پانی پار جانے کا راستہ

تحریر : سیدہ عنبرین
خبر نظر سے گزری ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے، متعلقہ محکمے اور اس کا نظام چلانے والوں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں جبکہ انہیں اپنے معاملات کو سمیٹنے کیلئے دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، یہ معاملات دو ہفتوں میں نہ سمٹ سکے اور یہاں کام کرنے والی افرادی قوت کے نمائندے عدالت میں چلے گئے اور سٹے لے آئے تو معاملہ کچھ اور شکل اختیار کر سکتا ہے، لیکن حکومتی عزائم واضح ہیں اس ادارے کو بند کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، اس کے پیچھے وہی سوچ ہے کہ حکومت کا کام کاروباری ادارے چلانا نہیں ہے اور ایسے ادارے تو پہلی فرصت میں بند کر دیئے جائیں گے یا پرائیویٹائز کر دیئے جائیں گے جو خسارے میں ہیں، اس فیصلے پر پہنچنے میں حکومت کو 20برس سے زائد لگ گئے، پہلے پہل یہ فیصلہ لیگی حکومت کے دوسرے دور میں ہوا تھا، جس کے بعد اس کے اعلان سے قبل ہی اس وقت کی حکومت کو تجویز دی گئی کہ اس ادارے سے وابستہ ہزاروں افراد ہمارے ووٹر اور سپورٹر ہیں، ادارے کو بند کرنے کا مطلب نکالے جانے افراد کی تعداد سے 5گنا زیادہ کا ووٹ بینک متاثر ہو گا، لہٰذا فیصلہ روک دیا جائے، یوں یہ فیصلہ روک دیا گیا۔
اس ادارے کے قیام کا مقصد عام آدمی کو سرمایہ دار اور کاروباری حضرات کی ہوس زر کے ساتھ ساتھ زیادہ منافع لینے کے طرز عمل سے محفوظ رکھ کر معیاری اشیاء مارکیٹ کی نسبت سستے داموں مہیا کرنا تھا۔ بدقسمتی نہیں، کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحان نے دونوں ہدف حاصل نہ ہونے دیئے، پھر کرپشن اتنے عروج پر پہنچ گئی کہ خسارہ شروع ہو گیا جبکہ خسارے کی کوئی معقول وجہ کبھی نہ تھی، عام کاروباری حضرات کی طرح اشیائے ضرورت مارکیٹ سے ہول سیل ریٹ سے بھی کم داموں خریدی جائیں، بہت کم منافع پر فروخت کی جائیں، مال ادھار فروخت کرنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا، یوں کسی سطح پر رقم ڈوبنے کا بھی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، پھر خسارہ کب اور کیسے شروع ہوا یہ داستان رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین بھی ہے۔ ہر سرکاری ادارے کی طرح اس ادارے میں بھی منظور نظر افراد بے دریغ بھرتی کئے جانے لگے ان میں ہر کیڈر میں تھوک کے حساب سے بھرتیاں کی گئیں اور ہر سیاسی حکومت کے دور میں کی گئیں، جن افسروں کی تنخواہ کسی اور محکمے میں لاکھ سے کچھ کم تھی انہیں ڈیپوٹیشن پر یہاں لایا گیا تنخواہ ایک لاکھ نہیں کئی لاکھ مقرر کی گئی، دیگر سہولتیں اس کے علاوہ تھیں۔ براہ راست بھرتیوں کے ریکارڈ قائم کئے گئے ، سائیکل سوار کو ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں دی گئیں، پٹرول کی حد کہیں مقرر تھی کہیں لامحدود تھی، یوں لوٹ مار کا آغاز ہوا، انتہا اس پر ہوئی کہ اس محکمے میں لاکھوں روپے کے نہیں متعدد مرتبہ کروڑوں روپے کے فراڈ بھی ہوئے، کئی کئی سال تک فراڈ سامنے نہ آ سکے، کیونکہ مالی بے ضابطگیاں کرنے والے برس ہا برس اپنی پوسٹوں پر موجود رہے، وہ اپنی جگہ سے ہلتے تو گڑ بڑ سامنے آتی، انہیں جب بھی کسی نے اپنی جگہ سے ہلانے کی کوشش کی وہ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے تبادلے منسوخ کرانے میں کامیاب رہے، کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا، اپوائنمنٹ ٹرانسفر پالیسی نہ کبھی بنی نہ اس پر عمل ہوا، پس جو آیا وہ اپنی پسند کے اسی سٹیشن پر، اسی پوسٹ سے عمر بھر چپکا رہا اور موج میلے کرتا رہا۔
