CM RizwanColumn

ایک تحویل سو دلیل

سی ایم رضوان
سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو گزشتہ روز فوجی تحویل میں لے کر تفتیشی عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اب تک سامنے آنے والے تمام تر تبصرے اور تجزیات سے ایک بات واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ فیض حمید نے بحیثیت ایک فوجی جرنیل اور آئی ایس آئی چیف کے اپنے اختیارات اور محکمانہ تصرفات کو متعدد مقامات پر ناجائز طور پر استعمال کر کے ادارے کے امیج کو برباد کیا یعنی اس ایک فوجی تحویل کے حق میں سو دلیل دی جا سکتی ہے اور جس طرح کہ آئی ایس پی آر نے کہہ رکھا ہے کہ پاک فوج میں احتساب کا عمل خود کار سسٹم کی طرح کام کرتا رہتا ہے اور ادارے کو اس امر پر فخر ہے۔ مذکورہ الزام علیہ کے خلاف ہونے والی یہ کارروائی ان کے ٹاپ سٹی سکینڈل میں ملوث ہونے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مختلف سنجیدہ سیاسی و انتظامی معاملات میں ملوث ہونے یا پھر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ نو مئی میں ملوث ہونے جیسے الزامات پر تحقیقات کر سکتی ہے۔ تاہم جنرل فیض حمید پر اگر صرف مالی بے ضابطگیوں کا الزام ثابت ہو جائے تو انہیں 8سے 10سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن اگر دیگر نوعیت کے الزامات ثابت ہو گئے تو ان سزاں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ کہنا مناسب ہے کہ جنرل فیض حمید نے جو کچھ کیا ہے اس پر ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق اصولی کارروائی ہو گی۔ فیض حمید کی ہدایات پر غلطی سے ایک اقلیتی وزیر کے گھر غیر قانونی چھاپے کی تفصیل یہ ہے کہ پچھلے سال بارہ مئی کی صبح فجر کے وقت اچانک گلی میں شور سنائی دیا اور دیکھا گیا کہ رینجرز اور فوجی گاڑیوں نے پوری گلی کو گھیرے میں لے رکھا تھا پھر وہ ایک گھر میں داخل ہو گئے، یہ گھر رمیش سنگھ اروڑا کا تھا جو اس وقت رکن قومی اسمبلی بھی تھے۔ اس گھر میں داخل ہوکر سادہ لباس اہلکاروں نے وقار نامی شخص کا پوچھا اور جب گھر والوں کی شناخت کی تو معلوم ہوا کہ وہ غلط گھر میں آ گئے ہیں، مطلوبہ مکان اس گھر کے بالکل سامنے تھا جس پر چھاپہ مارا گیا تھا۔ یہ گھر اسلام آباد کی نجی ہائوسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز کا تھا جنہوں نے قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جنرل فیض حمید کے خلاف درخواست میں کہا تھا کہ مئی 2017ء میں جنرل فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے دفتر اور اُن کی رہائش گاہ پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ریڈ کیا تھا۔ ان کے مطابق ریڈ کے دوران آئی ایس آئی اہلکار اُن کی گھر سے قیمتی اشیاء جن میں گولڈ، ڈائمنڈ اور پیسے شامل تھے اپنے ساتھ لے گئے۔ کنور معیز نے الزام عائد کیا تھا کہ ان سمیت ان کے رشتہ داروں کو کئی دن تک محبوس رکھنے کے دوران ان سے اربوں روپے مالیت کی سوسائٹی چھیننے کی کوشش کی گئی۔ بعد ازاں ان کو دہشت گردی کے کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان کی گرفتاری عسکری 13راولپنڈی کے علاقہ سے ظاہر کی گئی اور بعد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کی گرفتاری سے متعلق خبریں میڈیا پر آنے کے حوالے سے تاریخوں میں فرق کے بعد ان کی ضمانتیں منظور کر لی تھیں۔ بہرحال جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاسنگ سوسائٹی کے معاملہ پر تحقیقات ہو رہی تھیں لیکن اب پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متعدد مواقع پر پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی، لہٰذا ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور ملٹری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید نے نومبر 2022میں اس وقت قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی جب وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پاکستان کی تاریخ کے وہ لیفٹیننٹ جنرل تھے جو اپنے وقت کے وزیراعظم کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے لیکن ان کا نام مختلف مواقع پر سامنے آیا۔ اس کے علاوہ فیض آباد کے مقام پر ٹی ایل پی کا دھرنا ہو یا پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے فیض حمید کا نام لے کر دبا ڈالنی کا الزام، پانامہ کیس میں ججز کو کنٹرول کرنے کا الزام ہو یا پھر وزیراعظم ہاس میں وزیراعظم کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا الزام، ہر معاملے میں فیض حمید کا نام سامنے آتا رہا جبکہ ایک مرحلے پر ٹاپ سٹی کیس میں سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں ان کی درخواست نمٹا دی گئی تھی اور عدالت نے حکم دیا تھا کہ وہ اس بارے میں موجود ریمیڈی یعنی وزارت دفاع کو درخواست دیں تو وہ یہ معاملہ دیکھ سکتے ہیں جس میں اس وقت کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس معاملے پر درخواست کے بعد وزارت دفاع لازماً غور کرے گی۔ اس پر کنور معیز نے 12مئی کو پیش آنے والے واقعہ کے ساتھ ساتھ اس کے بعد پیش آنے والے واقعات پر بھی بات کی۔
