Column

حکمت حکومت اور حماقت

تحریر : صفدر علی حیدری
صحرائوں کے باسی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سمت منزل سے کہیں زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ راہ کھوٹی ہو جائے تو انسان دائروں کا راہی بن کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے، منزل کو ترستا ہے اور اپنے نصیب کو کوستا بھی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے میں ہر اٹھتا قدم منزل سے دور کرتا، جذبے پست کرتا ، توانائیوں ضائع کرتا اور بے سمت کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں منزل کی خواہش حسرت میں ڈھل اور ہر کاوش پریشانی میں بدل جاتی ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ قافلے ایک بڑے ٹیلے کے گرد مسلسل سفر میں راستے کی گرد بن جایا کرتے ہیں۔
امجد اسلام امجد یاد آئے :
ہم لوگ دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
آزوئیں چلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنا کی ساتھ ساتھ چلتی ہیں
گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا رہتا ہے
راستے نہیں گھٹتے
صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آمد کا پیش باب کہتے ہیں
اک کرن جو ملتی ہے، آفتاب کہتے ہیں
دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
ملک میں امن و امان کا قیام اور عوام کی جان و مال کا تحفظ اور عدل و انصاف کی بلا تخصیص فراہمی کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جو ریاست یہ تقاضا پورا نہیں کرتی اسے ریاست کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ باب علم نے بجا فرمایا تھا حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے ظلم سے نہیں۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ یہاں ظلم کوچہ و بازار میں بچے جنتا پھرتا ہے جبکہ عدل بانچھ ہے۔
ساغر صدیقی کہا کرتے تھے؛
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے
بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصور بھوکا ہے
سلطان یہاں کے اندھے ہیں
ایک ایسی ریاست جسے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہو۔ جس کی فوج کو دنیا چند بہترین افواج میں سے ایک گردانا جائے۔ جس کی خفیہ ایجنسیاں ترقی یافتہ ممالک کے ٹکر کی ہوں۔ جس ملک نے افغانستان میں امریکی افواج کی مدد کی ہو اور واپسی کا محفوظ راستہ دیا ہو۔ جس نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں تن تنہا فتح حاصل کی ہو دنیا کی واحد ریاست قرار پائی ہو جس نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہو۔ دنیا سے جس نے داد و تحسین پائی ہو، کیا وہ اس قدر کمزور ہو سکتی ہے کہ مٹھی بھر غنڈا عناصر کمزور کر دیں۔ پوری دنیا میں بدنام کر دیں اگر چھوٹو گینگ کے سربراہ کو محض چند سال سزا دے کر چھوڑ نہ دیا جاتا، اسے قرار واقعی سزا دے دی جاتی تو آج یہ سب نہ ہوا ہوتا۔ اگر پردہ نشینوں کو بچانے کا منصوبہ نہ ہوتا تو چھوٹو کی گواہی کئی بڑے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج سکتی تھی مگر۔۔۔ ایسا نہیں ہوا اور کیوں نہیں ہوا ، اس کے لیے کسی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں۔
سانحہ کچہ ماچھکہ یہ بتاتا ہے کہ ’’ ہاتھ اگر دفاع کے لیے بروقت نہ اٹھیں تو ماتم کے لیے اٹھتے ہیں ‘‘۔
ملک میں امن و امان کی صورت حال کی ابتری کی بات کی جائے تو پارہ چنار کو ذکر ضروری ہو جاتا ہے مگر افسوس اس کی مخدوش صورتحال کو بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ اونٹ کی ایک ٹانگ کٹے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ارشد ندیم میڈل لے آئے تو میڈیا پر کئی دن تک یہ موضوع چھایا رہتا ہے مگر بات پارہ چنار کی ہو تو زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں ، جانے کیوں ؟، یہ ملک ہم سب کا ہے، ہم سب کے جان و مال ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ریاست کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے اور ماں کو اپنے سب بچے یکساں طور پر عزیز ہوتے ہیں ۔ کوئی کام والا ہو یا نکما ۔ مگر اس ریاست کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہماری ریاست ماں تو ہے مگر سوتیلی ۔۔۔ مترائی اور بڑے کہہ گئے ہیں ’’ ماں مترائی تے پیو قسائی‘‘۔
اب موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو کہیں بے روزگاری اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے، مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے اور اب دوبارہ اس میں بند ہونے میں نہیں آ رہا، کہیں عوام بجلی کے بلوں پر بلبلا رہے ہیں ، کہیں مسنگ پرسنز کا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے، کہیں کسی سیاسی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا کر ان کے کارکنوں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے حل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حکومت آئی ایم ایف کے آگے سجدہ ریز ہے۔ ابھی ٹی وی پر کئی جنازے ایک ساتھ دیکھے تو دل زخمی زخمی ہو گیا۔ کیا کسی کی اولاد نہیں تھے۔ کیا ریاست نے کبھی یہ کوشش کی کہ ریاست کے اندر ریاست نہ بننے دی جائے۔ آخر کیا سوچ کر خاموشی اختیار کی گئی۔ آخر ان کے خاتمے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اب سنتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ وہاں پہنچی ہوئی ہیں۔ کیا محض نمبر ٹانکنے کے لیے ؟ پولیس کی وردی پہننے کی بجائے اگر انہوں نے اس محکمے کو سدھانے کی کوشش کی ہوتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ جب ویژن نہ ہو، کوئی عزم نہ ہو، کوئی لائحہ عمل نہ ہو، اصلاح کا خیال نہ ہو تو پھر یہی ڈرامے ہوں گے جو آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ان کے بیانات دیکھیں اور آج کی صورتحال تو بے اختیار سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ ایک بے سمت مسافر کی طرح ہماری حکومت دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔ کرنے کے کام ہوتے نہیں ہیں اور نہ کرنے کے کام بھاگ بھاگ کر کرتے ہیں۔ کل تک ان کے تجربے کی باتیں ہوتی تھیں اب کہاں گیا وہ تجربہ ؟ کیا بھاڑ میں ؟۔
کیا حکومت صرف تجربے سے چلتی ہے ؟ کیا جذبے، اخلاص اور عزم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، شیر شاہ سوری نے صرف پانچ سال حکومت کی، اس کی مثالی حکومت کی اب تک مثالیں دی جاتی ہیں۔ تو کیا اس کے پاس پہلے سے کوئی تجربہ تھا ؟ ہمارے ہاں تو چوتھی چوتھی بار حکومت کرنے والے بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں یہاں سب چلتا ہے۔ جہاں سب چلتا ہے پھر وہ معاشرہ نہیں چلتا۔ حکومت اگر حکمت سے عاری ہو تو نری حماقت ہوتی ہے اور ہم احمقوں کے نرغے میں ہیں، ان سے اچھائی کی امید احمقوں کی جنت میں قیام کی طرح ہے، صحرا کے مسافر اچھی طرح جانتے ہیں کہ راستہ منزل سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں
بے مراد ہیں پائوں گردِ راہ سے اٹ کر بھی

جواب دیں

Back to top button