Ali HassanColumn

میجر جنرل اکبر خان ( ریٹائرڈ)

علی حسن
راولپنڈی سازش کیس۔ اس ملک میں اس اعتبار سے مشہور ہے کہ یہ فوج کے بعض افسروں پر مشتمل ایک گروہ کی مبینہ سازش تھی کہ صرف چار سال قبل آزاد ہوئے ملک میں قائم سول حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی مرضی کی حکومت قائم کر دی جائے۔ اکبر خان اپنے زمانے کے مشہور جنرل ، اس سازش کے سرغنہ کی حیثیت سے متعارف ہوئے تھے، سازش کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے، ورنہ بغاوت کا الزام تو اپنی جگہ برقرار ہی رہتا ہے۔ اکبر خان کو جنگ کشمیر کے سلسلے میں فوج کے ایک گروہ اور عوام میں جو پذیرائی حاصل ہوئی تھی، 1951ء میں بغاوت کے الزام میں ان کی گرفتاری نے ان کے پورے مستقبل کو دائو پر لگا دیا۔ ممکن ہے وہ گرفتار نہ ہوتے تو پاکستان افواج کی تاریخ مختلف ہوتی اور ان کی مبینہ بغاوت کامیاب ہو جاتی تو بھی کم از کم ان کے خیال میں نقشہ مختلف ہوتا۔ انہیں اپنی غلطیوں کا شدت سے احساس ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر زندگی دوبارہ ملے تو وہ غلطیاں نہیں کروں گا جو اپنی اس زندگی میں سرزد ہوئی ہیں۔ ہر فوجی جنرل کی طرح جنرل اکبر کا بھی اپنا ایک مخصوص مزاج ہے، اپنی ایک سوچ ہے، جس پر وہ اپنی عمر کے اس حصے میں بھی ( جنرل اکبر کا یوم پیدائش 24دسمبر 1921ء ہے) قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور ثانی میں بھٹو مرحوم نے انہیں اپنا قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا تھا۔ 1955ء سے باضابطہ طور پر سیاست کر رہے ہیں۔ پہلے عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی پھر1968ء میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ بھٹو مرحوم نے ان سے فوج کو قابو میں رکھنے کے سلسلے میں مختلف تجاویز تیار کرائیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا یا نہ ہو سکا۔
علی حسن: جنرل اکبر صاحب عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ میں جو کیس ہوا تھا جس کو راولپنڈی سازش کیس کہا جاتا ہے، ملک میں بار بار مارشل لاء کے نفاذ کا سبب بنا ہے اور یہ کہ ہمارے جنرلوں کو ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا خیال اسی کیس کی وجہ سے آیا تھا۔
جنرل محمد اکبر خان : یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ مجھ سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ لوگ بھی مارشل لا نافذ کرنا چاہتے تھے ؟ اس وقت ہمارا خیال مارشل لا نافذ کرنے کا نہیں تھا۔ اس وقت ہمارا اختلاف حکومت کے ساتھ کشمیر کی آزادی کے مسئلہ پر تھا ، جنگ بندی قبول کرنے کے سلسلے میں تھا اور یہ کہ لیاقت علی خان نے آئین بنانے میں زیادہ تاخیر کی تھی۔ ہم لوگ زیادہ تر جو چاہتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہو۔ ہم نے بعد میں آنے والے جنرلوں کو کوئی راستہ نہیں دکھایا۔ اگر ہم کامیاب ہوتے تو ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگاتے۔ عبوری حکومت قائم کر کے قانون ساز اسمبلی کے لئے عام انتخابات کراتے اور عام انتخابات کے بعد دوبارہ سول حکومت قائم ہو جاتی۔
سوال: یہ جو آپ کا پلان تھا جس کو سازش کہا جاتا ہے یہ پلان آپ کے ذہن میں کیوں آیا تھا؟