وزارت دفاع کو دی جانے والی درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ بریت کے بعد جنرل ( ر) فیض حمید نے معیز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لئے رابطہ کیا جو کہ فوج میں ایک بریگیڈئیر ہیں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل ( ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400تولے سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کر دیں گے۔ درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈئیر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈئیر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 روڑ روپے نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لئے ایک نجی چینل کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔ درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔ اس درخواست پر رواں سال اپریل میں پاک فوج کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ فیض حمید کے خلاف ایک حاضر سروس میجر جنرل انکوائری کریں گے۔ شنید ہے کہ اسی انکوائری کے نتائج آنے کے بعد جنرل فیض حمید کو اب ملٹری تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ جنرل فیض حمید پر ایک عرصہ سے سیاست میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے اور وہ بھی صرف دوران سروس ہی نہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاست میں بہت زیادہ ملوث رہنے کے الزامات ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے کئی قائدین کو وہ مختلف افراد کے ذریعے فون کر کے دبا ڈالتے رہے اور اہم فوجی شخصیات کے خلاف الزامات لگانے اور نام لینے کا بھی کہتے رہے۔ نو مئی کے روز جو واقعات پیش آئے بقول بعض عناصر کے فیض حمید اس کے مرکزی کردار تھے جن کا نام سامنے نہیں آ رہا تھا لیکن وہ ان تمام معاملات کے ذمہ دار تھے۔ موجودہ حالات میں جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی تو شروع ہو گئی لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ان معاملات میں کس حد تک مداخلت تھی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کیونکہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی غور طلب امر ہے کہ فیض حمید نے آرمی چیف بننے کے لئے بہت زیادہ لابنگ بھی کی تھی لیکن تب شہباز شریف نے ان سے ملاقات نہیں کی تھی اور یوں ان کی کوششیں ناکام رہیں۔
بہر حال جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی میں کیا کچھ ہو سکتا ہے اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ فیض حمید کے خلاف ہونے والی کارروائی انکوائری کے بعد ہو رہی ہے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ انکوائری کمیشن کے پاس اس حوالے سے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ جنرل فیض حمید پر اگر صرف مالی بے ضابطگیوں کا الزام ثابت ہو جائے تو بھی انہیں 8سے 10سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں، لہٰذا ان پر کون سے الزامات ہیں اس بارے میں کورٹ مارشل کی دیگر تفصیلات سامنے آنے پر ہی پتہ چل سکے گا۔ پاک فوج میں خود احتسابی کا عمل جاری رہتا ہے جبکہ کسی سینئر افسر کے خلاف اس نوعیت کی یہ انکوائری پہلی بار نہیں ہو رہی۔ ماضی قریب میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو کورٹ مارشل کے بعد سزا سنائی گئی تھی، جبکہ این ایل سی سکینڈل میں ملوث ہونے پر متعدد سینئر افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل عبید کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کی گئی تھی۔ حالیہ عرصہ میں حکومت کی طرف سے آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے بعد ریٹائر ہونے والے افسران کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جنرل فیض حمید نے بھی جو کچھ کیا ہے اس پر ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی ہو سکتی ہے اب دیگر سینئر افسران کو بھی محتاط رہنا چاہیے وگرنہ نظام خود احتسابی کے تحت ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے البتہ فیض حمید کے خلاف یہ کارروائی فوج سے متعلق امیج کو بہتر کرنے کا باعث ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button