Column

کشمیری مسلمانوں کے استحصال کی تاریخ

تحریر : محمد ساجد قریشی الہاشمی
ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے استحصال کا باقاعدہ آغاز 15اگست 1846ء بیعہ نامہ امرتسر کے ذریعے ہوا جب مہذب ترین اور تہذیب یافتہ ہونے پر ناز کرنے والوں نے ایک جیتی جاگتی قوم کو صرف 75لاکھ سکہ نانک شاہی کے عوض گلا ب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھوں فروخت کر کے انسانی تاریخ کی ایک انوکھی مثال قائم کرکے جموں و کشمیر کے سیاہ مقدر کی بنیاد رکھ دی۔ ڈوگروں نے اپنے سوسالہ دور میں اپنی بے زبان اور مجبور رعایا پر دل کھول کر ظلم و ستم کیے اور ان کے لیے زندگی کو عذاب بناکے رکھ دیا۔ اس میں شک نہیں کہ ہندو بہت شاطر اور دور اندیش قوم ہے اور اکثریت میں ہونے کی وجہ سے وہ بزعم خود اپنے آپ کو ہندوستان کا مالک و مختار سمجھتے تھے۔ جب برصغیر میں مسلمانوں نے اپنے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع کی تو اس کے ساتھ ہی کشمیریوں میں بھی ڈوگروں کے ظالمانہ تسلط سے نجات کی امید پیدا ہو گئی۔ جب باقاعدہ برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہوا تو یہاں بھی ہندو ذہنیت کارفرما ہوئی اور اس نے شیخ عبداللہ کو شیشے میں اتار کر کشمیر میں مسلم وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ شیخ عبداللہ اور
انڈین نیشنل کانگریس کے گٹھ جوڑ کو رئیس الاحرار قائد ملت چودھری غلام عباس کی سیاسی بصیرت نے بھانپ لیا اور انہوں نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کی جھولی میں گرنے سے بچالیا۔ بانی پاکستان نے بھی کشمیری رہنمائوں کو بھارتی عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے خاص طور پرسرینگر کا دورہ کیا لیکن شیخ عبداللہ نے مان کے نہ دیا کیونکہ وہ چند مراعات کے عوض اپنے آپ کو گروی رکھ چکے تھے ۔ قائد اعظمؒ نے بھارت سے الحاق کے حامیوں کو باور کرایا کہ میں ہندوئوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف ہوں اور یہ کبھی بھی آپ سے وفا نہیں کریں گے اور ایک وقت آئے گا کہ آپ کو اس فیصلے پر پچھتانا پڑے گا۔ کشمیری مسلمانوں نے شیخ عبداللہ کی سازش کو بھانپ کر اپنے آپ کو پاکستان سے الحاق کی صورت میں محفوظ سمجھتے ہوئے پاکستان بننے سے پہلے ہی سرینگر میں غازی ٔ ملت سردار محمد ابراہیم کے گھر پر پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا تو بھارت نے اپنی پہلے کے تیار کردہ منصوبے کے مطابق سرینگر میں فوجیں اتارنا شروع کر دیں لیکن نہتے کشمیری مسلمانوں نے ڈٹ کر بھارتی اور ڈوگرہ فوجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا یہ حصہ آزاد کرا لیا۔ بھارت نے جموں و کشمیر پر قبضے کروانے کی سازش کو کامیاب کروانے پر شیخ عبداللہ کو انعام کے طور پہ اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی حکومت انعام کے طور پر دے کر یہاں کے مسلمانوں کے جبری استحصال کے دوسرے دور آغاز کر دیا۔ بھارت نے اپنے قبضے کو دوام دینے اور بھارت سے الحاق کے کشمیری رہنمائوں کو لبھانے کے لیے اپنے آئین میں جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کے لیے آرٹیکل 370اور اس کی ذیلی شق35A کا اضافہ کیا جس کے تحت کشمیر کو دکھانے کے لیے اندرونی خود مختاری تو حاصل رہی لیکن اصل اختیارات کا منبع مرکز کا مقرر کردہ گورنر ہی ہوتا تھا۔ اس تمام عرصے میں کشمیری عوام بھارت بربریت کا نشانہ بنتے رہے لیکن شیخ عبداللہ خاندان اپنی حکومت کے مزے اڑانے میں مصروف رہا۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے بھیانک استحصال کا تیسرا دور 5اگست2019ء کو شروع ہوتا ہے جب بھارت کی متعصب جماعت بی جے پی ے اپنے دوسرے دور حکومت کے شروع میں ہی بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حامل قوانین کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کے بعد نریندر مودی نے کہا تھا کہ اب کشمیریوں کے خواب پورے ہوں گے لیکن انہوں نے زعفران و چناروں کی سرزمین کو انگار وادی میں تبدیل کر دیا اور اس جنت ارضی کو جہنم ارضی میں بدل کے رکھ دیا۔ نریندر مودی 2014 ء میں ہی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا عزم کیے ہوئے تھے اور وہ اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ بھارت کے اس اقدام سے ان بھارت نواز سیاستدانوں، جو اسی بنا پر بھارت سے مراعات سمیٹتے رہتے تھے، ان کی سیاست کی بنیاد ہی ختم ہوگئی اور وہ دھڑام سے زمین پر آگرے تو وہ ا س وقت خون کے آنسو رو رو کر اپنے ناعاقبت اندیش بزرگوں کو کوسنے دے رہے تھے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کی بات نہ مان کر غلطی کی۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو محکوم رکھنے اور اپنے قبضے کو دوام دینے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے۔
اس نے پوری وادی کشمیرکو ایک جیل میں تبدیل کرکے اسے دنیا میں سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا علاقہ بنا دیاہے۔ عالمی برادری کی مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے بھارت کو شہ مل گئی اور وہ ایک خاص منصوبے کے تحت کشمیر کی ثقافت ، معیشت ، معاشرت اور آبادی کے تناسب کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ بی جے پی کی ہندو توا حکومت نے کشمیر کے اسلامی تشخص اور اس کی مسلم پہچان پر بھی سنگین وار کیا ہے ۔ وہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بھی بگاڑنے کی کوشش میں اب تک5لاکھ غیر ریاستی باشندوں کو سکونتی سرٹیفیکیٹ دے چکا ہے۔ بھارتی قابض فوج کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو ان کی ذاتی جائیدادوں اور ان کی زرخیز زرعی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں نان نفقہ سے بھی محروم کرنے کی شرمناک کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، نہ اسے عالمی برادری کی تنقید کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پاسداری کوئی خیال۔ کشمیر کے سماجی ، مذہبی، کاروباری اور عام لوگ اس بات پر فکرمند ہیںکہ یہ سلسلہ اب رکے گا نہیں اور ان کو صدیوں سے آباد اپنے آبائی گھروں سے بے دخل کرنے کی کارروائیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ ان تمام حربوں کے باوجود اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حساب دینا ہوگا۔ وہ ریاستی جبر و تشدد کے ذریعے زیادہ دیر تک کشمیریوں کو ان کے جائز اور قانونی حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ پاکستانی عوام اور حکومت ا ن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور ان کی منزل کے حصول تک کھڑے رہیں گے۔ یوم استحصال منانے کا مقصد کشمیری عوام کے ساتھ پاکستانی عوام کی طرف سے یکجہتی اور ان کے حق ارادیت کے حصول تک ان کی جدوجہد میں ہر ممکن مدد و حمایت کا اعادہ کرنا ہے۔ بھارت اپنے تمام تر وحشیانہ ہتھکنڈوں اور ظلم و بربریت کے باوجود کشمیریوں کے عزم کو پامال نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی ان کے پیدائشی حق ، حق خودارادیت سے باز رکھنے میں اس کی کوئی کوشش کامیاب ہوئی ہے۔ کشمیریوں کی یہ جدوجہد جاری رہے گی اور وہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنی منزل حاصل نہیں کر لیتے !!!
چلو کہ منزل بلا رہی ہے چلو کہ منزل بلا رہی ہے
ہرے بھرے موسموں کے پیچھے نئی سحر مسکرا رہی ہے

جواب دیں

Back to top button