھوسٹ اسکولوں کی بھرمار ہے بلکہ گھوسٹ اساتذہ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو گھر بیٹھے ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہیں بٹورتے ہیں اور علم کی شمعیں جلانے کے بجائے اس کو بجھانے میں ان کا انتہائی گھنائونا کردار ہے۔ موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، تعلیم کی بہتری کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 2کروڑ 60لاکھ بچوں کو اسکول میں لانے کا حکومتی ہدف ہے۔ تعلیم معیار کو بہتر بنانا اُس کا مشن ہے۔ ان شاء اللہ یہ ضرور کامیاب ہوگی۔ گھوسٹ اساتذہ ہر لحاظ سے لعنت و ملامت کے مستحق ہیں۔ ان کا ملک عزیز سے مکمل صفایا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان میں بڑی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اور تین سال سے غیر حاضر 114اساتذہ کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں تین سال سے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ محکمہ تعلیم کے مطابق 2021سے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی گئی، جس کے تحت114 غیر حاضر اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم نے بتایا کہ 998غیر حاضر اساتذہ کو شوکاز اور 42کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں جبکہ صوبے کے 78غیرحاضر اساتذہ کو معطل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سندھ اور بلوچستان کے محکمہ تعلیم کی جانب سے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اقدام ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ ناصرف ایسے اساتذہ کو ملک بھر میں ملازمتوں سے نکالا جائے، بلکہ ان کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے انہیں نشانِ عبرت بھی بنایا جائے کہ آئندہ کوئی تعلیم کے نام پر ایسے سنگین کھلواڑ کا مرتکب نہ ہوسکے۔ پورے ملک میں گھوسٹ اساتذہ کے خلاف سخت کریک ڈائون وقت کی اہم ضرورت ہے۔