جواب: میرے خیال میں یہ پلان میرے ذہن میں خود بخود آیا ہو گا۔ بات دراصل یہ تھی کہ میں خود فوج کے افسران میں زیادہ مقبول تھا اور وہ میرے طرف ہی دیکھتے تھے اور میرے خیالات کی پیروی کرتے تھے۔ حکومت کے ساتھ ہمارے خیالات میں ہم آہنگی نہیں تھی۔ میجر جنرل نذیر احمد جو مجھ سے سینئر تھے وہ بھی اس سازش میں ہمارے ساتھ شامل تھے اور انہیں خیالات کے حامی تھے جو ہمارے تھے۔ ہم نے کوئی میٹنگ وغیرہ نہیں کی تھی جس میں مستقبل کے سلسلے میں کوئی بحث و مباحثہ کیا گیا ہو۔ لوگوں نے عام طور سے مجھ کو میری حمایت کا یقین دلایا تھا۔ میرے خیال میں پچاس ساٹھ افسران ہمارے ساتھ تھے جس میں سے حکومت نے پندرہ کو گرفتار کر لیا اور ان پر مقدمہ بھی چلایا۔ فیض احمد فیض اور سجاد احمد ظہیر جیسے لوگ بھی ہمارے ساتھ گرفتار ہوئے تھے یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ لوگ کم از کم مارشل لا کے حامی نہیں تھے۔ وہ کیوں میرے ساتھ تھے ؟ اس لئے کہ وہ بھی نہیں چاہتے تھے۔ میں خود صوبہ سرحد کا رہنے والا تھا اور ہم نے ساری عمر کوشش کی تھی کہ ملک کو آزادی مل جائے۔
سوال۔ ابھی آپ نے کہا کہ لوگوں نے آپ کو اپنی حمایت پیش کی تھی ، جب آپ نے اس سے کوئی discussion ہی کیا تھا تو پھر انہوں نے حمایت کس بات پر کی تھی ؟
جواب: ( قہقہہ لگاتے ہوئے) مجھے ایسے ہی سپورٹ کیا۔ صورتحال یہ تھی کہ ایئر کموڈور جنجوعہ جو ایئر فورس کے افسر تھے بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے تھے وہ بھی حکومت کے مخالف تھے۔ زیادہ تر لوگ حکومت کے مخالف تھے اور میرے بارے میں بھی انہیں علم تھا کہ میں حکومت کا مخالف ہوں ۔
سوال : آپ حکومت کے مخالف کیوں ہو گئے تھے جبکہ اس وقت تو ملک نیا نیا بنا تھا؟
جواب: نیا ملک تو بنا تھا لیکن کشمیر کے سلسلے میں اختلافات ہو گئے تھے۔ کیوں کہ ہم نے کشمیر جا کر لڑائی لڑی تھی وہاں محاذ آرائی کی تھی۔ مختلف قبائل کو جمع کر کے ان کی رہنمائی کی تھی اور پھر ہم سے پوچھے بغیر جنگ بندی قبول کرلی گئی۔ اور ایسی شرائط پر جو کہ ہمارے لئے favourableنہیں تھیں۔ اس وجہ سے ہمارے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں لیاقت علی خان کا مخالف ہو گیا تھا کہ انہوں نے آئین سازی میں بہت تاخیر کر دی تھی۔ میں نے تجاویز بھی پیش کی تھیں ایک بار نہیں کئی بار ان تجاویز میں یہ تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے ایک دفعہ ہمارے ساتھ تین گھنٹے کا انٹرویو بھی کیا تھا جس میں انہوں نے تایا تھا کہ چھ ماہ کے اندر اندر کارروائی کا دوبارہ آغاز کر دیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
سوال: آپ کا پروگرام یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھی قبضہ کر لیں۔
جواب: ہمارا خیال یہ تھا کہ اس پر کسی نہ کسی طرح قبضہ کر لیا جائے۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ قبائل بھی کشمیر میں آئے ہوئے ہیں اور ان کی کار کردگی بھی اچھی تھی کشمیر کے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں جس طرح آج کل فلسطین کے لوگ کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ کشمیریوں کی اپنی کوئی آرگنائزیشن ہو جو جنگ بندی کے بعد بھی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک understandingہوئی تھی کہ دونوں علاقوں میں لوگوں کو حق خود ارادی کے استعمال کا موقع دیا جائے گا لیکن یہ اس وقت ہو گا جب ہندوستان کی بھی خواہش ہو۔ یہ شرط ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے میں بھی اور دوسرے فوجی افسر بھی ناراض تھے پھر جب یہ اکتوبر1947ء میں قبائل آگے بڑھے اور انہوں نے مظفر آباد پر قبضہ کر لیا وہاں سے آگے بڑھے اور اڑی چلے گئے اور پھر بارہ مولا اس وقت لیاقت علی خان نے لاہور میں ایک کانفرنس بلائی اس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا انہوں نے اس لئے مدعو کیا تھا کہ مجھے انہوں نے خود کشمیر کے سلسلے میں adviceدینے کے لئے appointکیا تھا کانفرنس میں میں نے کہا تھا کہ اب سری نگر پر ہمارا الیکشن ہونا چاہتے۔ اور ہمیں تین ہزار اقبال جو سیالکوٹ میں موجود ہیں بھیج دینا چاہئے لیکن انہوں نے اس بات کی مخالفت کی انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ ہماری لڑائی چھڑ جائے گی اور اس سے ہمارے لئے زیادہ خطرہ ہوگا۔ کانفرنس کے شرکا نے انہیں سپورٹ کیا تھا۔ ایوب خان اسکندر مرزا اور یکی خان نے ان کو سپورٹ نہیں کیا تھا۔ لیاقت علی خان کی میں ذاتی طور پر عزت کرتا تھا لیکن آئین کے مسئلہ پر میری ان سے مخالفت ہو گئی تھی۔ وہ آئین کی تیاری کے سلسلے میں تاخیر کر رہے تھے۔ انہوں نے نے ایک قرار داد مقاصد پاس کرا لی تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ملک میں امیر المومنین بن جائیں۔
میں نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب حکومت کے خلاف کچھ نہ کریں۔ ہماری ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں سازش میں شریک تمام conspirators موجود تھے، جس میں فیصلہ کیا تھا کہ اب حکومت کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہئے۔ یہ میٹنگ فروری میں ہوئی تھی۔ مارچ 1951ء میں مجھے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ حکومت نے وہ قانون بھی تبدیل کر دیا تھا، جس کے تحت ہمارا ٹرائل ہو رہا تھا۔ گواہی تو ہوگی نا۔ عام طور پر قانون کے تحت وہ گواہی بن جاتی ہے اور ان کے خلاف بھی جانی لیکن حکومت نے قانون میں ایسی ترمیم کر دی جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی گنجائش نہیں تھی دوسرے یہ کہ جس شخص نے اس سازش کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی اس کو بھی پیش نہیں کیا گیا۔ جس وقت مجھے گرفتار کیا تھا اور جو احکامات دیئے گئے تھے ان پر درج تھا کہ گورنر جنرل نے انڈین آرمی ایکٹ کے سیکشن کے تحت فوج سے میری برخاستگی کا حکم جاری کیا ہے۔ میں نے اسی کاغذ پر لکھ دیا کہ گورنر جنرل کو مجھے ملازمت سے برخاست کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ میرا کورٹ مارشل ہونا چاہئے۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا۔
ایوب ان نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹر میں لکھا ہے کہ اس کو لیاقت علی خان نے مطلع کیا کہ ان کی حکومت کے خلاف کسی سازش کا پتہ چلا ہے۔
سوال: ایوب خان نے دوستی کا بھی خیال نہیں کیا؟
