بلوچستان میں دہشتگردی پر ماہرنگ بلوچ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں؟

طارق خان ترین
گزشتہ رات بلوچستان میں دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے خون کی ہولی کھیلی گئی، جس میں بلوچستان کی مختلف شاہراہوں کو انکی جانب سے بند کرکے معصوم شہریوں کو بسوں سے نکال کر بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب شہدا پنجابی تھے، تو کیا پنجابی انسان یا پھر مسلمان نہیں؟ یہاں پر صوبے کی غربت اور احساس محرومیوں کے سماجی امراض پر سیاست کی جاتی تھی، اب تو اس پر دہشتگردی کی جاتی ہے۔ جو سیاستدان اس پر سیاست کرتے رہے وہ ان دہشتگردانہ افعال پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں بس میں سوار مسافروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے اس بدترین واقعہ میں ملوث عناصر کو جلدازجلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ گورنر بلوچستان نے سوگوار خاندانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے شہداء کی مغفرت اور لواحقین کیلئے صبر جمیل اور ہمت عطا کرنے کی دعا کی۔ حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دہشتگردی کے ان واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس پر متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کر لی اور حکم دیا کہ جلد از جلد تحقیقات شروع کی جائے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا 23افراد کے جاں بحق ہونے کے واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی بزدلانہ کارروائی میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ موسیٰ خیل کے قریب دہشتگردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا۔ وزیراعلیٰ نے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ بلوچستان حکومت دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کا پیچھا کرتی رہے گی۔ اس سلسلے میں میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا۔
ریاست کی جانب سے اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے نہ صرف بلکہ اس حوالے سے ریاستی اداروں کے ذرائع کی جانب سے ہوشربا حقائق بھی سامنے لائے جارہے ہیں، جن میں کہا گیا کہ امن کے دشمن بلوچستان میں استحکام کو تباہ کرنے کی سازش کے تحت سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں سڑکوں اور شاہراہوں کو تباہ کر کے، بی ایل اے صوبے کی ترقی کو پتھر کے زمانے میں واپس دھکیلنا چاہتا ہے۔ بزدل دہشت گردوں نے معصوم، امن پسند اور غیر مسلح پاکستانیوں کو بلوچستان میں بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ یہ کس قسم کے بلوچ حقوق ہیں جہاں BYC کی حمایت یافتہBLAکے دہشت گرد معصوم بلوچوں کی جانیں لیتے ہیں اور دہشت گردی میں ان کی روزی روٹی تباہ کرتے ہوئے چھین لیتے ہیں؟ بلوچ نسل کشی کے نعرے لگانے والے BNMاور BYCاس نسل کشی کے عمل پر خاموش ہیں جو BLAنے کل رات سر انجام دیا، اس پر ہمارے بہت بڑے صحافی جو لاپتہ افراد پر ریاست کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں وہ بھی خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر مذمت تک نہیں کرتے۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ یہ صحافی پاکستان کیلئے نہیں بلکہ ملک دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف عزائم رکھتے ہے؟
موسٰی خیل/لورالائی میں 23بے گناہ مسافروں کو دہشت گردی کے بھینٹ چڑھایا گیا۔ اب بی وائی سی، بی این ایم اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو جواب دینا چاہئے کہ انہیں کس نے مارا؟ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ بی ایل اے اور بی ایل ایف نسل کشی کے مرتکب ہیں جو بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں لیکن بی وائی سی کی طرف سے خواتین اور بچوں کو استعمال کر کے انہیں محفوظ کیں جاتے ہیں۔ غیر تربیت یافتہ دہشت گرد صرف معصوم خواتین اور بچوں کو اس لیے مار رہے ہیں تاکہ ان کے رہنما بھارتی ہینڈلرز سے رقم حاصل کیا جا سکیں۔ بی وائی سی کے نام نہاد انسانی حقوق
کے کارکن اور انسانی حقوق کی چیمپئن ماہرنگ بلوچ بی ایل اے کی دہشتگردی کے ہولناک واقعے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتی ہیں کیونکہ وہ بی ایل اے کے سرمچاروں کو اپنا بھائی کہتی ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں پکڑے گئے شہریوں کی ویڈیوز سے پتہ چلا کہ وہ بلوچ تھے، نہ کہ پنجابی یا پاکستان کے کسی اور نسلی گروہ سے۔ چاہے بلوچ ہوں، پنجابی، سندھی یا پشتون، بلوچستان میں ہر کوئی بی ایل اے اور بی ایل ایف کے شکار ہے۔ یہ دہشتگردی BYCکی جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے، جو ایک نام نہاد سماجی حقوق کی تحریک ہے جس کا واحد مقصد بلوچستان کے سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ بی وائی سی کے پراپیگنڈے کو سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے مزید مضبوط کیا جاتا ہے جو انہیں زیادہ سے زیادہ رسائی فراہم کرتے ہیں، جو پاکستان میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردی کی حمایت ظاہر کرتے ہیں۔ حملے میں مارے جانے والے دہشت گردوں کو جلد ہی جنہیں BYCکے پراپیگنڈا مظاہروں میں لاپتہ افراد کے طور پر ظاہر کیا گیا کو شناخت کیا جائیگا جس پر ریاست کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