ColumnImtiaz Aasi

روضہ اقدس کے خادم سے وابستہ یادیں

امتیاز عاصی
مدینہ منورہ مسلمانان عالم کے لئے مقدس شہر ہے۔ اس شہر کی فضیلت رسالت مآبؐ سے جڑی ہے۔ ہجرت سے قبل اسی شہر کو یثرب کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ نبی آخرالزمانؐ نے مکہ مکرمہ سے اپنے غار کے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ہجرت فرمائی تو اہل یثرب گھوپ اندھیروں سے نکل کر روشنی میں لوٹ آئے ۔ سرکار دو عالمؐ نے سات روز تک انصار مدینہ کے سردار کلثوم بن ھدم کے ہاں قیام فرمایا اور وہیں اسلام کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جسے مسجد قباء کہتے ہیں۔ مسجد قباء میں نوافل پڑھنی کا ثواب عمرہ کے برابر ملتا ہے۔ مدینہ منورہ میں سرکار دو جہاںؐ نے حضرت ایوب انصاریؓ کے گھر قیام فرمایا اور مسجد بنویؐ کی بنیاد رکھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور کی بات ہے میں وفاقی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ مقصود شیخ سے اپنے دیرینہ دوست بیوروکریٹ ایس ایم اسماعیل کے ساتھ جو اسی وزارت میں پیپلز پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل تھے ملاقات کے لئے گیا تو چند لمحوں بعد سعودیوں کی طرح سر پر سرخ رومال رکھے ایک بزرگ ان کے آفس میں داخل ہوئے تو سیکرٹری صاحب بلاتعمل کھڑے ہوگئے، چند قدم آگے بڑھتے ہوئے انہیں گلے لگا لیا۔ چنانچہ میں بھی احتراما کھڑا ہوگیا اور ان سے مصافحہ کیا۔ مقصود شیخ نے تعارف کرایا آپ صوفی نذیر احمد ہیں جو برسوں ہجرہ رسولؐ پر خادم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ مدینہ منورہ کا ذکر آتے ہی لامحالہ میری توجہ صوفی صاحب کی طرف اور زیادہ ہوگئی۔ صوفی صاحب کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا وہ گزشتہ چھ عشروں سے شہر نبیؐ میں قیام پذیر تھے۔ صوفی صاحب سے دوسری ملاقات1997ء کے اوائل میں اس وقت ہوئی جب وزارت مذہبی امور نے مجھے مدینہ منورہ میں دو پاکستان ہائوسز کا نگران مقرر کیا۔ مجھے اپنے فرائض سنبھالے چند روز ہوئے تھے ایک روز صوفی صاحب کا فون آگیا۔ انہیں یاد نہیں تھا میری ان سے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے دفتر میں اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی۔ بس حال احوال کے بعد فرمانے لگے ہاوسز کے ملازمین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو سختی سے نہ پیش آیا کرو۔ پاکستان ہاوسز کا انتظام میرے پیش رو نے بہت خراب کر رکھا تھا ہائوسز سے ہونے والی آمدن کی رقم بنک میں جمع نہیں ہوتی تھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مہربانی سے پاکستان ہائوسز کی تاریخ میں پہلی بار میں نے ایک حج موسم میں چھ لاکھ ریال کرایوں کی رقم سے جمع کرکے بینک الجزیرہ میں ڈپیازٹ کرائے اور حج مشن کی طرف سے ہمیں دو ہزار ریال انعام دیا گیا۔ جناب صوفی نذیر کا مہمان نوازی میں کوئی ثانی نہیں تھا وہ ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے تھے ان کی ضیافت میں مندی ضرور ہوتی تھی۔ روضہ اقدس میں برسوں صفائی کا اعزاز انہیں حاصل تھا جو کسی مسلمان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ پاکستان سے مدینہ منورہ جانے والا ہر پاکستانی ان سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا تھا۔ ایک ایسا مقدس مقام جو عام زائر کی دسترس سے باہر ہو اور صوفی صاحب کو قریب ترین جا کر صفائی کی سعادت حاصل تھی۔ چند روز پہلے میرے محترم دوست اور سنیئر صحافی بشارت علی سید نے صوفی صاحب کی تصویر بھیجی تو جن صوفی صاحب کو میں نے 1997ء میں دیکھا تھا وہ نہیں تھے بلکہ ان کا چہرہ پرنور اور بہت عمر رسیدہ تھے۔ تصویر دیکھ کر مجھے مرحوم امام کعبہ شیخ ابن سبیل یاد آگئے صوفی صاحب کا چہرہ پرنور اور شیخ ابن سبیل سے بڑی مشاہبت تھی۔ صوفی صاحب کی رہائش پاکستان ہائوس نمبر دو کی پچھلی جانب شاہراہ سیدنا امیر حمزہؓ پر پاکستان ہائوس سے زیادہ دور نہیں تھی۔ میں اکثر صوفی صاحب کے ہاں حاضری کے لئے جاتا تو ان کے ہاں مہمانوں کا مجمع لگا ہوتا تھا۔ پاکستان سے سعودی عرب جانے والی ملک کی اعلیٰ شخصیات صوفی صاحب سے ملاقات کئے بغیر واپس نہیں جاتی تھیں۔ صوفی صاحب کسی بڑے سے بڑے سے کسی قسم کی کوئی فرمائش نہیں کرتے تھے بلکہ وزراء اور ارکان اسمبلی ان کی کچھ نہ کچھ مالی مدد کرنا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے تھے۔ مدینہ منورہ
میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کئی عشروں سے مقیم ہے جو عزت و احترام صوفی صاحب کو ملا کسی اور پاکستانی کے حصے میں نہیں آیا۔ درحقیقت بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان بھلا نہیں سکتا انہی شخصیات میں صوفی نذیر بھی تھے۔ عام طور پر مسجد نبویؐ میں خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی ملازمت کا کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد وطن واپس آجاتے ہیں، گویا صوفی صاحب ان خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں ہجرہ رسولؐ کی خدمات سے سبکدوش ہونے کے باوجود مقدس شہر میں قیام کا اعزاز حاصل تھا۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران صوفی صاحب سے یاد اللہ کے علاوہ ایک عزیز دوست محمد صدیق حیات مرحوم سے میری گہری دوستی تھی۔ وہ چالیس سال تک مدینہ منورہ میں قیام کے بعد واپس وطن واپس آکر حج ٹور آپریٹر تھے لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور دو سال قبل دنیا کو سدھار گے۔ مدینہ منورہ میں دو پاکستانی شخصیت ایسی تھیں جنہیں مدینہ منورہ کے مرئی اور غیر مرئی آثار بارے معلومات تھیں۔ جی وہ بابا فقیر محمد تھے جو پاکستان ہائوس میں زائرین کو زیارات کرانے پر مامور تھے۔ حسن اتفاق جناب صوفی نذیر صاحب اور بابا فقیر محمد کا تعلق پاکستان میں جنوبی پنجاب سے تھا۔ اگرچہ صوفی نذیر صاحب کو مسجد نبویؐ میں ان تاریخی مقامات بارے خاصی معلومات تھیں لیکن وہ لوگوں کو بتانے میں خاصے محتاط تھے جب کہ بابا فقیر صاحب تو ہمیں مسجد نبویؐ میں ان جگہوں پر لے گئے جن کا تذکرہ مشہور سعودی تاریخ دان یاسین خیاری کی کتاب تاریخ معالم المدینہ و منورہ قدیما و حدیثا میں ملتا ہے۔ صوفی صاحب گردوں کے عارضہ کے باعث کنگ فہد ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ چند روز پہلے ہمارے دوست جاوید بٹ نے بشارت علی سید صاحب کو اطلاع دی صوفی صاحب زندگی کی تمام مشکلات اور مصائب سے آزاد ہو کر منعم حقیقی کے ہاں حاضر ہوگئے، جہاں ہم سب نے جلد یا با دیر جانا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ صوفی نذیر صاحب کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے امین۔

جواب دیں

Back to top button