Column

پنجاب لیبر کوڈ 2024مسترد کرتے ہیں

چودھری محمود الاحد

دنیا میں جہاں بھی قانون سازی ہوتی ہے وہاں کے عوام اور متعلقہ طبقہ کی بہتری کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن پنجاب حکومت اور ILOکی کی مشترکہ کاوش سے مزدوروں کے قوانین کو یکجا کرنے کے نام پر ہونے والی قانون سازی در اصل مزدور طبقہ کو حاصل حقوق اور مراعات کو چھیننے کا قانون بنایا جا رہا ہے۔ 5جون 2024ء کو پنجاب حکومت کے ماہرین نے ایک اجلاس میں اس قانون کو پیش کیا وہاں پر موجود چالیس سے زائد مزدور تنظیموں کے نمائندگان نے اس لیبر کوڈ 2024ء پارٹ تھری پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس پر تبدیلیوں کی ضرورت پر بات کی۔ اس مقصد کے لیے ڈی جی لیبر پنجاب نے دو ماہ کا وقت دے دیا تاکہ اس قانون کو قابل قبول بنایا جا سکے۔ 1923ء سے 2023ء تک رائج شدہ لیبر قوانین کی سو سالہ تاریخ ہے اس قوانین کو بنوانے اور رائج کروانے کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے قوانین کو ختم کرتے ہوئے عالمی مالیاتی اداروں اور ILOکے خاص ایجنڈا کے تحت ان قوانین کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ملک کا دستور اور ILOکے کنونشن مزدوروں کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ قوانین پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا حالانکہ ان قوانین میں بھی بہتری کی ضرورت ہے۔ آج بھی 80%سے زائد مزدوروں کو کم از کم تنخواہ نہیں مل رہی EOBI اور سوشل سیکیورٹی کا تحفظ حاصل نہ ہے۔ ILOکے کنونشن 87کی توثیق کے باوجود یونین سازی انتہائی مشکل ہے اس وقت صرف 2%مزدور منظم ہیں، ٹھیکیداری اور تھرڈ پارٹی کے ذریعے لوگوں کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے جنہیں کسی بھی قسم کے حقوق اور مراعات حاصل نہ ہیں اس پر لیبر ڈیپارٹمنٹ اور حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے بھٹہ مزدوروں اور گھروں میں کام کرنی والے بچے اور بچیوں سے جس طرح کام لیا جا رہا ہے وہ استحصال کی مکروہ شکل ہے جس سے انسانیت شرما جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد لیبر کا محکمہ کنٹریکٹ لسٹ سے نکال دیا گیا ہے، جس پر مزدوروں کی فلاح و بہبود اور ٹریڈ یونین کیلئے قانون سازی کا مکمل اختیار صوبوں کو منتقل کر دیا گیا لیکن بد قسمتی سے کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت نے اپنے ادوار میں ٹریڈ یونین کو کمزور کرنے والے قوانین کو تبدیل نہیں کیا، آج بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ٹریڈ یونین کے ساتھ حقیقی مشاورت کے بغیر لیبر قوانین میں تبدیلی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ایک طویل عرصہ سے مزدور تنظیمیں لیبر قوانین کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں تاکہ ان قوانین کو معیاری، آسان اور سہل بنایا جا سکے تاکہ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو، صنعتی تعلقات کو بہتر کیا جاسکے، کام کی جگہ کو بہتر، محفوظ اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنایا جا سکے۔ مزید سماجی انصاف کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان پرانے قوانین میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت ایسا نہیں کر رہی پنجاب لیبر کوڈ میں بہت سے تعریفیں پہلے سے زیادہ پیچیدہ کر دی گئی ہیں جس طرح،Employer، occupier، workerکی تشریح سے قانونی تنازعات میں اضافہ ہو گا۔ ٹھیکیداری، کنٹریکٹ اور ایجنسی ورکر کے نظام کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مستقل روزگار اور ملازمت کے تحفظ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھٹہ خشت پر پیشگی کو قانونی شکل دینے سے جبری مشقت کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ یہ کوڈ مزدوروں کے یونین بنانے اور اجتماعی سودا کاری ایجنٹ کے غیر مشروط حق ہڑتال کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ آئین پاکستان کی دفعہ 17اور ILOکے بنیادی کنونشن 144۔Cاور 87سے متصادم ہے لیبر کوڈ کے اندر لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسران کو جج تعینات کرنا بیوروکریسی کو مرکزیت دینا جیسے مختلف پہلوئوں پر تحفظات ہیں۔ پنجاب بھر کی تمام بڑی اور موثر مزدور تنظیموں نے اس پر طویل مشاورت اور اس کا مطالعہ کرنے کے بعد پنجاب لیبر کوڈ کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ غیر ممالک کے نام نہاد ترقی یافتہ صنعتی نظام کی کاپی چیٹ قانون کو یہاں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ اگر حکومت مزدوروں کیلئے لیبر قوانین آسان بنانا چاہتی ہے تو پنجاب لیبر کوڈ کو واپس لے اور ILOکے کنونشن 144۔ Cپر عمل درآمد کرتے ہوئے سہ فریقی وسیع مشاورت کا اہتمام کرے جس کے ذریعے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے اور موجودہ لیبر قوانین میں تبدیلی اور اسے آسان بنانے کیلئے ایک شفاف عمل کو یقینی بنایا جائے۔ پنجاب بھر کی لیبر تنظیموں اور رہنمائوں کا اتحاد لیبر الائنس اپنی پنجاب لیبر کوڈ 2024 کے رہنمائوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر حکومت پنجاب نے ہمارا یہ مطالبہ نہ مانتا تو ہم اس مزدور دشمن لیبر کوڈ کے خلاف بھر پور تحریک چلائیں گے۔ اگر حکومت نے اسے زبر دستی یک طرفہ طور پر نافذ کرنیکی کوشش کی اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ جس سے صنعتی امن تباہ ہو گا، جس کی ساری ذمہ داری حکومت پنجاب پر ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button