ایم اے رئوف بھی چل بسے

امتیاز عاصی
موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ہم سب نے جلد یا بدیر اس جہان فانی سے چلے جانا ہے۔ بقول میر انیس جب احمد مرسل نہ رہے۔ موت ایسی حقیقت کو ہم سمجھ لیں تو معاشرے کی بہت سی ناہمواریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ انسان دنیا میں اچھے عمل کرتا ہے ان کا اجر ہمیشہ ملتا رہتا ہے۔ جو لوگ مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ رہتے ہیں۔ اچھا عمل وہی ہے جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ نبی آخرالزمانؐ نے تعلیم پر زور دیا ہے تعلیم ایسا زیور ہے جسے کوئی چھن نہیں سکتا۔ جو لوگ مخلوق خدا کو تعلیم سے آراستہ کرنا زندگی کا مشن سمجھتے ہیں وہ اگلی دنیا میں اپنے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ تعلیم سے قومیں بنتی ہیں جن اقوام نے حصول تعلیم میں ترقی کی وہی آج دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ جناب ایم اے رئوف کا شمار انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مخلوق خد کو تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے یو جی سی جانے کے بعد ہمدرد یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور نوجوان نسل کو تعلیم دینے کا سفر جاری رکھا۔ اسی کی دہائی کی بات ہے میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ سرگودھا سے تبدیل ہو کر راولپنڈی بورڈ آیا تو میری ایم اے رئوف مرحوم سے پہلی ملاقات راولپنڈی بورڈ کے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر یاسین ظفر کے دفتر میں ہوئی۔ جناب ایم اے رئوف قدآور اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ کریم نے انہیں انتظامی صلاحیتوں سے مالامال رکھا تھا۔ جب کبھی مجھے فون کرتے امتیاز جی کہہ کر پکارا کرتے تھے جو ان کے اعلیٰ اخلاق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ رئوف صاحب سے برادرانہ تعلقات ہوگئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں جناب ایم اے رئوف سیلف میڈ انسان تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز سی بی آر ( ایف بی آر ) سے کیا جس کے چند سال بعد وہ قائد اعظم یونیورسٹی چلے گئے اور کنٹرولر امتحانات کے عہدے پر فائز رہے بعد ازاں آپ کی انتظامی صلاحیتوں کے پیش نظر ہائر ایجوکیشن کمیشن ( پرانا نام یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ۔1999ء میں آپ نے دی یونیورسٹی آف لاہور قائم کی جس میں عہد حاضر کے تمام شعبوں میں طلبہ اور طالبات کی بہت بڑی تعداد علم کی دولت سے استفادہ کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کے ساتھ جناب ایم اے رئوف نے ٹیچنگ ہسپتال کی بنیاد رکھی جس میں عہد حاضر کے تمام شعبہ جات میں طلبہ اور طالبات تعلیم کے زیور سے روشناس ہو رہے ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیر اہتمام ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس اور پوسٹ گریجویشن میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ راقم اپنی طویل قید سے رہا ہوا، ایک روز راول جنرل اینڈ ڈینٹل ہسپتال جو وفاقی دارالحکومت کا معروف ٹیچنگ ہسپتال ہے کے چیئرمین جناب خاقان وحید خواجہ کے دفتر میں بیٹھا تھا، جناب رئوف صاحب کا ذکر چل پڑا۔ خواجہ صاحب کہنے لگے تم ایم اے رئوف صاحب کو جانتے ہو، میں نے انہیں بتایا میرا ان سے برسوں پرانا تعلق ہے۔ کہنے لگے وہ تو فون نہیں سنتے چنانچہ میں نے ان سے رئوف صاحب کا نمبر لے کر ڈائل کیا تو رئوف صاحب نے فورا کال اٹینڈ کی۔ جب میں نے اپنا تعارف کرایا تو اسی لمحے میں مجھے پہچان لیا۔ یہ میری ان سے کوئی بیس برس بعد بات ہوئی تھی۔ جناب ایم اے رئوف نے پہلے کی طرح بڑی شفقت سے مجھ سے بات کی اور پوچھنے لگے کیا کرتے ہو۔ میں نے انہیں بتایا راول ٹیچنگ ہسپتال میں میڈیا کا منیجر ہوں اور نوائے وقت میں کالم لکھتا ہوں۔ جناب رئوف نے بڑی شفقت سے کہا ہمارا اپنا اخبار ہے جس کا دفتر آبپارہ میں ہے، وہاں جا کر عابد عبداللہ صاحب سے مل لینا۔ جیل سے آئے ایک ماہ ہوا تھا، مجھے روزنامہ جہان پاکستان کے دفتر بارے معلومات نہیں تھیں۔ میں راول ہسپتال کے چیف سیکیورٹی آفیسر اور اسلام آباد پولیس کے سابق ڈی ایس پی خالد مسعود مرحوم کے ہمراہ جہان پاکستان کے دفتر گیا تو جناب عابد عبداللہ سے ملاقات ہو گئی، جب میں نے جناب رئوف صاحب کا حوالہ دیا تو انہوں نے بڑی خاطر مدارت کی اور کہنے لگے آپ ہمارے ماموں کے دوست ہیں تو ہمارے بھی ماموں ہیں، جس کے بعد جہان پاکستان سے میرا رشتہ قائم ہوگیا۔ جناب ایم اے رئوف کافی عرصے سے صاحب فراش تھے یونیورسٹی کے تمام امور ان کے صاحب زادے جناب اویس رئوف سرانجام دے رہے ہیں۔ جناب ایم اے رئوف گونا گوں خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ نے 2011ء میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی سے روزنامہ جہان پاکستان کا اجراء کیا جو اللہ کی مہربانی سے کامیابی سے سفر پر رواں دواں ہے۔ جناب ایم اے رئوف کو مرحوم لکھتے ہوئے میرے ہاتھ ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ وہ شخص جسے صحت و توانا اور نہایت ہشاش بشاش دیکھا تھا منوں مٹی تلے چلا گیا یہی انسان کی حقیقت ہے۔ جناب ایم اے رئوف سے پہلے ان کے بہت قریبی دوست قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈپٹی کنٹرولر منظور شیخ دنیا سے رخصت ہوئے جس ذکر میں نے رئوف صاحب سے کیا تھا۔ زندگی کتنی تیزی سے گزرتی ہے ابھی کل کی بات ہے ڈاکٹر یاسین ظفر، ایم اے رئوف ، شیخ منظور اور قائد اعظم یونیورسٹی کے رجسٹرار اکرام الحق آپس میں ملاقاتیں کرتے تھے۔ سب اپنی باری پر ایک ایسے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ چند سال پہلے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی تنظیم پامی کے لاہور میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر فلیٹیز میں جناب ایم اے رئوف سے میری آخری ملاقات ہوئی ان دنوں آپ کی صحت زیادہ اچھی نہیں تھی تاہم وہ معمولات زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ مجھے کیا پتہ تھا میری ان سے یہ آخری ملاقات ہے جس کے بعد میں ان سے کبھی مل نہیں سکوں گا۔ میں عمر پیرانہ سالی کے باعث جناب ایم اے رئوف کی تدفین میں شرکت نہیں کر سکا جس کا مجھے ہمیشہ ملال رہے گا۔ حق تعالیٰ رئوف صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے امین۔