Column

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

صفدر علی حیدری

سوال بڑا اہم ہے آخر ایسا کیوں ہے کہ پچھلے اٹھاون برس کے دوران یہاں چار بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جو صوبہ گیس کی تمام تر ملکی ضرورت پوری کرتا ہے اس کا بیشتر حصہ اس نعمت سے محروم ہے۔ صوبہ جو کوئلے کی ساٹھ فیصد اور اونکس پتھر کی نوے فیصد پیداوار دیتا ہے، لاکھوں ٹن تانبا زمین میں دبا ہوا ہے، سب سے طویل ساحلی صوبہ ہے، وہاں کی تقریبا نوے لاکھ کی مختصر سی آبادی کا ستر فیصد حصہ زمین سے ذرا اوپر لیکن خط غربت سے کہیں نیچے ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے وفاق پاکستان کو درپیش ایک نہایت حساس اور نازک معاملہ ہے۔ اس مسئلے کے حقیقی اور ممکنہ محرکات کوئی پوشیدہ راز نہیں۔ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے پس ماندہ صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالامال مگر بڑی حد تک مراعات سے محروم وفاقی اکائی کی شناخت رکھتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اہم محل وقوع کا حامل اور تہذیب و ثقافت کا مرکز یہ علاقہ گزشتہ دو صدیوں سے بد قسمتی کا شکار ہے۔ سامراجی آقائوں، اور مفاد پرست سرداروں کی کشمکش کی چکی میں پستے پستے آج بلوچی عوام بے حالی کے مقام پر آ گئے ہیں۔ ظہور پاکستان کی وقت سے ہی خارجی قوتوں کے کردار، اسلام آباد کی مرکزیت پسند حکمرانی اور اختیار و اقتدار کے لیے قبائلی سرداروں کی سودے بازی کی فضا میں بلوچی عوام اپنی محرومی اور پس ماندگی کے جنگل میں گم کردہ راہ مسافر کی طرح ہیں اور نہ معلوم کب تک ایسے ہی رہیں گے ۔
بلوچستان کی شکایات و مطالبات نئے نہیں، لیکن انھیں سازگار فضا موجودہ عالمی حالات نے فراہم کی ہے۔
ماوزے تنگ کہتے ہیں کہ اگر کسی عمل میں متعدد تضادات ہوں، ان میں سے ایک تضاد لازمی طور پر اصل تضاد ہوتا ہے، جو رہنما اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ جب کہ دوسرے تضادات کی حیثیت ثانوی اور ذیلی ہوتی ہے۔ چناں چہ کسی ایسے پیچیدہ عمل کا جدلیاتی سطح پر مطالعہ کرتے وقت جس میں دو یا دو سے زیادہ تضادات ہوں، ہمیں اس کا اصل تضاد معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ایک مرتبہ اصل تضاد گرفت میں آ جائے تو تمام مسائل آسانی سے حل ہوسکتی ہیں۔ شاید آج بلوچ اسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
بے شک بلوچستان میں قومی وسائل پر حملے ناقابل برداشت ہیں، مگر کہیں یہ کسی کی برداشت کا امتحان لینے کا نتیجہ تو نہیں؟ اب تک دونوں طرف سے جو کچھ ہوا، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ آنکھیں صحیح صورت حال سے بے خبر ہیں جو ملک کے معاملات کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ پاکستان آرمی کئی بار بلوچستان میں کارروائیاں کر چکی ہے ۔ سب سے پہلے مارچ اڑتالیس میں جب ریاست قلات کا الحاق پاکستان سے ہوا تو پرنس عبد الکریم نے اس کی مخالفت کی جس کو کچلنے کے لیے فوج یہاں آئی۔ پھر اکتوبر اٹھاون میں زہری قبائل کی کشاکش ختم کرنے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا۔ ایوب دور میں قبائلیوں سے جھڑپیں جاری رہیں۔ اس کے خاتمے پر بگتی قبیلے سے متعدد تصادم ہوئے۔ ایوبی دور میں کوشش کی گئی کہ بلوچستان کے دانشوروں کو حکومت کا حامی بنایا جائے۔ اس کے لیے ثقافتی و ادبی تنظیموں کی بلوچستان کا نسلی اور لسانی اختلاط سن اکہتر میں ون یونٹ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے داخلی سیاست میں بھی فوج پر انحصار جاری رکھا۔ بنگلہ دیش کے سانحہ کے بعد فوج پھر جدید اسلحہ سے لیس ہو کر بحال ہو چکی تھی۔ R.G.Wirsingاپنی کتاب The Balochis and Pathansمیں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے یونیفارم میں ملبوس افراد کو پھر سیاست میں واپس آنے کی ترغیب دی۔ پچاس لاکھ سے بھی کم اور بکھری ہوئی آبادی والے صوبے میں اسی ہزار فوجی جوانوں کو قبائلی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے باغیوں سے نمٹنے کے لیے رکھا گیا۔ قوت کا یہ استعمال جائز مطالبات کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کا عمل تھا جس نے علاقائی مخالفت کو جنم دیا اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔
