شطرنج

علیشبا بگٹی
شطرنج یعنی ’’ چیس ‘‘، اسی برصغیر کے خطے میں ایجاد ہوئی تھی۔ یہ گیم گپتا خاندان کی حکومت کے دوران سیزا نام کے ایک شخص نے ایجاد کی تھی۔ اس کی ایجاد کے ساتھ ایک انتہائی اہم اور دلچسپ داستان جڑی ہے۔ کہتے ہیں کہ چھٹی صدی میں برصغیر میں گپتا خاندان کی سلطنت قائم تھی۔ گپتا خاندان کا بادشاہ روایتی کھیلیں دیکھ دیکھ کے تنگ آ چکا تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے اعلان کروایا۔ جو بھی بادشاہ کے لئے نیا اور دلچسپ کھیل متعارف کروائے گا۔ اس کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ سیزا اپنا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس آیا۔ سیزا کا گیم بادشاہ کو پسند آیا۔ تو بادشاہ نے خوشی کے عالم میں سیزا سے کہا ’’ مانگو کیا مانگتے ہو‘‘۔ سیزا نے کچھ لمحے کے لئے سوچا اور عرض کی ’’ حضور چاول کے چند دانے ‘‘، بادشاہ نے پوچھا ’’ کیا مطلب ؟‘‘، سیزا نے کہا ’’ آپ چیس کے 64خانے چاول سے بھر دیں، لیکن میرے فارمولے کے مطابق ‘‘۔۔۔ بادشاہ نے کہا ’’ یہ فارمولا کیا ہے ؟ ‘‘، سیزا نے کہا ’’ آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر دے دیں، دوسرے دن دوسرے خانے میں دوگنا اور تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے دوگنا چاول ڈال کر دے دیں اور اسی طرح چاول کی تعداد کو ہر خانے میں پچھلے خانے سے دوگنا کرتے جائیں، یہاں تک کہ 64خانے پورے ہو جائیں‘‘۔ بادشاہ نے اس بیوقوفانہ مطالبے پر قہقہہ لگایا اور شرط منظور کر لی اور اس شرط سے وہ گیم شروع ہوئی جس سے آج کے دور میں مائیکرو سافٹ جیسی کمپنی نے جنم لیا۔ یہ بظاہر ایک آسان کام لگتا ہے لیکن یہ دنیا کا مشکل ترین معمہ تھا۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود شطرنج کے 64خانوں کو چاولوں سے بھرنا آج بھی بالکل ممکن نہیں۔ بادشاہ نے پہلے دن چاول کا ایک دانہ شطرنج کے پہلے خانے میں رکھ کر سیزا کو دیا، سیزا نے لیا اور چلا گیا۔ دوسرے دن بادشاہ نے دوسرے خانے میں دو دانے رکھ کر سیزا کو دئیے اور تیسرے دن تیسرے خانے میں چاول کی تعداد چار ہو گئی اور چوتھے روز چاول کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ پانچویں دن سولہ اور چھٹے دن تعداد بتیس ہو گئی، ساتویں دن 64اور آٹھویں دن128ہو گئی۔ یعنی شطرنج کی پہلی رو کے آخری خانے میں چاولوں کی تعداد 128ہو گئی۔ نویں دن ان کی تعداد 256، دسویں دن 528اور گیارہویں دن 1024ہو گئی۔ اور بارہویں دن یہ 2048ہوگئی۔ تیرہویں دن یہ تعداد 4096ہو گئی اور چودہویں دن یہ تعداد 8192ہو گئی۔ پندرہویں دن یہ تعداد 16384اور سولہویں دن 32768ہو گئی اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں۔ اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑا اندازہ ہو گیا کہ وہ مشکل میں پھنس گیا ہے۔ کیونکہ وہ خود اور اس کے سارے مشیر سارا دن بیٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔ شطرنج کی تیسری قطار کے آخر تک پہنچتے چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو یہ چاول میدان تک لانے اور سیزا کو دینے کے لیے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑگئی۔ جب شطرنج کی تیسری رو کا تیتسواں خانہ شروع ہوا تو پورے ملک میں چاول ختم ہو گئے۔ بادشاہ حیران رہ گیا۔ اس نے اسی وقت ریاضی دان منگوائے اور ان سے پوچھا شطرنج کے 64خانوں کے لئے کتنے چاول درکار ہوں گے؟ اور اس کے لیے کتنے دن چاہئیں ؟ ریاضی دان کئی دن تک بیٹھے رہے مگر وہ چاولوں کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ کچھ کہتے ہیں کہ محاسبان شاہی نے جب حساب لگایا۔ تو چاولوں کا مجموعی وزن 75کھرب من کے قریب نکلا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ وزن ساڑھے پانچ کھرب ٹن سے بھی زیادہ ہے۔ آخر کار بادشاہ نے تنگ آکر اس سیزا کا سر ہی گردن سے اڑانے کا حکم دے دیا۔
