واپسی کا راستہ ناممکن؟

روہیل اکبر
ہماری قوم کے پاس سوائے افواہوں کے کچھ نہیں اور تو اور ہم سچی خبروں کو چھوڑ کر جھوٹی اور من گھڑت خبروں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور تو اور اب ہمارا ذمہ دار میڈیا بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا شروع ہو چکا ہے، ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی خبروں کی پیچھے ہم اصل خبروں کو بھی بھول جاتے ہیں جبکہ پڑھی لکھی اور تہذیب یافتہ قوم اصل خبروں کا پیچھا ہی نہیں کرتی بلکہ انہیں ان کے انجام تک بھی پہنچا کر آتی ہے۔ ہم چونکہ علم حاصل کرتے ہیں نوکریوں کے لیے، مفادات کے لیے یا پھر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور مفتی لکھوانے کے لیے ہمارا تعلیم میں اس وقت کیا حشر ہے اس پر لکھنے سے پہلے دو چھوٹی سی خبروں پر توجہ چاہتا ہوں اور پھر ہمیں اپنا احتساب بھی کر لینا چاہیے کچھ دن پہلے وزیر معدنیات شیر علی گورچانی کی ٹیلی فون پر مک مکا کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں صوبائی وزیر معدنیات نے فون پر کان عباد کو دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کو معدنیات کا بلاک نیلامی کے ذریعے دیا جائے گا آپ کے لئے نیلامی کا راستہ نکالا ہے، نیلامی میں ڈال کر پلاٹ آپ کو دلوائیں گے، نیلامی میں پلاٹ کی منظوری آپ کی ہوجائے گی، جس پر عباد نے سوال کیا کہ آپ نیلامی کس طرح کریں گے؟ جواب میں شیر علی گورچانی بولے ہم چپ کر کے آپ کو پلاٹ دے دیں گے، جو پلاٹ آپ نے کہے ہیں وہی آپ کو دیں گے۔ اتوار کو لاہور آرہا ہوں پیر کو آپ سے ملاقات ہوگی، وزیر موصوف اتنی دیدہ دلیری سے کرپشن کی باتیں کر رہے ہیں کہ جیسے یہ نیکی کا کام ہو جبکہ انہوں نے اپنے دور میں بطور ڈپٹی سپیکر بھی اپنوں کو خوب نوازا ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس معاملہ پر کمیٹی بنا دی ہے، جو ابھی تک تو کچھ نہیں کر سکی۔ امید ہے کہ یہ خبر بھی بہت جلد عوام کی یادداشتوں سے غائب ہو جائیگی، یہ ہے ہماری قوم کا حال۔ اب دوسری خبر پر آتے ہیں کوئی دو دن پہلے ایک ٹی وی چینل نے سابق آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ کے خلاف ان کی گرفتاری کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلا دی، غیر ذمہ داری کی انتہا ہے کہ اس شخص کے خلاف خبر چلائی گئی جو ہر وقت آن لائن رہتا ہے اور ہر کسی کے رابطے میں ہوتا ہے، جب وہ آئی جی تھے تو ان کا اخلاق اور ملنا جلنا بھی مثالی تھا، ان کے دور میں میاں نواز شریف بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید رہے اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما بھی پابند سلاسل
رہے، مگر انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ کام پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دیا اور نہ ہی میرٹ سے ہٹ کر کسی کو کوئی سہولت دلوائی۔ ان کے دور میں جیلوں، جیلوں میں بند قیدیوں اور جیلوں میں تعینات ملازمین کے لیے بے انتہا کام ہوئے جو محکمہ جیل کی تاریخ میں آج تک نہ ہوسکے اور نہ ہی کوئی کر پائے گا۔ میاں فاروق نذیر بھی ایک بہادر اور مخلص انسان ہیں لیکن کچھ کاموں میں شاہد سلیم بیگ کا مقابلہ نہیں کر پائے، جس دن مرزا شاہد سلیم بیگ کے خلاف خبر چل رہی تھی، اس وقت مرزا صاحب میرے ساتھ ٹیلی فون پر بات کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے کہا کہ یہ کیا خبر چل رہی ہے اور دوبارہ فون کرنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ پھر انہوں نے چائے کے کپ کے ساتھ ویڈیو بنا کر جھوٹ کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ خبر چلانے والے نے انہیں ٹیلی فون تک کرنا گوارا نہیں کیا جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں اصلی اور جعلی خبروں کا محاسبہ کیا جاتا اور دونوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دوسروں کے لیے مثال بنا دیا جاتا ہے، تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کر سکے۔ یہ سب کچھ وہاں اور ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور ہم تو ویسے بھی شرح خواندگی 137ویں نمبر پر ہیں۔ اگر سکولوں اور کالجوں میں داخلوں کی بات کریں تو اس میں بھی ہمارا نمبر بالترتیب 132واں اور 104واں ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نظام تعلیم میں دنیا کے آخری نمبروں پر ہیں اور اگر جہالت کا ذکر کریں تو اس میں شائد ہم پہلے نمبروں پر آجائیں۔ قومی اعدادوشمار کے مطابق تعلیم کے لیے کل قومی بجٹ کا بہت کم ( صرف 12%) اعلیٰ تعلیم پر جاتا ہے، جس کا تقریباً 88%نچلی سطح کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، نچلے تعلیمی ادارے جیسے پرائمری سکول جہاں بچے ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بچے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں نظام تعلیم ایسا ہے کہ جو بچہ پرائمری سکول میں آتا ہے، اساتذہ کے رویوں سے بھاگ جاتا ہے یا پھر اس کے گھر کے معاشی حالات اسے آگے پڑھنے سے روک دیتے ہیں۔ پرائمری، مڈل اور ہائی حصے کو پڑھانے والے اساتذہ خود استحصال کا شکار ہیں، 15؍20سال تک ان کی ترقی نہیں ہوتی، جونیئر اساتذہ کو سینئر کے مقابلہ میں پرنسپل یا ہیڈ ماسٹر بنا دیا جاتا ہے۔ سکولوں میں بچوں کے لیے تو کیا سٹاف کیلئے کوئی سہولت نہیں ہوتی۔ لاہور کے اکثر سکولوں کے باہر گندگی کے ڈھیر جمع ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہم لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں یا پھر وسائل نہ ہونے کے سبب انہیں تعلیم نہیں دلوا سکتے اور جو بچے ان سرکاری سکولوں اور یونیورسٹیوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں، وہ اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے نوکریوں کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہم آئی ٹی کے شعبے میں کچھ کمانے لگے تھے تو ہماری حکومت نے انٹرنیٹ کا بھٹہ بٹھا دیا۔ سست ترین سپیڈ کی بدولت انٹرنیشنل کمپنیاں پاکستان کو چھوڑ کر جارہی ہیں اور ملکی حالات کو دیکھ کر جو کچھ ٹیلنٹ والے لوگ بچ گئے تھے وہ بھی یہاں سے بھاگنے کی کوششوں میں ہیں۔ رہی بات حکومت کی، وہ اپنے مخالفین سے انتقام لینے اور بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام کا خون نچوڑنے میں مصروف ہے۔ اس وقت کسی کو کسی کی کوئی پروا نہیں، اگر کسی کو پروا ہے تو وہ چند لوگ ہیں جو کسی نہ کسی صورت اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے تعلیم کو عام کرنے کی، کیونکہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے اور جب تک ہم تعلیم سے دور ہیں، تب تک ہم ترقی اور خوشحالی سے دور رہیں گے۔
ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نے بھی فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔
ہمارے حکمرانوں نے ہمیں چین توکیا اپنے ہی سرکاری سکولوں میں بھی جانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا کیونکہ روایتی تعلیم حاصل کرنا بھی اب غریب کے بچوں کے بس میں نہیں رہا، اگر یہی حالات رہے تو پھر کیا بنے گا اور حالات کس طرف جائیں شائد اس بات کا کسی کو اندازہ نہیں، کیونکہ جہالت سے بڑھ کر کوئی ہمارا دوسرا دشمن نہیں ہے اور دشمنی میں ہم پہلے ہی بہت آگے جاچکے، اتنا آگے کہ جہاں سے واپسی کا راستہ ناممکن ہو جاتا ہے۔