بلوچستان میں پنجابیوں اور پختونوں کی آمد نے مقامی لوگوں کے احساس تشخص کو مجروح کیا۔ بلوچی دانش ور پاکستانی ریاست میں بلوچوں کی کم تر نمائندگی پر سوال اٹھاتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ان کے قدرتی وسائل مثلاً گیس وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے ان کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر مقامی آبادی کو سہولت پہنچانے اور بلوچوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے فوجی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے۔
فوج کے متحرک کردار کے حوالے سے بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں اپنی آخری تحریر If I Am Assasinatedمیں دعویٰ کیا کہ بلوچستان سے واپسی کے ان منصوبوں کو فوج نے نظر انداز کر دیا کیونکہ جرنیل پورے بلوچستان میں اپنا جال بچھانا چاہتے تھے۔ بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کی حیات نو بھی فوج کے جن کو بوتل میں قید نہ کر سکی۔ بھٹو نے اپنے بعد آنے والوں کو بتا دیا تھا کہ شورش زدہ علاقوں میں امن و امان بحال رکھنے کا درست طریقہ ترقیاتی کام ہیں۔ اسی کے بعد کے عشروں میں صوبے کے زخم بھرنے کے لیے مرہم رکھے گئے اور حالات معمول پر آ گئے۔
آج ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی صورت حال نازک ہے۔ وقت کے مسیحائوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قوم و ملت کے معمار پختہ فکر ہوتے ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضامن قوتیں پورے ساز و سامان اور بے حد و حساب وسائل کے باوجود مختلف محاذوں پر بٹی ہوئی ہیں۔ گولی مسائل کا حل کبھی نہیں بنی، بلکہ ہمیشہ مسائل کو ضرب دینے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ طوفان پھولوں کو تو تباہ کر سکتا ہے، لیکن کیا اس سے بیج بھی برباد کیے جا سکتے ہیں؟۔
تجزیہ کاروں کے بقول بلوچستان کے مسئلے کی سنجیدگی اور ماورائے آئین تشدد آمیز ہتھکنڈوں کے نتیجے میں اصلاحاتی پیکیجوں کی زکوٰ ۃ مستقل، پائیدار اور مناسب حل نہیں۔ اس سے ہم وفاق کی دیگر اکائیوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ کہ بنیادی حقوق، سہولتوں اور مراعات کے حصول کے لیے دوسرے صوبوں کو بھی یہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا ؟ قلیل المدت حوالے سے مسائل کے اونٹ کے منہ میں اصلاحاتی پیکیجوں کا زیرہ اپنی جگہ ، مگر جب تک ملک میں شراکتی جمہوریت کا سچا، کھرا اور دیانت دارانہ نفاذ نہیں ہو جاتا، معاملات ایسے ہی رہیں گے اور صوبوں میں تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہو گا۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ وفاق پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ہے۔ فوج اور انتظامی شعبوں میں پنجاب کی بالادستی کے خلاف علاقائیت کا رد عمل نصف صدی سے موجود ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کا خمیازہ پنجاب کو دوسری اکائیوں کی ناراضی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے، حالاں کہ پنجابیوں کی کثیر تعداد اس ’’ پنجاب‘] سے آشنا نہیں جس سے سارا ملک ناراض ہے ۔ اب وفاق میں اس ’’ پنجاب ‘‘ کے کردار پر تدبر و تفکر ضروری ہو گیا ہے جس میں خود پنجابیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نہیں رہ رہی۔ حقیقت پسندی کے بغیر اعتدال پسندی خام خیال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ سیاسیات کے ماہرین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ وفاقیت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ شراکتی جمہوریت وفاق کی لازمی شرائط میں سے ہے۔ اقتدار و اختیار کا ایک شخص ، ایک ادارے یا ایک طبقے یا ٹولے تک محدود ہو کر رہ جانا وفاق کے لیے زہر قاتل ہے۔ حد سے زیادہ مرکزیت کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ نظام یا تو وحدانی صورت اختیار کر لیتا ہے جیسا کہ سوویت یونین میں ہوا تھا، یا اگر صوبے اور اکائیاں ماورائے آئین مزاحمت پر اتر آئیں جیسا کہ اکہتر میں جنرل یحییٰ کے دور میں ہوا تو وفاقی نظام خود ہی اپنے ہاتھوں تباہ ہو جاتا ہے، یا پھر علاقائیت نمو پا کر اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس طرح یوگو سلاویہ کی تقسیم کی صورت میں ہوئی۔
وفاقیت کے تقاضے حقیقی معنوں میں ذہنی، فکری اور عملی اتحاد ویگانگت ہیں۔ ہمیں ذاتی مفادات، نجی تحفظات، صوبائی تعصبات اور قوم پرستانہ شبہات کو پس پشت ڈال کر ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینا ہوگی اور اس کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا ہو گا۔ بلوچ سب سے بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کو گردانتے ہیں اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی سے بلوچ مسئلہ حل کی طرف بڑھے گا لیکن وہ تجزیہ کرتے وقت اِس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی اصل وجہ کیا ہے؟۔
بلوچستان میں لوگوں کو اس وجہ سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے کہ بلوچستان میں قومی شناخت کی جنگ کو کائونٹر کیا جاسکے۔ اگر بلوچ آزادی کی جنگ نہ لڑیں تو نا ہی لوگ جبری گمشدہ ہونگے اور نا ہی بلوچستان میں آپریشن ہوں گے۔ اگر بلوچ مسلح تنظیمیں بلوچ قومی شناخت کی جنگ کو ختم کر دیں اور پاکستان کے آئین کو قبول کریں تو یہ جبری گمشدگیاں بھی ختم ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلوچ قوم کے ساحل و وسائل پہ بھی ان کی اپنی بالادستی ہو، مگر یہاں اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا بلوچ قومی آزادی سے وابستہ پارٹیاں اور تنظیمیں قومی آزادی کی تحریک سے دستبردار ہوں گے ؟۔
مسائل کہاں نہیں ہوتے ؟ مگر ان کو حل کرنے کا طریقہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے مذاکرات ۔ پاکستان کے کون سا صوبہ ایسا ہے جہاں مظلوم طبقہ موجود نہ ہو ۔ جنوبی پنجاب ہو یا دیہی سندھ ، کے پی کے ہو یا آزاد کشمیر ۔ مسائل ہر جگہ موجود ہیں مگر چڑیا کو توپ سے مارنے والے مسائل کم نہیں کرتے بلکہ بڑھاتے ہیں۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہ ہونا پٹرول کو آگ دکھاتا ہے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ اگر اس ملک کا کوئی قانون ہے تو سب کو اس کا احترام کرنا ہو گا۔ ہر ادارے کو خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ، اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہو گا۔ ورنہ دائروں کا سفر کبھی ختم نہیں ہو گا جس میں دائرے تو بنتے ہیں فاصلے نہیں کٹتے ۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے وہ ملک جس کی اکثریتی آبادی نوجوان پر مشتمل ہو اس کا حال یہ ہو کہ وہ قرض کی مے پہ گزرا کرتا ہو۔ اس کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو اور مزید قرض لے کر قرض چکایا جاتا ہو ۔
ناصر کاظمی یاد آتے ہیں ۔ کیا خوب کہہ گئے ہیں
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں

جواب دیں

Back to top button