کچے کے ڈاکوئوں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کا وقت آ گیا ہے

رفیع صحرائی
22 اور 23اگست کی درمیانی شب رحیم یار خان کے علاقے میں کچے کے ڈاکوں نے حملہ کر کے 12پولیس اہل کاروں کو شہید کر دیا جبکہ 8پولیس اہل کار زخمی ہو گئے۔ پنجاب پولیس کے مطابق ڈاکوئوں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں اس وقت پولیس کی دو گاڑیوں پر راکٹ لانچرز سے حملہ کر دیا جب وہ گاڑیاں بارش کے پانی میں پھنسی ہوئی تھیں۔ ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق کچے کے علاقے میں 2گاڑیاں ہفتہ وار ڈیوٹی سے واپس آ رہی تھیں۔ ایک گاڑی خراب ہوئی جس پر اچانک راکٹ لانچرز سے حملہ ہوا۔ یاد رہے کہ اس ماہ کے دوران کچے کے ڈاکوں کا پولیس پر یہ تیسرا حملہ ہے۔ وزیرِ اعظم، صدرِ مملکت، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب سمیت اعلیٰ سرکاری عہدیداروں و عوامی نمائندوں نے پولیس سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے ڈاکوں کے اس بزدلانہ اقدام کی مذمت کی ہے۔
دیکھا جائے تو اب بات مذمت سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ یہ مسئلہ کچے کے ڈاکوں کے ساتھ ساتھ ان کے سرپرست پکے کے ڈاکوں کے خلاف بھی گرینڈ اور جوائنٹ آپریشن کر کے ان کی مرمت سے ہی حل ہو گا۔
یاد رہے کہ اسی سال مارچ میں کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ صدرِ پاکستان نے اس آپریشن کی باقاعدہ منظوری دے دی تھی۔ آئی جی پولیس پنجاب نے کچے کے علاقے کی صورتِ حال پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس آپریشن میں 11ہزار پولیس اہل کار حصہ لیں گے۔ پتا چلا تھا کہ ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی کمانڈ پاک فوج کرے گی۔ مگر جانے کیا وجہ ہوئی کہ پاک فوج اور پولیس کا وہ مشترکہ گرینڈ آپریشن شروع نہ ہو سکا۔
پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو اور بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں کئی یرغمالی مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران یہ ڈاکو 600سے زائد افراد کو اغوا کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت اور پولیس کے بلند بانگ دعووں اور ڈھائی سو کے لگ بھگ آپریشنز کے باوجود کچے کے مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ڈاکو پولیس کے خوف سے آزاد ہو کر وارداتیں کرتے ہیں۔ اب تک 23پولیس اہل کار ان ڈاکوئوں کے ہاتھوں شہید اور اتنے ہی زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے دو درجن سے زائد ڈاکو ہلاک کرنے کے علاوہ 200کے قریب ڈاکوئوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35سے 40افراد ان ڈاکوئوں کی تحویل میں ہیں جبکہ آزاد ذرائع مغویوں کی تعداد 200کے قریب بتاتے ہیں۔ آزاد ذرائع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں ڈویژنوں میں ہر ماہ 20سے 30افراد کروڑوں روپے تاوان ادا کر کے رہائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صورتِ حال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان جدید ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث اکیلی پولیس کا ان ڈاکوئوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کچے کے علاقے کے تین اطراف پولیس کے بے شمار تھانے اور چوکیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کشمور چھائونی، پنوں عاقل چھائونی اور ڈیرہ بگٹی چھائونی بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ جدید ترین اور خطرناک اسلحہ ان ڈاکوئوں تک کیسے پہنچا جس میں راکٹ لانچر تک موجود ہیں۔ یہ ڈاکو اتنے دلیر ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے یا دہشت قائم رکھنے کے لیے پولیس کی چوکیوں اور تھانوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ متعدد پولیس اہل کاروں کو بھی یہ لوگ اغوا کر چکے ہیں۔
ریاست کے اندر ریاست بنا کر یہ ڈاکو ریاستی رٹ کو ہی چیلنج نہیں کر رہے بلکہ پولیس اور پاک فوج کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔
قبل ازیں نگران سندھ کابینہ نے 14ستمبر 2023ء کو ہونے والے اجلاس میں سندھ کے ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کے لیے بڑا آپریشن کرنے اور اسلحہ سمگل کرنے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ آپریشن رینجرز اور پولیس نے مل کر کرنا تھا مگر بوجوہ یہ آپریشن شروع نہ ہو سکا اور بتایا یہ گیا کہ دریائے سندھ میں سیلابی پانی کی وجہ سے کچے کا بڑا علاقہ زیرِ آب ہے اس لیے ادھر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بعد میں یہ آپریشن ملتوی کر دیا گیا تھا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق کچے کے علاقے میں 238گائوں ہیں جن کی آبادی چار لاکھ ہے۔ سندھ پولیس نے کچے میں آٹھ تھانے اور 20چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ پولیس کا منصوبہ ہے کہ کشمور، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے چاروں اضلاع میں دریائے سندھ کے خفاظتی بند کے ساتھ 390پولیس کی چوکیاں قائم کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو جدید ہتھیاروں سے بھی لیس کیا جائے گا کیونکہ رپورٹ کے مطابق ڈاکوئوں کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے ملٹری گریڈ ہتھیار ہیں جو پولیس کی بکتر بند یا اے پی سی کے خلاف انتہائی موثر ہیں۔
اپریل 2016میں کچے کے چھوٹو گینگ نے 22پولیس اہل کاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ جوابی کارروائی میں سات پولیس والوں کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فوج سے مدد حاصل کی اور یہاں ’’ ضربِ آہن‘‘ کے نام سے گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا جس میں ڈاکوئوں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے تھے۔ جس کے بعد چھوٹو نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اس کے بعد کچے میں ڈاکوئوں کی دہشت کا وقتی طور پر تو خاتمہ ہو گیا مگر یہ سکون صرف ایک سال برقرار رہا اور چھوٹو گینگ کی باقیات سمیت مزید گروہ نئے ناموں سے سامنے آ گئے۔ 2019اور 2021میں بھی ڈاکوئوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیے گئے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ڈاکو بڑی تعداد میں علاقے سے فرار ہو جاتے ہیں اور بعد میں منظم ہو کر پھر کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکو اس قدر طاقتور نہیں ہیں کہ فوج اور پولیس کی مشترکہ کوشش کے سامنے ٹھہر سکیں۔ ان کے خلاف اگر فوج اور پولیس مل کر آپریشن کریں تو یہ گرینڈ آپریشن یقیناً کامیاب ہو جائے گا لیکن اصل مسئلہ آپریشن کے بعد ڈاکوئوں کو منظم ہونے سے روکنا ہے۔ ان کا کچے کے علاقے میں دوبارہ داخلہ روکنا ہی اصل چیلنج ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کچے کے علاقے ہی کو کیوں منتخب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے سندھ جوں جوں جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی روانی سست ہو جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب وسعت کی وجہ سے یہ دریا کئی ندی نالوں میں منقسم ہو جاتا ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان جزیروں تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں انتہائی دشوار ہو جاتی ہے۔ یہی مشکل ڈاکوئوں کے لیے آسانی بن جاتی ہے۔ وہ یہاں پناہ گزیں ہو کر پولیس کی پہنچ سے بچے رہتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ محض بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے مگر پلوں کی عدم موجودگی کے باعث ان جزیروں میں ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
کامیاب آپریشن کر کے اگر یہاں سے ڈاکوئوں کو نکال بھی دیا جائے تو کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ یہاں پہنچ جائیں گے۔ مستقبل میں ڈاکوئوں کی رسائی سے ان جزیروں کو دور رکھنا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟۔ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی زعما ء کو سر جوڑ کر سوچنا ہو گا۔ اس عفریت سے نجات کا مستقل حل نکالنا بہت ضروری ہے۔