جواب: ایوب خان دوستی میں تو برے آدمی نہیں تھے لیکن یہ ضرور تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں ایوب خان کو سی این سی کبھی نہ بناتا۔ وہ لوگ ( حکومت) شاید مجھے ہی سی این سی بنا دیتی اگر میں تھوڑی دیر اور ٹھہرتا۔ یہ بات مجھ سے اسکندر مرزا نے میری گرفتاری کے بعد جیل سے ضمانت پر رہا ہونے پر بتائی۔ میں رہائی کے بعد سکندر مرزا سے ملا تھا۔ سکندر مرزا نے مجھ سے کہا تھا کہ حکومت کے خلاف سازش میں تم نے حبیب اللہ خان کو اعتماد میں کیوں لیا تھا۔ تمہیں معلوم نہیں کہ حبیب اللہ خان کا تعلق قلی خان فیملی سے ہے جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
سوال :قلی خان فیملی ناقابل اعتماد تصور کی جاتی ہے؟
جواب : عام لوگ قلی خان فیملی کو نا قابل اعتماد اور انگریز ان کو بھروسے کا آدمی تصور کرتے تھے۔ اس زمانے میں قلی خان فیملی انگریزوں کی stoogeتھی۔ اب بھی اس روایت پر لوگ یقین رکھتے ہیں اور قلی خان فیملی سے وفاداری کی توقع نہیں رکھتے۔
سوال: اچھا اس وجہ سے کہ قلی خان انگریزوں کا آلہ کار تھا۔ اسکندر مرزا نے آپ سے کہا کہ تم نے حبیب اللہ پر بھروسہ کیوں کیا۔ آپ نے اس کے جواب میں کیا کہا؟
جواب: میں نے کہا کہ یہ ہماری غلطی تھی۔
سوال: آپ کے اس سارے معاملے میں آپ کی بیگم صاحبہ کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟
جواب: ان کو اس لئے گرفتار کیا کہ وہ سازش میں شریک ساتھیوں سے میرے گھر پر ملا کرتی تھیں۔
سوال: بیگم صاحبہ کا تعلق آپ کی اپنی فیملی سے تھا اور کیا یہ خاندانی رسم و رواج کے مطابق طے شدہ رشتہ تھا ؟
جواب: وہ بیگم شاہنواز کی صاحب زادی تھیں جن کا تعلق لاہور سے تھا۔
سوال :1958ء کے مارشل لاء کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا تھے ؟
جواب : میں اس کے خلاف تھا۔ میری رائے میں ایوب خان اچھا سیاسی لیڈر نہیں بن سکتا تھا۔ اور نہ ہی اس میں ملک کو صحیح سمت میں لی جانے کی صلاحیت تھی لیکن مجھے اس نے ہاتھ نہیں لگایا۔
سوال: 1958ء کے مارشل لاء کے بعد آپ کی کبھی ایوب خان سے ملاقات ہوئی تھی ؟
جواب: اس کے بعد ہوئی تھی۔ جب وہ صدر تھا میں دو سال کے لئے لاہور میں تھا۔ وہاں میری ملاقات نواب کالا باغ سے جو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم ملازمت میں دوبارہ کیوں نہیں آجاتے۔
نہیں۔ فوجی ملازمت نہیں بلکہ انہوں نے مجھے روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں ممبر ایڈمنسٹریشن کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش کی اور اس پیشکش کے سلسلے میں ہی ایوب خان سے ملاقات ہوئی۔
سوال: ملازمت کی پیشکش آپ کو نواب کالا باغ نے کی۔ کیا آپ کے ساتھ ان کی دوستی تھی؟
میری شادی 1939ء میں ہوئی تھی جب میں گرفتار ہوا تو میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔
سوال: بیگم صاحب کی گرفتاری کی وجہ سے تو بچوں کے لئے مسئلہ پیدا ہو گیا ہو گا؟
جواب: ہماری گرفتاری پنڈی میں ہوئی تھی۔ گرفتاری کے بعد میرے ملازمہ بچوں کو ان کی نانی بیگم شاہ نواز کے پاس لاہور لے گئی تھی۔ بچے گرفتاری کے دوران لاہور ہی میں رہے۔ پھر ایک سال بعد میری بیگم صاحبہ کو رہائی ملی convictنہیں ہوئی تھیں وہ بھی بیگم شاہنواز کے پاس لاہور چلی گئیں۔
( لمبی سانس لیتے ہوئے) ’’ ڈس اپائنٹ ‘‘ تو پتہ نہیں کس کس نے کیا ہے۔ ( پھر مسکراتے ہیں)
شروع میں تو بڑے سیاست داں تھے مثلاً لیاقت علی خان ، خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر ایوب کھوڑو وغیرہ۔
