Column

بجلی کا مسئلہ

صفدر علی حیدری

بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا اور موثر ذریعہ پانی سے بجلی پیدا کرنا ہے۔ اس سے دوہرا فائدہ ہوتا ہے۔ ڈیموں بنانے سے نہ صرف بجلی پیدا ہوتی ہے بلکہ پانی کو ذخیرہ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ڈیموں کو بھرنے میں سیلانی پانی سے مدد لی جاتی ہے سو اس سے سیلاب کی تباہ کاری سے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کے نہری نظام کو دنیا میں بہترین مانا جاتا ہے۔ مگر افسوس ہم ڈیم بنانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہاں ہر چیز سیاست کا ایندھن بنتی ہے، سو ڈیم بھی سیاست کی نذر ہوئے اور کالا باغ جیسا عظیم منصوبہ اپنوں کی حماقت کی وجہ سے تشنہ تکمیل رہا ۔ ایک عظم منصوبہ جس کا فائدہ پورے ملک ( خاص طور پر پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں کو ہوتا ) کو ہوتا ، ترک کر دیا گیا۔ اگر وہ منصوبہ بن جاتا تو منگلا اور تربیلا ڈیم کی لائف بھی بڑھ جاتی ۔ ہم بے رحم آئی پی پیز کے شکنجے میں پھنسنے سے بھی بچ جاتے۔
ہماری آپسی لڑائی کا فائدہ بھارت کو ہوا اور اس نے ہمارے دریائوں پر ڈیم بنا لیے۔ عالمی عدالت میں اس ایک مقدمہ صرف اس بات پر جیف لیا کہ جب یہ اپنے حصے کا پانی سمندر میں ڈال کر ضائع کر دیتے ہیں تو ہم کیوں نہ اس کو کام میں لائیں ۔
دنیا میں ہر وہ ملک جس میں دریا موجود ہیں ، ڈیموں کی تعمیر کو اولین ترجیح دیتا ہے سوائے وطن عزیز کے ۔ دو بڑے ڈیموں کے بعد ہم نے اب تک کوئی ڈیم نہیں بنایا ۔ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک ماہ سے بھی کم ہے ۔1992 ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں پائیدار ترقی کے موضوع پر ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس ( جس میں پاکستان کی نمائندگی، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کی تھی) میں ’’ پانی کا عالمی دن ‘‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد 1993ء سے ہر سال 22مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کے لیے ایک موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
رواں سال پانی کے عالمی دن کا موضوع ’’ پانی امن کے لیے‘‘ رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا میں ہونے والی ایک چوتھائی قدرتی آفات کا تعلق پانی سے ہے، اس وقت دنیا میں 3.6ارب لوگوں کو سال میں کم از کم ایک مہینا ضرورت کے مطابق پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 2025تک یہ تعداد 5ارب پہنچ جانے کی توقع ہے ، دنیا بھر میں 2سے 3ارب لوگوں خصوصا شہروں میں لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ آنے والے وقتوں میں شہری آبادیاں اس قلت میں مزید اضافے کا سامنا کریں گی۔
ورلڈ اکنامک فورم نے 2012کے بعد سے دنیا کو لاحق پانچ بڑے خطرات کی فہرست میں پانی کے بحران کو بھی شامل کیا۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر منٹ پر 23ایکڑ رقبہ پانی کی قلت کے باعث بنجر ہوتا جارہا ہے ۔ ادارے کی تحقیق کے مطابق 2045ء تک 135ملین عالمی آبادی کو پانی کی قلت کی وجہ سے اپنی آبائی رہائش گا ہیں چھوڑنے پر مجبور ہوگی۔
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)کے مطابق پانی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، یہ تبدیلیاں کرئہ ارض پر موجود صاف پانی کے ذخائر کو پیچیدہ طریقوں سے متاثر کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی کمی اور پانی سے متعلقہ خطرات جن میں سیلاب اور خشک سالی شامل ہیں، میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں کیونکہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بارشوں کے پیٹرن او ر پورے آبی چکر کو متاثر کر رہا ہے، آئی پی سی سی کی مطابق پانی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بار بار آنے والے سیلاب اور خشک سالی پانی کی آلودگی کی متعدد نئی شکلوں کو جنم دے رہی ہے ۔