Column

مثبت سوچ اور متوازن زندگی

تحریر : صفدر علی حیدری
زندگی میں توازن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ اگر توازن نہ ہو تو ہماری ٹانگیں ہمارے جسم کا بوجھ اٹھانے سے ہاتھ اٹھا لیتی ہیں اور انسان دھڑام سے گرتا ہے۔ گاہے صرف اس کا جسم اور گاہے اس کا مقام بھی۔
میری نظر میں’’ توازن زندگی کا حسن ہے اور توازن کے حسین ترین اظہار کو مثبت طرز عمل کہتے ہیں ‘‘۔
گویا مثبت طرز فکر توازن کا دوسرا نام ہے۔ اگر یہ فکر صرف ذہن کے نہاں خانوں تک محدود رہے تو اسے ناقص مانا جائے گا۔ ہاں اگر یہ طرز فکر ، طرز عمل بن جائے تو بات بن جائے، زندگی سنور جائے، عاقبت بن جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو طبیعت بن جائے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انا، ضد، تعصب، حسد ، عصبیت جیسے منفی عناصر انسان کی زنبیل سے توازن کی نعمت چرا لیا کرتے ہیں۔ زندگی کا یہ حسن مذموم خواہشات کے ہاتھوں یرغمال ہو جاتا ہے، جس کا مآل تباہی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ہمیں ہمارا دین توازن سکھاتا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی سے کام لینے کی ہدایت دیتا ہے۔ کس قدر حیرت کا مقام ہے کی جس دین نے انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت قرار دیا ہو، وہ عبادت کو بھی توازن کے ترازو میں تولنے کی بات کرتا ہے۔ اسلام ہمیں عدل کی تعلیم دیتا ہے یعنی ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا۔ یعنی جس چیز کی جو اہمیت ہو اسے اتنی اہمیت دینا۔ اس لحاظ سے ایمان ، ہدایت ، رزق وغیرہ کی جو اہمیت بنتی ہے اسے وہ اہمیت دینا عدل کہلائے گا جس سے انسان کی زندگی میں توازن اترے گا۔ اب توازن ذہنی ہو روحانی یا جسمانی ، انسان کی اولین ضرورت ہے۔ توازن انسان کو مثبت اقدار کا رسیا بناتا ہے۔ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں سارے کا سارا حسن اسی کا رہینِ منت ہے ۔
’’ تلخی برداشت کرنا اور گھر کا سکھ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ‘‘ جو اس بات کو سمجھ لیتا ہے فیض یاب ہوتا ہے اور جو تلخی برداشت نہیں کرتا ، اس کی زندگی تلخی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ہماری عمومی رویہ منفی ہے۔ ہم اکثر تاریک پہلو ڈھونڈنے لگتے ہیں ۔ یہ منفی طرز فکر ہر خرابی کی بنیاد ہے ۔ ہماری زبان ہمارے منفی طرز عمل کو دوسروں پر ظاہر کرتی ہے تو تعلقات بگاڑ کا شکار ہو جائے ہیں۔ برسوں کا رشتہ ، کوئی گہرا تعلق ، چند لفظوں کی بے احتیاطی کے سبب ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، اس میں زہر ’’ رل مل ‘‘ جاتا ہے ۔
اب دیکھیے ایک آدمی کا ذکر ہو رہا تھا کہ اتفاق سے وہ آپ کے سامنے آ جاتا ہے ۔ اب اس پر آپ کا ردعمل دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ پہلا ’’ یار بڑی لمبی عمر ہے تمہاری ، میں ابھی تمہیں یاد کر رہا تھا ‘‘، دوسرا’’ ابھی شیطان کو یاد کیا تھا اور آ بھی گیا ‘‘۔ اس ظاہر ہے دوسرا جملہ سن کر کسی کے چہرے پر خوشی کے تاثرات نمایاں نہیں ہوں گے ۔ گویا حسن ظن اور نیک شگون کی ہدایت دیتا ہے اور سوئے ظن سے روکتا ہے۔ ہمارا دین ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر مثبت طرز عمل کی ہدایت دیتا ہے۔ اب اگر کوئی آپ کے حوالے سے کسی منفی کا اظہار کرتا ہے تو اس کا بہترین ردعمل بھی مثبت طرز فکر ہی ہے، مثلاً کوئی آپ کے بارے یہ کہے کہ وہ فلاں کام میں ناکام ہوں گے تو اس بات کو دل سے نہ لگا لیں ۔ بلکہ اس کو مثبت انداز میں لیں اور اپنے مہربان کو غلط ثابت کریں۔ اور اگر کوئی آپ کے حوالے سے کسی مثبت کام کی امید رکھے مگر آپ میں وہ خوبی سرے سے موجود ہی نہ ہو تو پھر انسان کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کی امید پر پورا اترے ۔ اس ایک مثال سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی منفی رائے قائم کرے تو اسے مثبت انداز سے لیں اور اگر کوئی مثبت رائے رکھے تو اس کو سچ ثابت کرتے ہوئے مثبت پیش رفت کریں۔
انسان کو شکی ، منفی پسند ، بد خواہ ، بد گمان نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ مثبت سوچ کا فائدہ نہ صرف مثبت سوچ رکھنے والے کو ہوتا ہے بلکہ اس سے جڑے لوگ بھی یکساں طور پر فیض یاب ہوتے ہیں۔ انسان کو یقین حاصل ہو جائے تو شک کرنا غلط ہے۔ اسی لیے جن لوگوں کو وہم ہو جائے انھیں وہم دور کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ کوئی آپ پر اعتبار کرے تو بقول مولا علی اس کو دھوکا دینا کفر ہے ۔
اک سائنس نے بھی ثابت کیا ہے کہ منفی جذبات ( حسد ، بغض ، تعصب ، عصبیت وغیرہ ) انسان کت جسم اور روح کے لیے ضرر رساں ہیں ۔ جب انسان منفی انداز سے سوچتا ہے تو اس کے دماغ سے ایسی رطوبات خارج ہوتی ہیں جو اس کے جسم کے لیے انتہائی نقصان کا سبب ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں منفی سوچنے والا اپنی سوچ سے چھٹکارا نہیں حاصل کر پاتا ۔ اس مثال اس آدمی جیسی ہوتی ہے جو ایک ہی پکڈنڈی پر چل چل کر اسی کا عادی ہو جاتا ہے۔ سو ہر بار چاہتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے ، وہ اسی ایک ہی راستے پر چل نکلتا ہے۔
سو پیاری قارئین ، مثبت سوچئے ، مثبت قدم اٹھائیے اور مثبت نتائج پائیے ۔ آپ کی زندگی متوازن ہو جائے گی، اس میں توازن کا حسن پیدا ہو جائے گا ۔
یقین کریں آپ کو سب کچھ بدلا ہوا محسوس ہو گا۔ اور اس خوش گوار تبدیلی پر آپ خود بھی حیران رہ جائیں گے، ان شاء اللہ۔

جواب دیں

Back to top button