اولمپیئن ارشد ندیم

علی حسن
کھیل کھیل میں ہی ارشد ندیم نے ایسا کھیل کر دیا کہ ہر طرف سے نتائج اسی کے حق میں نکل رہے ہیں۔ ہر قسم کے انعامات کی بارش اسی پر ہو رہی ہے۔ وہ کوئی سارے کاروبار کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی اولمپکس میں تھرو کے چیمپئن سب کو دیکھتے ہی رہے اور سب لوگ انہیں ہی دیکھتے رہ گئے۔ اولمپکس میں تاریخی کامیابی کے بعد وزراء ہوں یا افسر، ارشد کی کامیابی کا جھنڈا اٹھانے میں مصروف ہیں۔ کیا واقعی ارشد کی اس کامیابی میں سارے سرکاری اداروں کا کردار ہے یا صرف ارشد کا ہی کردار اور محنت ہے۔ ان کے بھائی نے تو یہ ہی کچھ اس طرح کہا کہ پنجاب کے چھوٹے سے گائوں میں رہائش رکھنے والے ان کے بھائی کی ذاتی کوشش ، محنت اور لگن کو ہی دخل ہے۔ کسی اور کا کوئی کردار نہیں ہے۔
صحافی شہناز احد نے کیا خوب برملا تبصرہ کیا ہے کہ اس بات کی تحقیقات ضروری ہے کہ 28رکنی سیر و تفریح کے لئے جانے والے سرکاری وفد میں ایک کھلاڑی کیسے شامل ہوا۔ تحقیقات تو بہت ساری چیزوں کی بہت ضروری ہے۔ کرکٹ کے ساتھ منتظمین اور کھلاڑیوں نے جو رویہ اختیار کیا اور اس کو جو حشر کیا گیا، یہ سوائے تفریح دورے کے علاوہ کچھ اور انہیں تھا۔ عجیب حیران کن بات ہے کہ کھلاڑیوں کے چہروں پر شرم اور ندامت تک نہیں تھی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ معاشی طور پر پیسے پیسے سے محروم قوم کو کسی معمولی اعزاز سے بھی محروم ہی رکھا گیا۔ پاکستان میں کرکٹ ہو ہاکی ہو، حتی کہ کشتی کے مقابلے، ماضی میں گاماں پہلوان ، بھولو پہلوان، وغیرہ بھی نام کماتے تھے۔ قوم کو سامان تفریح فراہم کرتے تھے۔ قوم مہینوں ان کے دائو پیچ سے لطف اندوز رہا کرتی تھے۔ گلی گلی ان کے چرچے جاری رہتے تھے۔ ایک زمانے میں ہاکی کا ورلڈ چیمپئن رہنے والا پاکستان کے نام کو منتظمین نے سرے سے ہی مٹا دیا۔ کرکٹ پر زور لگایا گیا تو قوم نے حال ہی میں نتیجہ دیکھ لیا۔ اب تو صورت حال یہ کر دی گئی ہے کہ کھلاڑی کم تو منتظمین کی تعداد زیادہ جاتی ہے جیسا پیرس اولمپکس میں ہوا۔ ارشد ندیم اگر اپنی جان نہیں لڑاتے تو ان کے ساتھ جانے والے تمام لوگ ہی اترے ہوئے چہروں کے ساتھ منہ لٹکائے واپس آجاتے۔
پنجاب اسپورٹس بورڈ کے سربراہ اور صوبائی وزیر رانا مشہود ارشد ندیم کا استقبال کرتے ہوئے اس دوران انہوں نے چیمپئن کے کان پر منہ رکھ کر کوئی تیس سیکنڈ تک شاید کچھ سر لگائے۔۔۔۔ پھر پیار کیا اور اس کے بعد ٹھوڑی کو چھوا۔ ایئر پورٹ سکیورٹی فورس نے جب سلامی پیش کی تو یوں لگا جیسے وزرا کو پیش کی جارہی ہو کیونکہ وہ ارشد سے ایک قدم آگے تھے۔ یہ ماننے کی بات ہے کہ سعد رفیق ہار پہنا کر فورا ایک طرف ہوگئے، عظمیٰ اور دیگر بھی سائیڈ میں ہوتے گئے، بس احسن اقبال اور رانا مشہود نے ساتھ نہیں چھوڑا۔ اور پھر رابطہ کٹ گیا۔۔۔ سنا ہے کہ بدانتظامی کے باعث ہجوم میں سے راستہ نہیں بنایا جاسکا تو سلامی کے بعد ارشد کو واپس اندر آنا پڑا۔ پھر میڈیا کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ارشد کہاں ہے ۔ یہ ایک جھلک ہے ہمارے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے نام نہاد لوگوں کے رویہ کی۔ انہیں ابتداء میں کچھ کرنا نہیں ہوتا ہے، لیکن کسی بھی کامیابی کے بعد وہ لوگ سب کچھ سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ کسی بھی سطح پر کسی بھی کھیل کے کھلاڑیوں کی تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی تعلیم۔ سڑکوں اور گلیوں میں کھیلنے والے نوجوان کسی نہ کسی طریقہ سے اپنی جان لڑاتے ہوئے کہیں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ ان کی تربیت ہوتی ہی نہیں ہے۔ انہیں نشست اور برخاست کی کسی قسم کی کوئی تربیت ہی نہیں ہوتی ہے۔ جب کرکٹ کے کھلاڑی بین الاقوامی میچوں کے موقع پر کمنٹریٹروں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں تو شرمندگی ہی ہوتی ہے۔ یہ کس کی کمزوری ہے۔ یہ ان منتظمین کی کمزوری ہوتی ہے تو لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ قوم کے نوجوانوں میں بدرجہ اتم صلاحیتیوں موجود ہیں لیکن ان صلاحیتوں ل کو پالش کی ضرورت ہے اور کھلاڑیوں کی بہترین تربیت کا سامان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے منتظمین نہ جانے کیوں قدم قدم پر اپنا مذاق اڑواتے ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ارشد ندیم کو او ر کسی طرح کتنا جل دیتے ہیں۔ وہ تمام لوگ ارشد کیا کامیابی کو اپنی کامیابی قرار دلانا چاہتے ہیں تاکہ صرف نام ہی نہیں بلکہ تمام انعامات کے حقدار وہ ہی ٹھہریں۔ یہ عجیب کھیل ہے کہ لوگ ہر کامیابی کو اپنی مٹھی میں سمیٹ لیتے ہیں اور غائب ہوجاتے ہیں۔