اس وقت دنیا کے 153ممالک تقریبا 900دریائوں، جھیلوں اور آبی نظاموں کے مشترکہ مالک ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد ملکوں نے پانی کے حوالے سے ایک دوسرے سے معاہدے بھی کر رکھے ہیں جن میں پاکستان اور ہندوستان کے مابین کیا جانے والا ’’ سندھ طاس معاہدہ‘‘ بھی ہے، لیکن ان معاہدوں کے باوجود جب پانی تک رسائی اور اس کی غیر منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے تو یہ امر تنازعات کو بھڑکانے کے ساتھ اس میں شدت بھی پیدا کر دیتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے تنازعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ ان ملکوں کے اندر بھی تنازعات میں شدت آتی جا رہی ہے جس کی مثال پاکستان اور ہندوستان ہیں ، دونوں ملکوں میں بین السرحدی آبی کشیدگی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف ان دونوں ممالک میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ملکوں میں نمبر تین پر اور پانی کو ضائع کرنے والے ملکوں کی درجہ بندی میں نمبر چار پر ہے۔ یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان کو 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے آثار ملک کے مختلف حصوں میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں، خاص طور پر ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے تناظر میں ۔
آبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس حوالے اسے اگر ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اور صورتحال اسی طرح جاری رہتی ہے تو 2040 ء تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت کا شکار ملک ہوگا۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30دنوں کی تھی لیکن اب اس میں بتدریج کمی آتی جا رہی ہے تو دوسری طرف ہندوستان 190دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے اور2030ء تک وہ اس صلاحیت کو 250دنوں تک بڑھانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں ممالک اپنے دستیاب پانی کا 40فیصد ذخیرہ کرتے ہیں جب کہ ہم اپنے دستیاب پانی کا صرف 10 فیصد ہی محفوظ کر پاتے ہیں ۔ پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا سالانہ 29ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اوسط شرح 10ملین ایکڑ فٹ ہے
آبی ماہرین کے اندازوں کے مطابق ضائع ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جتنے 3بڑے ڈیم درکار ہیں لیکن مملکت خدا داد میں نہ صرف ڈیموں کی تعمیر بلکہ پانی کا مسئلہ ہی سیاست کی نذر ہو چکا ہے ۔ سنتے آئے ہیں کہ کے پی کے میں ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس وقت دنیا میں چھوٹے ڈیموں کو بنانے پر زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے ۔ گویا چھوٹے ڈیم بنانا زیادہ آسان ہے اور اس کو مقامی وسائل سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ مستقل قریب میں ڈیموں کے حوالے سے کسی اچھی خبر کی امید بہت کم ہے ۔ قوم آئی پی پیز کے چنگل میں پھنس چکی ہے ۔ اس سے بچنے کا واحد سولر پینلز ہی ہیں ، جن کے بارے یہ بتایا گیا کہ پنجاب حکومت صارفین کو سولر پینلز فراہم کرے گی ۔
14 اگست کو قرعہ اندازی سے دو لاکھ لوگوں کا انتخاب کیا جانا تھا ، تا حال اس حوالے سے قوم بے خبر ہے کہ وہ کون سے خوش نصیب ہیں جن کا نام قرعہ اندازی میں نکلا ہے۔ یہ ایک اچھا منصوبہ ہے ۔ چاروں صوبوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر مفت فراہم کرنا مشکل ہو تو پانچ سالہ اقساط پر فراہم کرنا چاہیے۔ اس سے آئی پی پیز کے ظلم سے قوم کو بچانے میں مدد ملے گی ۔ ملک میں بجلی کی کھپت میں کمی ہو گی۔ تجارتی پیمانے پر بجلی کی فروخت میں اضافہ ہو گا۔ سولر پینلز کی وجہ سے ملک لوڈ شیڈنگ سے بھی چھٹکارا پائے گا۔

جواب دیں

Back to top button