Editorial

پاک فوج کی جوابی کارروائی، 16طالبان ہلاک

1979ء میں سوویت یونین جب افغانستان پر حملہ آور ہوا تو پاکستان اور اس کے عوام نے ناصرف لاکھوں افغان باشندوں کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کیے، بلکہ افغانستان کی ہر ممکن مدد اور تعاون بھی جاری رکھا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ لاکھوں افغان شہریوں کو ملک کے طول و عرض میں سر چھپانے کے لیے جگہ دی۔ انہیں تمام شعبہ جات میں مواقع دئیے۔ کاروبار، روزگار، تعلیم غرض انہیں چار عشروں سے زائد عرصے تک بھرپور میزبانی میں عزت و توقیر کے ساتھ رکھا۔ ان کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار جمائے اور اربوں کی جائیدادیں بنائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مہمان اپنے ملک میں حالات بہتر ہوجانے کے بعد لوٹ جاتے، لیکن انہوں نے یہاں سے جانا گوارا نہیں کیا۔ پاکستان اور اس کے وسائل پر بدترین بوجھ بنے رہے۔ میزبان کی مشکلات بڑھتی رہیں، لیکن انہیں اس کی چنداں پروا نہ تھی۔ وہ تو بھلا ہو نگراں حکومت کا جس نے غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا بڑا قدم اُٹھایا اور اب تک لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن اپنے ممالک کو واپس بھیجے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو افغانستان سے امریکا اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد سے وطن عزیز میں دہشت گردی کے عفریت نے پھر سے سر اُٹھانا شروع کیا ہے۔ اس کے لیے افغانستان کی سرزمین کا باقاعدگی سے استعمال ہورہا ہے۔ پاکستان اس پر کئی بار پڑوسی ملک کے ساتھ معاملہ اُٹھا چکا ہے، بارہا احتجاج ریکارڈ کراچکا، لیکن افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے اس معاملے کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ہر بار غیر منطقی باتیں کی گئیں۔ افغان سرحد سے پاکستان پر حملے کیے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں، لیکن پڑوسی کی بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس پر پاکستان نے بے پناہ احسانات کیے، ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا، افغانستان میں امن و امان کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ ملک پاکستان کی اُس کے لیے دی گئی قربانیوں کو یکسر فراموش کرچکا ہے۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے مسلسل اُس کی سرزمین استعمال ہورہی ہے اور وہ اس معاملے میں انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ گزشتہ روز بھی افغان سرحد سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا گیا، پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی میں
16 دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان سرحد سے طالبان کی جانب سے پاکستانی فوجی چوکیوں پر فائرنگ کی گئی، جوابی فائرنگ سے اب تک 16طالبان ہلاک اور 27زخمی ہوچکے ہیں جب کہ طالبان کے دو ٹینک بھی تباہ ہوگئے۔ سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر بلااشتعال جارحیت کی گئی، جس کا منہ توڑ جواب دیا گیا، 7ستمبر کی صبح سے افغان طالبان کی جانب سے پاک افغان سرحد سے متصل افغان علاقے پلوسین سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر بڑے ہتھیاروں سے بلااشتعال فائرنگ شروع کی گئی۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ افغان سائیڈ سے 8اور 9ستمبر کی شام تک جاری رہا، پاکستان آرمی کی جانب سے افغان سائیڈ سے کی گئی فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا گیا، پاکستانی فوج کی جوابی فائرنگ سے افغان طالبان کے بھاری نقصان کی اطلاعات ہیں اور اب تک 16افغان طالبان ہلاک جب کہ 27زخمی ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ افغان طالبان کے دو ٹینک بھی تباہ کر دئیے گئے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر کسی بھی قسم کی بلااشتعال جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اس منہ توڑ جوابی کارروائی پر پاک آرمی مبارک باد اور تحسین کی مستحق ہے۔ پاکستان کو جب بھی دشمن نے میلی آنکھ اُٹھاکر دیکھا تو ہماری بہادر افواج نے اس کا کرارا جواب دیا۔ پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے ہماری افواج ہر دم تیار و چوکس ہیں۔ وطن کی حفاظت کے لیے جان دینے کا جذبہ ہر افسر اور جوان کے دل میں موجزن ہے۔ پاکستانی افواج کا شمار دُنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ ملکی سلامتی کا ضامن ادارہ اپنی ذمے داری احسن انداز میں نبھارہا ہے۔ ایک پڑوسی پچھلے 77برس سے تاک میں ہے، لیکن ہر بار ہماری افواج نے اُس کے ارمان خاک میں ملائے ہیں اور آئندہ بھی اُس کے ہاتھ نامُرادی اور ناکامی ہی آئے گی۔ پاکستان تاقیامت قائم رہے گا اور خطے میں چودھراہٹ کا بھارتی خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہیں اور ایسی مذموم کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کا حق پاکستان محفوظ رکھتا ہے۔ افغانستان کا ہر موقع پر پاکستان نے ساتھ دیا، اُس کی جانب سے کبھی وطن عزیز کی خدمات کی تحسین تک نہیں کی گئی۔ اُلٹا اُس کی جانب سے وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کے لیے دہشت گردوں کی سہولت کاری کی جارہی ہے۔ محسنوں کے ساتھ ایسا رویہ اور سلوک تو اختیار نہیں کیا جاتا۔ افغانستان اپنے طرز عمل پر غور کرے کہ اُس نے اپنے محسن کے احسانات کے بدلے کیا لوٹایا ہے۔ افغانستان اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
انورٹر پنکھے دینے کا احسن فیصلہ
کفایت شعاری اختیار کرکے ناصرف بڑے اخراجات سے محفوظ رہا جاسکتا بلکہ یہ بچت کا باعث بھی ثابت ہوتی ہے۔ ملک بھر میں اس وقت بجلی کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، جس کے بلوں کی ادائیگی غریبوں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہورہی ہے۔ گو وزیراعظم نے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بڑا اقدام کیا، پنجاب میں 500یونٹس تک کے بجلی صارفین کو 14روپے فی یونٹ کی رعایت دی گئی، لیکن اس کے باوجود عوام النّاس مہنگی بجلی سے خاصے پریشان ہیں۔ شہریوں کی جانب سے بجلی کی بچت کے لیے طریقے آزمائے جارہے ہیں۔ کم بجلی استعمال کرنے والے پنکھے، بلب وغیرہ نصب کروائے جارہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اب بھی ملک کے اکثریتی گھروں میں زائد بجلی پر چلنے والے پنکھے نصب ہیں، جن سے ناصرف بجلی یونٹس تیزی سے بڑھتے بلکہ یہ خاصے بھاری بل کا باعث بھی بنتے ہیں۔ عوام کا درد دل میں محسوس کرنے والے حکمراں اُن کی آسانی کی وجہ بنتے ہیں۔ موجودہ مرکزی حکومت نے غریبوں پر بجلی بار میں کمی کے لیے بڑا قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت کا بجلی کی بچت کے لیے میگا پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ، ملک میں 8کروڑ انورٹر پنکھے لگائے جائیں گے۔ 8کروڑ پنکھے تبدیل کرنے سے سالانہ 5ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی، ملک بھر میں 100واٹ بجلی لینے والے کو 50واٹ کے پنکھوں سے تبدیل کر دیا جائے گا، صارفین کو 15ہزار روپے فی پنکھا کے حساب سے اقساط کی صورت میں ادائیگی ہوگی۔ صارفین انورٹر فین لینے کے لیے آن لائن پورٹل پر رجسٹریشن کروائیں گے، کامیاب ہونے والے صارفین کو 12اقساط کی صورت میں پنکھے ئدیے جائیں گے، پنکھوں کی تبدیلی سے سالانہ 5ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی۔ معاہدے کے تحت پنکھوں کی قیمت بلوں کی صورت وصول کی جائے گی، حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنے والی کمپنیاں خود آکر پنکھوں کی تنصیب کریں گی، نیشنل انرجی ایفیشینسی اینڈ کنزرویشن ایجنسی، کمرشل بینکس اور ڈسکوز کے درمیان معاہدہ ہوگا۔ انورٹر پنکھے حکومت قسطوں پر فراہم کرے گی، انورٹر فین لینے کے لیے صارفین آن لائن پورٹل پر رجسٹریشن کروائیں گے۔ عوام کو 8کروڑ انورٹر پنکھے دینے کا فیصلہ انتہائی مستحسن ہے۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ حکومت اس فیصلے پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ اس سے غریبوں پر بجلی کا بوجھ خاصی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اُن کی خاصی اشک شوئی ہوسکے گی۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button