جواب: نشر اچھا آدمی تھا۔ لیاقت علی خان بھی ٹھیک آدمی تھا۔ میرے ان کے ساتھ معمولی اختلافات تھے۔
سوال: لیکن یہ بہت بڑھ گئے تھے؟
جواب: ہاں بڑھ گئے تھے۔ میری غلطی تھی۔ میری لائن آف ایکشن غلط تھی۔ جس کی وجہ سے مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
سوال: میں معلوم کر رہا ہوں کہ آپ کو ’’ ڈس اپائنٹ ‘‘ کس کس نے کیا۔ ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے۔ انسان بعض لوگوں سے متاثر ہوتا ہے۔ بعض لوگ اسے مایوس کرتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب: مجھے تو اس وقت تمام لوگوں میں ایک ہی خامی نظر آتی ہیں کہ وہ لگن کے ساتھ جمہوریت کی بحالی کے لئے کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس سب لوگوں کو متحد ہو کر ماڈرن ڈیموکریسی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ ترکی کی طرح کی جمہوریت کے لئے کام کریں۔ ہمارے ملک میں جیسی جمہوریت ہے ویسی جمہوریت کے لئے نہیں۔ یہاں تو ہر چیز میں اسلام اسلام کیا جاتا ہے۔ ترکی کی طرح ہونا چاہئے ۔ جو سیکولر ہے۔ لوگوں کو نہ ہی آزادی ہے۔
سوال: ہمارے ملک میں ایک دفعہ بحث چلی تھی کہ مسلح افواج کو ترکی افواج کے طرز پر کوئی کردار مختص کیا جائے؟
جواب: ضیا ء تو دے رہے ہیں۔
سوال: جب آپ ترکی کے نظام اور معاشرے کے معترف ہیں تو پھر ؟
جواب: میں ترکی میں فوج کے اس کردار کا مخالف ہوں میں ترکی کو جدید طور پر استوار کرنے کا معترف ہوں۔
سوال : آپ بھی پاکستان کو سیکولر مملکت دیکھنا چاہتے ہیں؟
جواب: ہاں ہاں واقعی۔
سوال: آپ ترک فوج کے کردار سے کیوں مطمئن نہیں ہیں؟
جواب: فوج کا کردار ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے فوجی کو صدر بنایا ہوا ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ میں برطانوی طرز کا قائل ہوں۔ تمام فوج اور فوجی افسران سول حکومت کے تابع ہونے چاہئیں اور سول حکومت کو ماڈرن ہونا چاہئے۔
سوال: آپ زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
جواب: پوری زندگی گزارنے کے بعد یہ خیال آتا ہے کہ اگر زندگی ملی تو اسے اس طرح گزاروں گا جس طرح میں اپنی موجودہ زندگی گزاری ہے۔ میں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں جنہیں اب کسی حالت میں دہرانا نہیں چاہتا ہوں ۔
سوال: جب آپ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا تو تشدد کیا گیا ہو گا؟
جواب: نہیں کوئی تشدد نہیں کیا تھا۔
سوال : کہا جاتا ہے کہ آپ کی بیگم صاحبہ کو ٹارچر کیا گیا تھا؟
جواب: نہیں۔ گھر کی تلاشی لی تھی۔ وہ دستاویز تلاش کرنا چاہتے تھے۔ میں نے البتہ یہ سنا تھا کہ فیض صاحب پر لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کیا گیا تھا لیکن انہوں نے کبھی مجھ سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ غالبا محمد حسین عطا پر تشدد کیا گیا ہو گا کہ وہ کمیونسٹ تھا۔ تین مہینہ بعد ہم سب کو حیدر آباد جیل میں یکجا کر کے ہم پر مقدمہ چلایا گیا جہاں کوئی تشدد نہیں کیا گیا تھا۔
سوال: حیدر آباد جیل میں رہنے کے بعد آپ کے تعلقات میر رسول بخش تالپور سے استوار ہوئے تھے ؟
میجر جنرل محمد اکبر خان ریٹائرڈ کے ساتھ یہ انٹرویو جنرل صاحب کی کراچی کی رہائش گاہ پر28اپریل 1987ء کو ریکارڈ کیا گیا۔

جواب دیں

Back to top button