کرپشن کا اگلا مرحلہ عجیب تھا، ذرائع نے متعدد مرتبہ اس بات کی نشاندہی کی کہ یہاں غیر معیاری اشیاء فروخت ہونے لگی ہیں، انہیں روکا جائے، جنہوں نے روکنا تھا وہی تو سہولت کار تھے، یوں معیار گرتا گیا جوں جوں اسے قائم رکھنے کی بات کی گئی، پھر ایک وقت آیا جب مارکیٹ میں یہ تاثر اپنی جڑیں مضبوط کر گیا کہ دنیا کی ہر دو نمبر چیز ان سٹورز میں پائی جاتی ہے۔ کسی بھی سٹور منیجر سے جب بھی کوئی اس امر کی شکایت کرتا تو گھڑا گھڑایا ایک ہی جواب ملتا کہ ہم خود تو کوئی خریداری نہیں کرتے، یہ معاملہ ہیڈ آفس کا ہے، وہاں جائیں۔ عام خریدار کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا تھا کہ وہ پہلے اپنی شکایت ہیڈ آفس تک پہنچائے، پھر نام نہاد انکوائری کرنے والوں کی خصوصی کچہریاں اور حاضریاں بھگتاتا پھرے۔ رفتہ رفتہ سستی اور معیاری اشیائے صرف خریدنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی، ہر سٹور کے برابر ایک ایسی دکان کھلنے لگی جہاں معیاری اشیاء مناسب داموں دستیاب ہونے لگیں، وہ دکانیں آباد ہونے لگیں اور یوٹیلیٹی سٹورز اجڑنے لگے۔ پھر وہ وقت آ گیا جب یہاں الو بولنے لگے، ملک بھر میں جب کبھی چینی کا بحران برپا کیا جاتا تو اعلان ہوتا کہ عوام ان سٹورز سے کنٹرول ریٹ پر چینی حاصل کر سکتے ہیں، اس اعلان کے ساتھ ہی تیسرے درجے کی چینی کنٹرول ریٹ پر حاصل کرنے والوں کی لائنیں لگ جاتیں، آٹے کا بحران پیدا ہوتا تو آٹے کی لائنیں لگ جاتیں، آٹے اور چینی کی لائنوں میں لگے افراد پر لاٹھی چارج کا اہتمام بھی کیا جاتا، ان لائنوں میں لگے درجنوں افراد گرمی حبس اور لاٹھیاں کھانے سے موت کے منہ میں جا پہنچے۔ آٹے اور چینی کے تھیلوں سے بھرے ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے افراد ہلکان ہو کر گرتے اور مرتے بھی دیکھے گئے، ان میں مرد، عورتیں، بچے سبھی شامل تھے۔ کرپشن کا ایک انداز قابل ذکر ہے چینی کے تھیلوں کو پانی کا چھٹا دے کر وزن پورا کیا جاتا رہا، کوئی پوچھنے والا کبھی نظر نہ آیا۔ آٹا اور چینی حاصل کرنے والوں کے درمیان ایک اور مافیا موجود رہتا، جو کسی نہ کسی بہانے ہڑبونگ مچا دیتا، جس کے بعد وہاں موجود جیب کترے فعال ہوتے اور لوگوں کی جیبیں اس رقم سے خالی کر دیتے جن میں سستے آٹے اور چینی خریدنے کیلئے قلیل رقم موجود ہوتی۔
آٹے اور چینی بحران کے زمانوں میں دونوں چیزوں کی ایک بڑی مقدار دکانداروں اور بیکریاں چلانے والوں کے ساتھ فروخت کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، سرکاری مہر لگے تھیلے پرائیویٹ گوداموں سے برآمد ہوتے رہے، آج تک ان جرائم میں کسی کو سزا ہوتے نہ دیکھی، جس نے جتنی زیادہ کرپشن کی اتنی زیادہ جزا پائی۔
ریلویز، پی آئی اے، محکمہ تار و ڈاک کی طرح یوٹیلیٹی سٹورز منافع بخش ادارے تھے، کہیں منافع اگر کم بھی ہوا تو کم از خود کفیل ضرور تھے، لاکھوں افراد ان سے وابستہ رہے، روزگار کماتے رہے، کرپشن کا اژدھا سب کو نگل گیا، کسی بھی ادارے میں کرپشن کو نہ روکا جا سکا، پانی سر گزر گیا تو ہاہا کار مچائی گئی اور نیا راگ الاپا جانے لگا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، لہٰذا سب کچھ فروخت کیا جائے گا۔ بتایا گیا درجن بھر ٹرینیں پرائیویٹ چلانے کی منصوبہ بندی ہے، کئی ماہ ہو چکے ہیں، ذرائع تصدیق کرتے ہیں ایک بھی گاہک سامنے نہیں آیا، پی آئی اے کے معاملات مختلف ہیں، یوٹیلیٹی سٹورز کو بند کرنے کی بجائے اسے بھی پرائیویٹائز کرنے کا اعلان کر دیکھیں، کوئی اسے خریدنے کیلئے سامنے نہیں آئے گا، کیونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی نہیں بہہ گیا بلکہ پانی اپنے ساتھ پل بھی بہا کر لے گیا ہے، اب پانی کے پار جانے کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں، آنکھیں بند کر کے جو چھلانگ لگائے گا ڈوب جائے گا، فی الحلال ڈوب مرنے کو کوئی تیار نہیں، جنہوں نے ان منافع بخش اداروں کو ڈبو دیا انہیں ڈوب مرنا چاہئے، لیکن وہ تو برسوں پہلے سب کچھ سمیٹ کر اثاثے بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں، پانی چڑھے گا تو یہاں سے کہیں اور پرواز کر جائیں گے۔