Column

قادیانیت کو پہلی بڑی شکست

صفدر علی حیدری

عقیدہ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں ۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔’’ محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسولؐ ہیں اور سب انبیا کے آخر میں ( سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘ ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ منصب رسالت پر۔ قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارتاً یا کنایا ً عقیدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلسلہ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختم نبوت کا واضح الفاظ میں اعلان فرمایا۔ انس بن مالک سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی ‘‘۔ اس حدیث پاک سے ثابت ہو گیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ اب جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ملعون اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔ آپؐ نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشان دہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرما دی تھی۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ‘‘۔
کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے ( خواہ کسی معنی میں ہو) گا وہ کاذب، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن ، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔ نبی کریم ؐ روئے زمین کی ہر قوم اور ہر انسانی طبقے کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور
آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید تمام آسمانی کتب کے احکام منسوخ کرنے والی اور آئندہ کے لیے تمام معاملات کے احکام و قوانین میں جامع ہیں۔ کتاب ہدایت تکمیل دین کا اعلان کرتی ہے۔ گویا انسانیت اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے اور قرآن کریم انتہائی عروج پر پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کسی دوسری کتاب کی ضرورت ہے ، نہ کسی نئے نبی کی حاجت۔ چنانچہ امت محمدیہ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانیت کے سفر حیات میں وہ منزل آ پہنچی ہے کہ جب اس کا ذہن بالغ ہو گیا ہے اور اسے وہ مکمل ترین ضابطہ حیات دے دیا گیا ، جس کے بعد اب اسے نہ کسی قانون کی احتیاج باقی رہی نہ کسی نئے پیغامبر کی تلاش۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ختم نبوت کا انکار محال ہے۔ اور یہ ایسا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خود عہد رسالت میں مسلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا اور حضورؐ کی نبوت کی تصدیق بھی کی تو اس کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی تامل نہ کیا گیا۔ خلیفہ اول کے عہد خلافت میں صحابہ کرامؓ نے جنگ کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس کے بعد بھی جب اور جہاں کسی نے نبوت کا دعوی کیا، امت مسلمہ نے متفقہ طور پر اسے جھوٹا قرار دیا اور اس کا قلع قمع کرنے میں ہر ممکن کوشش کی ۔ 1973ء کے آئین میں پاکستان میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے والے کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ لیکن یہ اس کی ابتداء نہیں تھی۔ اس کی ابتداء ریاست بہاول پور میں ہوئی۔ 1935ء میں بہاول پور کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ختم نبوت کا پرچم بلند کر دیا۔ اس سے پہلے برصغیر پاک و ہند کے تمام جید علمائے کرام قادنیت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ باقاعدہ سرکاری عدالت نے غلام احمد قادیانی کو کذاب قرار دیتے ہوئے قادیانی گروہ کو کافر قرار دیا ۔7فروری 1953ء کو تاریخی مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ سنایا گیا جو کہ منشی محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر ریاست بہاولپور میں 24جولائی 1926کو دائر ہوا تھا۔ اس مقدمے کا پس منظر یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاول پور میں ، عبدالرزاق نامی شخص مرزائی ہو کر مرتد ہو گیا تو اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغت کو پہنچ کر اپنے باپ کے توسط سے
24جولائی 1926ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیا۔ یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرض شرعی تحقیق منتقل ہوا کہ آیا قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں کہ نہیں ؟ پہلے مسلمانوں کی توجہ اس طرف نہیں تھی لیکن جب قادیانیوں نے بے دریغ پیسہ خرچ کر کے فیصلہ اپنے حق میں کروانے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے اس مقدمہ کا ملت اسلامیہ کا مقدمہ بنا دیا۔ اس سلسلہ میں بہاول پور کی انجمن موید الاسلام ، مجلس احرار اور انجمن حزب اللہ کی خدمات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح یہ مقدمہ دو لوگوں کی بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق و باطل کا مقدمہ بن گیا۔ قادیانیت کے خلاف امت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے سب مکاتب فکر یکساں طور پر سرگرم ہو گئے ۔
مولانا انور شاہ کاشمیری کے بارے بتایا جاتا ہے کہ وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کر کے بہاول پور تشریف لائے۔ پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی ، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی ، مولانا محمد شفیع ، مولانا مرتضی حسن چاند ، مولانا نجم الدین ، مولانا ابو الوفاء شاہ جہان پوری اور مولانا انور شاہ کاشمیری کے دلائل اور بیانات پر مرزائیت بوکھلا اٹھی۔ مولانا ابو الوفاء شاہ جہان پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کروایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا ، اور جس نے قادیانیت کے پرخچے اڑا دئیے۔ جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظر آنا شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر 1934ء میں عبدالرزاق کے مر جانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کر دی کہ اب اس مقدمے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا اس کو خارج کر دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزائیوں نے خود اسے قتل کروا دیا تھا تا کہ مقدمہ خارج ہو جائے اور ان کی سبکی نہ ہو، مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔ اس مقدمے کا فیصلہ 3ذیقعدہ 1353ہجری بمطابق 7فروری 1935ء کو سنایا گیا، جس کی رو سے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد و اعمال کی بنا پر مسلمان نہیں، بلکہ کافر اور جارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کا غلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا۔ مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر الدین کی سربراہی میں سر ظفر اللہ مرتد سمیت جمع کر کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی۔ لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنا مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ان کے خلاف جائے گی۔ سو انہوں نے اپیل نہ کر کے باقاعدہ طور پر اپنی شکست تسلیم کر لی۔ یہ ان کی پہلی بڑی اور باقاعدہ شکست تھی، شکست فاش۔ اس کے بعد ہر محاذ پر بدترین شکست ان کا مقدر ٹھہری ہے اور وہ یونہی ذلت آمیز شکست کا شکار ہوتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔

جواب دیں

Back to top button