بعد میں بل گیٹس نے اندازہ لگایا کہ اگر ایک ساتھ 19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آسکتے ہیں۔ بل گیٹس نے کہا اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں۔ تو ہمیں 18ارب بوریاں درکار ہونگی۔ اور ان چاولوں کو گننے اور شطرنج پر رکھنے اور اٹھانے کے لئے ڈیڑھ ارب سال چاہئیں۔
کہتے ہیں جہاں کھیل دماغ کا ہو، وہاں طاقت لگانا فضول ہے۔
تنویر احمد ’’ شطرنج کی بساط پر سانس لیتی زندگی‘‘ کے عنوان پر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ زندگی کو تھوڑی دیر کیلئے شطرنج کی بساط پر ڈال کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے اصول دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا ہماری زندگی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
شطرنج کا پہلا اصول یہ ہے کہ جب کھیل شروع ہوجائے تو ابتدائی چالوں میں ایک مہرے کو دو بار نہیں چلنا تاکہ بغیر وقت ضائع کئے آپ کی ساری فوج میدان کار زار میں اُتاری جاسکے اور دشمن پر کاری ضرب لگانے کے قابل ہو۔ آج تک انسانی تاریخ کی بہت سی جنگیں اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے جیتی گئی ہیں۔ یہ ہماری زندگی میں سوچ فکر و تدبر کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ شطرنج کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر چال چلنے سے پہلے خوب سوچ لیا جائے۔ اپنی چال کے عواقب و نتائج پر خوب غور کر لیا جائے اور یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ دشمن کے پاس اس چال کا توڑ کیا ہے؟ شطرنج کا تیسرا اصول یہ ہے کہ بساط پر بچھے ہوئے سب مہرے ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہوں۔ ہر مہرہ دوسری مہرے کے زور پر ہو۔ کسی مہرے کو بساط پر شتر بے مہار کی طرح نہ چھوڑا جائے جس طرح ریوڑ سے بچھڑی ہوئی بھیڑ بھیڑئیے کا شکار بن جایا کرتی ہے۔ اسی طرح تنہا اور بے زور مہرہ بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ شطرنج کا چوتھا اصول یہ ہے کہ اس میں سپاہی ہمیشہ آگے ہی بڑھتے ہیں۔ انہیں پیچھے نہیں ہٹنا ہوتا۔ شطرنج کے پیادے شجاعت کی ناقابل فراموش تاریخ رقم کرتے ہوئے دشمن کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ شطرنج کے دوسرے مہرے گھوڑے ہاتھی توپیں اور وزیر انہیں پیچھے سے سہارا دئیے رکھتے ہیں۔ اور یہ سب اپنے بادشاہ اور ملکہ کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ راز داری زندگی کے زریں اصولوں میں سے ایک بہترین اصول ہے۔ شطرنج کا پانچواں اصول راز داری ہے۔ شاطر اسی اصول کی روشنی میں مہرے چلتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد اگر مکا یاد آئے تو اسے اپنے منہ پر مارنا چاہئے۔ شطرنج کا چھٹا اصول یہ ہے کہ تمام مہرے اتنی مناسب جگہوں یا پوزیشن پر ہوں جہاں سے ان کو بروقت استعمال کرکے دشمن پر کاری ضرب لگائی جاسکے۔ اگر میدان جنگ میں آپ کی توپ اپنے ہی مہروں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے تو اس سے کاری ضرب نہیں لگائی جاسکتی۔ انسانی جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سپہ سالار کی جنگی مہارت ہی فتوحات کا سبب بنا کرتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالار خالد بن ولید جن کا ثانی آج تک پیدا نہیں ہوا۔ امیر تیمور جس نے ستائیس ممالک فتح کئے۔ چنگیز خان کی شاندار فتوحات، سکندر اعظم اور دوسرے بہت سے فاتحین اس کی روشن مثالیں ہیں۔ شطرنج کا ساتواں اصول شاطر کی مہارت بہادری حوصلہ مندی دانش مندی، صحیح وقت پر صحیح فیصلہ اور صحیح چال چلنا ہے۔ اگر زندگی کی جنگ میں دماغ کو شاطر یا سپہ سالار مان لیا جائے تو ساری بات واضح ہوجاتی ہے۔ اس دُنیا میں زندگی بھی ایک شطرنج کے کھیل کی طرح بن کر رہ گئی ہے۔ بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے۔
ہوشیاری سے سمجھ کر چال چلنا چاہیے
کارِ دنیا بھی ظفر شطرنج کا سا کھیل ہے