
سی ایم رضوان
پاکستانی قوم پچھلے پندرہ سالوں سے خاص طور پر بیانیہ کے چکر میں یوں آئی ہوئی ہے کہ اب وہ چکرا کر گرنے والی ہو گئی ہے جبکہ بیانیہ بنانے والے اب بھی باز نہیں آ رہے اور روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا جھوٹ گھڑ کے پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسے اب پاکستانی قوم کو سمجھ جانا چاہیے کہ یہاں بنایا جانے والا ہر بیانیہ دراصل بریانیہ ہوتا ہے۔ بریانیے کی اصطلاح قوم کو آج اسی کالم میں متعارف کروائی جا رہی ہے جو اپنے حروف سے ہی واضح ہو جاتی ہے کہ ایسا ڈائیلاگ یا بول بچن جو ایک بااثر شخصیت اپنے ناجائز فائدے یا کھانے پینے کے لئے بولتی ہے۔ مثال کے طور ایک ایسی سیاسی و نیم عسکری شخصیت کا تازہ بیانیہ زیر غور رکھ لیتے ہیں کہ جس کا یہ بیانیہ بھی لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ خریدا تھا کہ جو یوٹرن نہیں لیتا وہ لیڈر نہیں ہوتا۔ اب اسی ذات تفرقات یعنی سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے نیب ترامیم بحالی کے فیصلے سے متعلق کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے نیب ترامیم کے فیصلے سے توشہ خانہ ٹو کیس ختم ہو گیا۔ یہاں تک تو بیانیہ ہے اور ساتھ جو آگے انہوں نے اسی بیان میں بریانیہ شامل کیا ہی وہ یہ ہے کہ حکومت کو این آر او ٹو مبارک ہو، حالانکہ اگر حکومت کو بقول ان کے این آر ٹو ملا ہے تو جو ریلیف انہیں خود کو ملا ہے وہ کیا این آر او ون ہے۔ پھر خود ہی انہوں نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں صحافیوں سے اسی گفتگو میں تسلیم بھی کر لیا کہ مجھے تو اس فیصلے پر خوشی منانی چاہیے کہ 190ملین پائونڈ کیس بھی ختم ہونے کے قریب ہو گیا ہے لیکن حکومت کو این آر او ٹو مل گیا ہے۔ ایک اور بریانیہ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ نیب آرڈیننس کے خلاف اس لئے گئے تھے کہ یہ کیسز انہوں نے نہیں بنائے تھے، شہباز شریف کے تمام کیسز پرانے تھے، صرف مقصود چپڑاسی کا شوگر اسکینڈل کیس ہمارے دور میں بنا، بریانیہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ عوامی نمائندے قانون پاس کر کے اپنے کرپشن کیس ختم کر رہے ہیں، حالانکہ روزانہ کی بنیاد پر کیس خود ان کے یعنی بانی پی ٹی آئی کے ختم ہو رہے ہیں۔ پھر یہ بھی کہا کہ عوامی نمائندوں کا کام قوم کے پیسے کا تحفظ ہے۔ کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ جیل میں بیٹھ کر بھی جو کھابے وہ کھا رہے ہیں اس پر قوم کے کتنے پیسے خرچ ہو رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ نیب ترامیم کے ذریعے وائٹ کالر کرائم پکڑنا ناممکن بنا دیا گیا ہے، اس قانون سے چوری کے راستے کھول دیئے گئے ہیں، اڈیالہ جیل میں 7ہزار قیدی ہیں، اس قانون سے ان میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، نیب ترامیم سے اربوں کی چوری کرنے والوں کا فائدہ ہے حالانکہ یہ سب کچھ خود ان کی حکومت کے دور میں بھی ہوتا رہا ہے تب ان کے خیالات اور تھے اور اب اور ہیں۔
اسی انٹرویو میں وہ سرکاری افسروں کو دھمکیاں دینا بھی حسب روایت نہیں بھولے اور کہا کہ نذیر بٹ اور انعام شاہ اور توشہ خانہ کے تفتیشی افسروں کو عدالت لے کر جائوں گا جن کی وجہ سے میری بیوی سات ماہ سے جیل میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کروڑ 80لاکھ کے ہار کی قیمت تین ارب 18کروڑ لگائی گئی جبکہ ایماندار خان نے اس امر پر ذرا بھی شرمندگی ظاہر نہیں کی کہ کرپشن کم یا زیادہ نہیں ہوتی کرپشن کرپشن ہوتی ہے۔ اسی گفتگو میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر بریانیہ دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ آئی ایس پی ار کا بیان آیا ہے کہ وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہیں، اگر یہ اب سے غیر سیاسی ہو چکے ہیں تو یہ ملک کے لئے اچھی بات ہے، لیکن اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ پہلے سے غیر سیاسی ہیں تو اس سے بڑی غلط بیانی نہیں ہوگی، یہ غیر سیاسی ہیں تو میجر، کرنل اور آئی ایس آئی کا جیل میں کیا کام، درخواست کرتا ہوں کہ ملک کے لئے اور خدا کے واسطے غیر سیاسی ہو جا، کہنے سے کوئی غیر سیاسی نہیں ہوگا اعمال سے ہوگا۔ ان کے یہ سب استدلال غلط ہیں کیونکہ صرف کہہ دینے سے کوئی لیڈر جمہوری نہیں ہوتا اعمال سے ہوتا ہے اور اگر ایک سیاسی لیڈر فوج کے ساتھ مذاکرات کی ضد کرے تو کیا اسے جمہوری اصولوں پر کار بند سیاستدان کہا جا سکتا ہے۔ ہر گز ہر گز نہیں مگر افسوس کہ بریانیے کو بیانیہ بنا کر وہ پوری دنیا کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ وہ انٹی اسٹبلشمنٹ ہیں حالانکہ ان کی سر توڑ کوشش یہی ہے کہ فوج ان کی اسی طرح سہولت کاری کرے جس طرح کہ سابقہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس امر پر بھی قوم سے معذرت کر چکے ہیں اور آئندہ ایسا گناہ کرنے سے ادارے کو منع کر کے پالیسی بنا کر دے گئے ہیں موجودہ فوجی کمان اسی پالیسی پر کاربند ہے مگر یہ جمہوری دھوکے باز خاں اڈیالہ جیل کو ایک سیاسی کلب بنا کر ڈکٹیٹر شپ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جہاں تک ان کے اس بریانیے کا تعلق ہے کہ وہ قوم کے پیسے کے محافظ ہیں تو ان کے دور میں لئے گئے قرضوں سے متعلق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے تین سال کے دوران 27ارب ڈالر کے نئے قرضے لئے جس سے پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا حجم 122ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ جس کا خمیازہ نہ جانے قوم کو کب تک بھگتنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک سال کے دوران نو ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض لیا گیا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے اپنے 5سال میں 34ارب ڈالر کا قرض لیا تھا اور 33ارب 30کروڑ ڈالر کا قرض و سود ادا کیا اور اس سے قبل پیپلز پارٹی نے 5سال میں 15ارب ڈالر کا نیا قرض لیا جبکہ 24ارب 30کروڑ ڈالر قرض و سود کی ادائیگی پر خرچ کیے۔ اپریل 2022میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہوئی مگر ان کے لگائے گئے جج اور بیورو کریٹ سال کے آخر تک کام کرتے رہے جن کے اعمال کی خبر ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ہونے والے نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2022میں اس طرح دی کہ پاکستان میں پولیس کے بعد ٹینڈر اور حکومتی ٹھیکوں کا شعبہ جبکہ تیسرے نمبر پر عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ رہے۔ اس کے علاوہ شعبہ تعلیم ماضی کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوا اور یہ چوتھا کرپٹ ترین شعبہ رہا۔ یاد رہے کہ کرپشن کی انسداد کے لئے کام کرنے والے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ 21برسوں میں چھ مرتبہ یہ سروے کرائے ہیں، جن میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے جن شعبوں کو سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں رائے جانی جاتی ہے۔ اس سروے میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے 16سو افراد نے حصہ لیا اور ہر صوبے سے چار سو افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ اب اگر پی ٹی آئی کا اس کے بعد آنے والی پی ڈی ایم کی حکومت سے موازنہ کیا جائے تو بھی دسمبر 2023میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ وضاحت کر دیتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2023میں پاکستان میں کرپشن کم ہوئی اور 2سکور بہتری کے ساتھ ملک 29ویں نمبر پر آ گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 180ممالک کی کرپشن انڈیکس رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2023میں کرپشن میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان کا سکور 2کی بہتری کے ساتھ 29رہا جبکہ کرپشن سے متعلق 2022میں پاکستان کا سکور 27تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق مجموعی رینکنگ میں پاکستان 140سے 133نمبر پر آ گیا۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ میں پی ڈی ایم دورِ حکومت کا احاطہ کیا گیا ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن میں کمی کے لئے کی گئی پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی تھی۔ اب اگر ہاتھوں ہاتھ بکنے والا بیانیہ دیکھا جائے تو وہ یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کرپٹ نہیں تھی جبکہ پی ڈی ایم حکومت میں سبھی چور ڈاکو اور کرپٹ لوگ شامل تھے ہم اس بیانیے کو بیانیہ نہیں بریانیہ کہیں گے جو کہ قوم کو گمراہ کرنے کے لئے پھیلایا اور جھوٹے طریقے سے ایک نمبر پر دکھایا جاتا ہے جس میں ریٹنگ کے پجاری اینکر پوری طرح ملوث ہیں۔